ایک بار پھر ائیر بلیو میں ہوں


میں اس وقت ائر بلیو کی فلائٹ سے اسلام آباد جا رہی ہوں۔ فلائٹ میں بیٹھے ہوئے وہ وقت یاد آگیا جب ہم ٹریننگ ختم کرنے اور تھیوری پاس کرنے کے بعد پلاسٹک سرجری کا زبانی امتحان دینے اسلام آباد جا رہے تھے۔ امتحان کی تیاری کے دوران کی بے روزگاری ہم کم سے کم سستی فلائٹس ڈھونڈ رہے تھے اور پھر بالآخر ائر بلیو سے جانے کا فیصلہ طے پایا۔ ائیر بلیو کے حادثے کو ابھی چند مہینے گزرے تھے اور یادیں ابھی تازہ تھیں۔ بھائی جان نے امتحان میں کامیابی کی دعا دی اور جانے کے انتظام کے بارے میں پوچھا۔

میں نے جب بتایا کہ ائر بلیو سے جارہی ہوں تو ہنسنے لگے اور کہنے لگے اپنی کوئی اچھی تصویر دے جاؤ۔ میں نے کہا کہ کیا کریں گے کہنے لگے اگر جہاز گر گیا تو جیو والے گھر آئیں گے تو ہم اس تصویر ہر ہار پہنا کر بیک گراؤنڈ میں رکھیں گے۔ اور میں ابھی سے ڈائلاگ کی تیاری شروع کر دیتا ہوں۔ ارے بھئی اب تمہاری تعریف بھی کرنا پڑے گی۔ ہم سب ہنسنے لگے۔ نیوز چینلز نے لواحقین کا جو حال کیا تھا وہ آج بھی لوگوں کو یاد ہوگا۔ اور جو گھر میں سب سے چھوٹا ہو اس کے ساتھ یہ چھیڑ خانی زندگی کی ہر اسٹیج میں جاری رہتی ہے۔ یہی ہمارے خاندانی نظام کی خوبصورتی ہے۔

ہم چار ڈاکٹرز تھے جو امتحان کے لئے اسلام آباد جارہے تھے۔ جہاز میں بیٹھے تو ہمارے سب سے چلبلے ڈاکٹر فیصل نے ائر پوسٹس سے کہا میڈم مارگلہ سے مت جائیے گا ابھی تو ہم نے امتحان بھی پاس نہیں کیا۔ ایف سی پی ایس کی حسرت رہ جائے گی۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے۔ یہ سن کر ائیر ہوسٹس بھی اپنی ہنسی نہ روک پائی اور ارد گرد کے لوگ بھی ہنسنے لگے۔ فلائٹ کے دوران وہ جب بھی ہمارے پاس سے گزرتی ڈاکٹر فیصل یہی جملہ دہراتے مارگلہ سے مت جانا۔

خیر سے سفر گزرا اور پھر اس کے بعد بھی کئی بار ائیر بلیو اور پاکستان کی بقیہ ائیر لائینز میں سفر کا موقعہ ملا۔ آج بھی پلاسٹک سرجری کی کانفرنس کے لئے اسلام آباد جانا ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز کاسمیٹک سرجن ڈاکٹر ہمایوں مہمند نے نیشنل اور انٹرنیشنل ماہرین کی شراکت سے اس کانفرنس کا انعقاد کیا ہے۔ شروع تو یہ جمعرات سے ہوئی لیکن کچھ اپنے اسپتال کی مصروفیات اور پھر شکاگو سے آئے ہوئے پاکستانی پلاسٹک سرجن ڈاکٹر فاروق شہزاد کی میزبانی بھی کرنا تھی۔ ایسے لوگوں سے مل کر خوشی ہوتی ہے جو ملک سے باہر رہ کر بھی ملک کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ کل ان کے ساتھ پیدائشی کٹے ہوئے ہونٹ اور تالو کے بچوں کے موضوع پر سیمینار رکھا تو اس کے بعد سب سے آسان فلائٹ اج صبح کی لگی اور ائیر بلیو کی فلائٹ ہے تو ایسے ہی یہ سب یاد آگیا۔

فلائٹ کا عملہ مستعدی سے کام میں مصروف یے۔ ائیر یوسٹس ادھر سے ادھر بے فکری سے گھوم رہی ہیں اور مسافروں کو ناشتہ کروانے میں مشغول ہیں۔ ابھی میں نے اس سے چائے لی ہے اور مجھے ہنسی اگئی جسے میں نے روک لیا ہے۔ ہم سب کو امتحان پاسکیے ایک عرصہ گزر گیا اور ہم مختلف ہسپتالوں میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر فیصل سول اسپتال کے پلاسٹک سرجری کے انچارج بن چکے ہیں۔ ہم نے اپنے استادوں سے سیکھا ہوا علم اگلی نسل میں پہنچانے کا کام شروع کردیا ہے۔ زندگی رواں دواں ہے۔ اور ائر ہوسٹس ناشتے کی ٹرے لے کر جا چکی ہے۔ ہم اسلام آباد پہنچنے والے ہیں۔ تو یوں ہی خیال آیا ہے۔ اس حادثے کے بعد تحقیق ہوئی ہوگی معاملات کو بہتر بنایا گیا ہوگا لیکن کیا لوگوں نے ائیر بلیو میں سفر چھوڑ دیا یا فضائی سفر چھوڑ دیے۔

دنیا میں اس سے پیشتر اور اس کے بعد بھی فضائی حادثے ہوئے لیکن کیا ہم نے فضائی سفر چھوڑ دیے۔ نہیں نہ۔ تو پھر یہ کہاں کی منطق ہے کہ اگر کسی مدرسے میں مولوی صاحب نے بچوں کو پیٹا تو ہم دینی تعلیم چھوڑ دیں۔ بس ایسا ہی ایک مضمون جب سے پڑھا دل میں کچھ بے چینی سی تھی۔ ایک اچھا انسان اچھا ہوتا ہے اور برا انسان برا۔ برے انسان کی برائی سے انسانیت ختم نہیں ہوتی۔ ایسے ہی ایک اچھا مسلمان اچھا ہوتا ہے اور برا مسلمان برا۔ برے مسلمان کی وجہ سے اسلام برا نہیں ہوتا۔ جب ہم دیگر معاملات کو انفرادی طور پر پرکھتے ہیں تو اس طرح کے واقعات کو بھی انفرادی سطح پر دیکھنے کی تحقیق کرنے کی اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).