جموں کشمیر کی بدلتی ہوئی سیاست


جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی معطل ہے۔ چنانچہ آج کل یہاں ہارس ٹریڈنگ، اسمبلی ممبران کا ادل بدل، اور منتخب نمائدوں کی خرید و فروخت کا کاروبار عروج پر ہے۔ قانون ساز اسمبلی کے وہ ممبران جو سن دو ہزار چودہ میں وزارت اعلی کے امیدوار بھی نہیں تھے، اس نازک موڑ پر حکومت کی تشکیل اور وزرات اعلی میں شراکت داری کے دعوے دار ہیں، کیوںکہ وہ خرید و فروخت کے فن میں ماہر ہو چکے ہیں۔ یہ حکمرانی کا کج رو اور خبیث طریقہ ہے، یہ طریقہ آگے چل کر ہمارے پورے نظام سیاست کی رسوائی کا باعث بنے گا۔

 کشمیر میں بار بارحکومت کی برطرفی اور نئی عارضی حکومتوں کی تشکیل کا سلسلہ مسائل کا ایک عارضی حل ہے۔ اس طرح کے فوری اور عارضی حل علامات تو ختم کر سکتے ہیں، مگر اسباب نہیں۔ ایک ذمہ دار حکومت کے قیام کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے؟

عوام کی مختلف سیاسی خواہشات اور نظریات ہیں، جن کا احترام لاذم ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک لبرل اور آزاد سماج کا خواب بھی زندہ رہنا چاہیے۔ ہارس ٹریڈنگ اور خریدو فروخت سے نہیں ایک صاف ستھرے جمہوری عمل کے ذریعے حکومت کی تشکیل ہونی چاہیے۔ منتخب نمائندوں کی جواب دہی اور احتساب بھی ضروری ہے ، تاکہ خرید و فروخت کے عمل کو روکا جائے۔۔

ایک موثرحکومت کی تشکیل کی پہلی شرط اس میں تمام لوگوں کی شرکت ہے۔ اس میں صرف مسلمان ہی نہیں، یا ہندو ہی نہیں، یا سکھ ہی نہیں، یا صرف اچھوت اور بودھ ہی نہیں، بلکہ وہ تمام لوگ شامل ہوں جو اس ریاست میں بستے ہیں۔ ایک ذمہ دار حکومت کا مطالبہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے، یہ مطالبہ تمام باشندگان ریاست تک پھیلنا چاہیے۔ تاکہ اس مطالبے کے نتیجے میں ایک ایسی ذمہ دار نمائندہ حکومت قائم ہو، جو اختیارات کی گاوں اور ضلعوں کی سطح پر منتقلی کو یقینی بنائے۔

نیو دہلی ریاست جموں کشمیرمیں جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے میں ناکام رہی ہے، جس سے نظام کے اندر عوام کی موثر شرکت ممکن ہو سکتی تھی۔ رابرٹ اے ڈال کے الفاظ میں کشمیر کے اندر بھارت کا سیاسی اور جمہوری عمل جمہوری نقطہ نظر سے کئی کوتاہیوں کا شکار رہا ہے۔ یہ انسانی حقوق کی بار بار خلاف ورزیوں سے دوچار ہوتا رہا ہے۔

نیو دہلی کی طرف سے کشمیر کی سیاست میں مداخلت بے جا اور مقامی حکومتوں کی برطرفی کے عمل سے کشمیر میں مایوسی پیدا ہوئی۔ مایوسی کی اس فضا سے فائدہ اٹھا کر ماضی میں حریف قوتوں نے اپنے خفیہ مقاصد کے لیے وادی میں جہادی عناصر کو پھیلایا اور مسلح لڑاکوں کو کشمیر میں داخل ہونے میں مدد دی، جس کی وجہ سے ریاست کے اندر ایک مسلح تحریک شروع ہو گئی۔ وادی کشمیر کے مختلف حصوں سے نو جوان بڑی تعداد میں ہتھیاروں اور تربیت کی تلاش میں سرحد پار گئے۔ اس طرح جموں کشمیر میں جمہوری اداروں کو مسترد کرنے سے جو جھڑپیں شروع ہوئیں وہ ایک اتش زدگی کی شکل اختیار کر گئی، جس نے پوری وادی اور جموں کے کچھ حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

جموں کشمیر کے مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ، کشمیری مسلمان، کشمیری پنڈت، ڈوگرے، ہندو، لداخ کے بودھ اور اہل تشیع ایک ایسا مشترکہ کلچر اور تاریخی ورثہ تشکیل دینے میں ناکام رہے، جو انہیں ہندوستانی قوم پرستی کے مقابلے میں اپنی  الگ پہچان بنانے میں مدد دیتا ۔

بدقسمتی سے یہاں علاقائی جذبات بہت سخت ہیں، جو بڑے پیمانے پر مذہبی تعصبات کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاں ایک مشترکہ ماضی اور مشترکہ ثقافت کا نظریہ وہ عوامی حمایت حاصل کرنے میں نا کام رہا جو ایک قوم کی تعمیر کر سکتا تھا۔ ایک قوم کے علامتی نشان، یعنی پرچم، ترانہ اور آئین ایک قوم پرستانہ خود پسندی سے زیادہ کچھ نہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ علاقائی سیاسی قوتیں ایک متحدہ شناخت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو کامیابی سے سبوتاژ کر چکی ہیں۔

حق خود ارادیت کا سیاسی مطالبہ یا بھارت کے ساتھ انضمام کا نعرہ بھی تمام سماجی و معاشی طبقات میں کوئی اتفاق نہ پیدا کر سکا، بلکہ یہ الٹا ناقابل عبور خلیج پیدا کر رہا ہے۔ ریاست کی یکجہتی کے لیے اور آبادی کے مختلف حصوں کو ریاست کے انتظام و انصرام میں مناسب جگہ دینے کے لیے ایک نئے سیاسی بندوبست  کی ضرورت ہے۔

حکومت کی یوں برطرفی، اور ہارس ٹریڈینگ کے ذریعے نئی حکومت کی تشکیل سے انتخابی عمل اور حکومت سازی ایک مجرمانہ فعل بن جاتا ہے۔ جلد بازی میں تشکیل دی گئی ایسی حکومتیں عوام سے کٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان میں سیاسی، سماجی اور معاشی پالیسیوں پر قانون سازی اور اس پر عمل کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ ایسی حکومتیں کشمیر کی موجودہ صورت حال میں یہاں کے خواتین و حضرات کے مسائل اور پریشانیوں کا کوئی حل نکالنے سے قاصر ہوتی ہیں۔

(ترجمہ: بیرسٹر حمید باشانی)

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan