دس روپے کی ٹھرک


مسیں بھیگنےسے بہت پہلے جذبات کو پسینہ آجایا کرتا تھا اور پسینہ خشک کرنے کے لئے جو جو جتن کیے پلٹ پلٹ کر ذہن کی سکرین پر کسی فلم کی طرح چلنے لگے ہیں۔ ایامِ جوانی میں قدم رکھا توٹین ایج لاء آف اٹریکشن کے تحت ہر صنفِ نازک کے ساتھ انٹریکشن کی معصوم خواہش سر اُٹھانے لگی، ذہنی وجسمانی صلاحیتوں کا زیادہ تر استعمال لڑکیوں کومتوجہ کرنے پر صرف ہونے لگا۔ گلی محلے میں صاف ستھری استری شدہ پینٹ شرٹ زیبِ تن کرکے، بالوں میں خوب تیل کنگھی کرکے، جوتے پالش کرکے نکلنا، سکول میں خود کو ہیرو سمجھنا ہم نصابی سرگرمیوں کا حصہ بننا فینسی ڈریس شو تقریری مقابلوں میں حصہ لینا بے ربط عشقیہ شاعری لکھنا اور رومینٹک فلمی گانے دھیمی آواز میں گُنگنانا اسی چوٹی کو سر کرنے کے طریقہ ہائے رائج الوقت تھے۔

عمر کی چند سیڑھیاں اور پھلانگتے ہی گلی محلے کی چند چنچل حسیناؤں اور کالج فیلوز کو پٹانے رجھانے کا چیلنج بھی از خود ہی قبول کر لیا جس میں کامیابی و ناکامی کا تناسب، عزت افزائی اور دیگر آفٹر ایفیکٹس اور آفٹر شاکس عیاں کرنے کی یہاں چنداں ضرورت نہیں۔ اس عاشقی میں عزت کتنی بار اور کہاں کہاں پامال ہوئی اور کہاں کہاں نیلام ہوئی اسے صیغہ راز میں ہی رہنے دیں۔ یہ اپنے مردِ مومن مردِ حق جنرل ضیاء الحق کا دور تھا لاہور کی ہیرا منڈی میں چمگادڑ اور اُلو اُڑ رہے تھے۔ رقص و سرود اور شراب و شباب کی محافل ویران ہو چکی تھیں جسم فروشی کے اڈوں پر تالے پڑ چُکے تھے۔ وی سی آر پر پابندی لگ چکی تھی۔

اس پابندی اور خوف کے ماحول میں محلے کے کچھ تیز طرار دوستوں نے اچانک دس روہے کا تقاضا کیا۔ پوچھا دس روپے اتنے زیادہ پیسے کیا کرنے ہیں۔ جب پاکٹ منی صرف(پچاس پیسے) اٹھنی روپیہ ہو تو دس روپے بڑی رقم محسوس ہوتی ہے اتنی بڑی عیاشی کے لئے ذہن اور جیب دونوں کو تیار کرنے میں دو ہفتے لگ جاتے، پوچھا کوئی پارٹی وارٹی کا موڈ ہے کیا؟ جواب ملا پارٹی بھی ہو گی اور ساتھ وارٹی بھی ہو گی، مزا نہ آیا تو پھر کہنا۔ خیر پاکٹ منی بچا بچا کر بجھے دل کے ساتھ اس ایدونچر کے لئے دس روپے ڈھیلے کر دیے۔ امی ابو سے اس لئے نہیں مانگے کہ فوراً تفتیش شروع ہو جاتی۔ چھٹی کا دن طے ہوا جب جولائی کی شدید گرمی میں گھر میں سب دوپہر کو آرام کرتے تھے

ایک دوست جس کے والدین دوسرے شہر گئے تھے کی بیٹھک میں دوپہر کی شدید گرمی میں کسی کو بتائے بغیر چپکے سے پہنچنے کا پیغام موصول ہوا، خوشی خوشی وہاں دیکھنے پہنچے کہ ماجرا کیا ہے جس کی پردہ داری ہے۔ وہاں پہلے سےآٹھ دس لڑکے موجود پایا سامنے ٹی وی آن تھا اور وی سی آر اور تین کیسٹیں بھی ٹیبل پر پڑی تھیں گھر کے مکین نے ہدایات جاری کیں کہ بڑی مشکل سے لایا ہوں تمہاری خاطر۔ کسی بڑے کو بھنک نہ پڑے اگر کسی نے بتایا سب کو جُوتے پڑیں گے اور آئندہ نہیں بلاؤں گا۔

یار کیا لائے ہو کوئی فلم ہے دو انڈین فلمیں اور ایک وہ والی، وہ والی کونسی کچھ اور دوست جو پہلی بار اس خاص محفل کا حصہ بنے یک زبان بولے۔ اتنے بھولے بھی نہ بنو ٹوٹے لایا ہوں ٹوٹے، ٹرپل ایکس گورے کالے دونوں ہی ہیں۔ سو روپے زیادہ مانگ رہا ہے پر وی سی آر والے نے وعدہ کیا ہے مشہور فلمی ہیروئین کی بلیو فلم بھی دے گا۔ ابھی تک یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کونسی فلمیں ہوتی ہیں خیر جیسے ہی فلم شروع ہوئی ہمارا وہاں بیٹھنا مشکل ہو گیا ماتھے پر پسینہ آگیا، قمیض پسینے میں شرابُور ہو گی وہاں سے جانا چاہا تو کچھ دوستوں نے دھمکی آمیز کڑوے لہجے میں پکڑ کر بٹھا دیا۔ ابھی بیٹھو باہر نکلے اور کسی کو شک ہو گیا تو سب کی مصیبت آئے گی آئندہ تمہیں منہ نہیں لگائیں گے ۔

فلم شروع ہو گئی پہلے خاموش، پھر ہلکی آواز کے ساتھ۔ عجیب لگ رہا تھا خیر سب کو بُرا بھلا کہتے ہوئے آنکھ جھپکے بغیرساری فلمیں دیکھیں۔ جیسے تیسے کرکے وہ لمحات گزارے جن کا سرور وہیں محسوس ہونا شروع ہو گیا۔ پھر تو ہر ماہ دس روپے کا یہ ٹھرک عادت ہی بن گئی ایک دن اسی دوست نے بتایا کہ اس کا کزن امریکا سے کچھ خاص چیزیں لایا ہے کچھ انگلش رسالے ہیں مصالحے والے اور کچھ فلمیں ہیں، وہ والی وہی یار ٹرپل ایکس وہ بھی سب نے مزے لے لے کر وہ میگزین دیکھے اس تفریح کے بعد جذبات میں جو ہیجان پیدا ہوتا اس کے نتائج بھی سامنے آجاتے کیونکہ اس حمام میں کوئی پردہ نہیں تھا اس دوران کچھ ہیرو یہ تک بتاتے کہ انہوں نے اپنی‘‘معشوق ” کے ساتھ کیا کیا۔ دس روپے کا یہ ٹھرک اب گلی محلے سے نکل کر شہر کے کچھ چھوٹے ہوٹلوں تک جا پہنچا جنہیں منی سینما کہا جاتا تھا۔

ہم بھی منی سینما جاتے رہے جہاں پندرہ منٹ کی بی پی دیکھنے کے لئے چائے بھی پینی پڑتی اور چھاپے کا ڈر بھی رہتا تھوڑے سمجھدار ہوئے تو کچھ بُک سٹالز پر خفیہ انداز میں ‘‘گندے” رسالے پڑھنے کو ملتے پچاس روپے والا تصویروں کے بغیر اور باتصویر سو سو روپے والا کچھ اور کتابیں بھی ان سٹالز پرسجی تھیں ماتا ہری، کوک شاستر، کام شاستر، ہدایت نامہ بیوی، ہدایت نامہ شوہر، سہاگ رات وغیرہ دل نے کہا شوق دا کوئی مُل نہیں اور یہ تو ایک نشہ تھا جو اب لگ گیا تھا۔ ایک کے بعد دوسرے تک جب یہ بیش قیمت خزانہ پہنچا تو حلقہ اربابِ ذوق ( اصل حلقہ اربابِ ذوق سے معذرت کے ساتھ ) میں بھی اضافہ ہوتا گیا اب پیسے اکٹھے کرکے رسالہ خریدتے اور سبھی اس عریاں ادب کی چاشنی سے لطف اندوز ہوتے

ان رسالوں کے بارے میں ایک خاص بات جو مجھے اب بھی یاد ہے کچھ لکھنے والے لڑکیوں کی آپ بیتی تحریر کرتے جس میں وہ اپنے شوہریا بوائے فرینڈ کے ساتھ گزارے گئے خاص لمحات کی ایسی تصویر کشی کرتیں کہ پڑھنے والا خاص لذت سے خود لذتی کا سفر دو تین صفحات کے بعد ہی طے کر لیتا، جو ذرا مضبوط اعصاب کا مالک ہوتا وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر وہ داستان پڑھ تو لیتا مگر خاصٰی دیر اس عالمِ مدہوشی کے سحر میں گرفتار رہتا۔ یہی نہیں ایک فلمی رسالہ چترالی کے نام سے بھی شائع ہوتا تھا جو اس دور میں بہت مشہور ہوا فلمی اداکاراؤں کی کھلے گلے اور ٹائٹ کپڑوں والی تصاویر اور بارش میں فلمائے گانوں کی عکس بندی کے ساتھ ساتھ جذبات کو آگ لگانے والی تحریریں، بہت کچھ تھا اس میں لیکن جو کچھ دیکھ چکے تھے چترالی پھیکا پھیکا لگتا تھا۔

یہ راز تو ہم پر خارزارِ صحافت میں قدم رکھنے کے بعد افشا ہوا کہ کچھ فلمی ہیروئینز محض شہرت اور خبروں میں رہنے کے لئے بھی تھرڈ کلاس رسالوں میں اپنی قابلِ اعتراض تصاویر اور سکینڈلز شائع کرواتیں۔ شہرت اور دولت کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کا اندازہ کئی مرتبہ ہوا۔ ایک دور میں ان رسالوں میں حکیموں اور سنیاسی بابوں کے اشتہار بھی شائع ہونے لگے جس میں مردانہ کمزوری، شادی کے بعد شرمندگی سے بچنے، کامیاب وظیفہ زوجیت کے راز، عضوِ خاص کو دو انچ تک لمبا کرنے نسخے اور نوجوانوں کے پچکے گالوں کو سُرخ و سفید کرنے کے لمبے چوڑے دعوےکیے گئے کئی نوجوان شیر بننے کی کوشش میں اسی وجہ سے بکری بن گئے۔ دیواروں پر ان حکیموں کی وال چاکنگ بھی کمال تھی ایسے ایسے جملے پڑھنے کو ملتے کہ احساس ہوتا کہ ملک کے زیادہ تر مرد اپنی جوانی اپنے ہاتھوں برباد کرکے اب دونوں ہاتھ مل رہے ہیں۔

اس وقت ہم اس حقیقت پر سو فیصد قائل تھے کہ آبادی بڑھنے کی وجوہات بھی شاید یہی حکیم تھے جنہوں نوجوانوں میں ایسی قوت بھر دی کہ ہسپتالوں کے گائینی وارٖڈ ایسا منظر پیش کرتے جیسے چاند رات پر انارکلی بازار اور لبرٹی کا ہوتا ہے ۔ ایک دور وہ بھی تھا جب سڑک کنارے سانڈے کا تیل بیچنے والے حکیم کی باتیں بھی بھی ارتعاش پیدا کردیا کرتی تھیں۔ دس روپے سے شروع ہونے والے ٹھرک نے بہت دیر تک ہمیں اپنے حصار میں جکڑے رکھا یہاں فائدہ یہ ہوا کہ مطالعے کی عادت پروان چڑھی اور آنکھیں ٹھنڈٰی کرنے کا چسکا بھی جاری رہا یونیورسٹی پہنچ کر بھی سیکھے ہنر آزمانے کی لگن میں کمی نہ آئی طریقہ کار بدلا اور نیٹ کیفے میں پچاس روپے گھنٹہ پر یہ چسکا پورا ہونے لگا فلپائنی اور تھائی لینڈ کی بولڈ حسیناؤں سے چیٹنگ نے بھی ہماری انگریزی بہتر بنانے میں خاصا کردار ادا کیا ۔

اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے میرا کی فلمیں فلاپ ہوتی ہیں تو کپٹن نوید کے ساتھ قابلِ اعتراض وڈیو اپ لوڈ ہو جاتی ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا میں خوب شور مچتا ہے میرا کے خلاف ہر کوئی آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے، ٹاک شوز میں میرا میرا ہو جاتی ہے، وینا ملک بھارتی میگزین میں ٹیٹو بنوا کر برہنہ تصاویر کے ذریعے شہرت ( بدنامی جسے شہرت سمجھا جاتا ہے) کی بلندیوں کو چھو لیتی ہے، قندیل بلوچ شہرت کی سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش میں پھسل کر سر کے بل ایسی گری کہ پھر سانس بھی نہ لے پائی۔ برسوں بیت گئے دس روپے بھی بھول گئے آج تو یہ سب دس روپے کا بیلنس لوڈ کرکے دیکھا جا سکتا ہے ساری رات لائیو چیٹنگ بھی ہوسکتی ہے ہمارا دور کتنا مشکل تھا۔

پھراچانک ریحام خان کی تہلکہ خیز کتاب جس کی بازگشت کئی ماہ سے سنائی دے رہی تھی بالآخرمنظرِ عام پرآہی گئی۔ کتاب انٹرنیٹ کے ذریعے میڈیا تک پہنچی کچھ ویب سائیٹس نے اس کے اقتباسات بھی شائع کیے جو ہم ہماری نظر سے بھی گزرے۔ عمران خان کی مردانہ صلاحیتوں، خواہشات اور دیگر خواتین سے تعلقات کے بارے میں ریحام خان نے جو کچھ بھی لکھا یا کہا اس کی صحت پر تو ہم رائے دینے سے قاصر ہیں کیونکہ ‘‘راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے ” لیکن اس کتاب کے ذریعے اگر ریحام خان کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو لگتا ایسا ہی ہے کہ ریحام خان بھی ہمارے گروپ میں شامل رہی ہے، اُس نے بھی وہ سب رسالے پڑھے اور دیکھے ہیں جن سے ہمارا گروپ لطف اندوز ہوتا رہا فرق صرف اتنا ہے کہ وہ رسالے ایک صاحب خاتون کے قلمی نام سے تحریر کیا کرتے تھے ریحام نے قلمی نام کا بھی تکلف روا نہیں رکھا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ریحام خان کی جنس بعد میں تبدیل ہو گئی ہو اور وہ ہماری کوئی پرانی ساتھی ہی ہو، اس کتاب کو پڑھ کر ایسا تاثر بھی اُبھرتا ہے کہ کتاب کی تحریر کا معیار دیواروں پر حکیموں اور سنیاسی بابوں کے اشتہار لکھنے والے کاپی رائٹرز سے ملتا جُلتا ہے۔ شہرت حاصل کرنے کے لئے ریحام خان کا طرزِ عمل میرا کی وڈیو، وینا ملک کی فوربز میگزین کے کور پر برہنہ تصاویر سے قطعی مختلف نہیں (وینا نے تو توبہ کرلی اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہی ہیں )، ذہنی پستی کا لیول ایک ہی ہے بس میڈیم آف ایکسپریشن مختلف ہے۔ ریحام خان کواس کتاب سے بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا والی شہرت تو خوب مِل رہی ہے لیکن ہمارے نزدیک کتاب کی حیثیت دس روپے کی اُس پہلی فلم سے زیادہ نہیں جو ہمیں محلے کے لڑکوں نے دکھائی تھی۔ ریحام کی شہرہ آفاق کتاب دس روپے کے ٹھرک کے سوا کچھ بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).