جج شوکت صدیقی کے انکشافات اور حنیف عباسی کو سزا


ابھی نواز شریف کی لندن سے واپسی اور لاہور سے لے کر اڈیالہ جیل تک کے سفر کی داستانیں زیر بحث ہی تھیں اور سارا میڈیا اس بات پر لگا ہوا تھا کہ اتنی بڑی پارٹی یعنی پاکستان مسلم لیگ نواز اور اس کے موجودہ صدر شہباز شریف اپنے ورکروں کو لے کر لاہور کے علامہ اقبال ایئر پورٹ کیوں نہ پہنچ سکے۔ کیا انہوں نے جان بوجھ کر اپنے بڑے بھائی کے خلاف سازش کرکے انہیں اور اپنی بھتیجی مریم نواز کو تنہا سلاخوں کے پیچھے چھوڑ دیا یا یہ ان کی حکمت عملی تھی۔

اسی بحث کے درمیان اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سینئر جج شوکت صدیقی نے بم پھوڑ دیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو عام انتخابات کے بعد تک جیل میں ہی رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اور وہ یعنی جنھیں آجکل خلائی مخلوق یا محکمہ زراعت والے کہا جاتا ہے وہ چیف جسٹس سے کہہ کر اپنی مرضی کے بینچ بنوا رہے ہیں جس میں انہیں یعنی شوکت صدیقی کو شامل نہ کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔

شوکت صدیقی نے یہ انکشاف ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں چلنے والے مقدمے سے صرف نو دن پہلے کیا، اس سے پہلے وہ جی سیون میں آئی ایس آئی کے دفتر کے باہر لگی رکاوٹوں کے بارے میں حکم دے چکے تھے کہ انہیں فوری طور پر ہٹایا جائے، پر سپریم کورٹ نے وہ حکم معطل کر دیا۔

جج شوکت صدیقی ہمیشہ سے متنازع شخصیت کے حامل رہے ہیں، دو ہزار سات میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف ابھی سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی شروع ہوئی تھی، دوسرا یا تیسرا دن تھا ابھی ان کی معطلی کو چودھری اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا تھا، وکیل سڑکوں پر تھے۔ میں رپورٹنگ کے لئے سپریم کورٹ کے باہر موجود تھا اور آج کے جج اور اس وقت کے سینئر وکیل جسٹس صدیقی میرے پیچھے موجود تھے۔ میں نے موقع پر موجود میجسٹریٹ اور پولیس افسروں سے پوچھ کر اپنے تجربے کی بنیاد پر اپنے بیپر میں بتایا کہ تقریباً ہزار کے قریب وکلاء ا حتجاج کر رہے ہیں۔

موصوف نے پیچھے سے ہی شور شروع کر دیا اور کہا کہ یہ تجھے ہزار وکیل لگ رہے ہیں؟ یہ تو لاکھوں کا مجمع ہے۔ میں نے کہا وکیل صاحب آپ اپنا کام کیجئے مجھے اپنا کام کام کرنے دیں۔ موصوف نے وکیلوں کو مجھ پر حملہ اور مارنے کی بھی دعوت دے ڈالی۔

پھر جب جج بنے اور دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد ان کے قریبی عزیز عرفان صدیقی نے سرکاری ٹی وی کے اس وقت کے ایم ڈی یوسف بیگ مرزا کے خلاف کالم لکھنے شروع کر دیے کیوں کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ پی ٹی وی پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیں۔ اسی دوران ایک سابق ایم ڈی اشرف عظیم کا کیس چل رہا تھا جس میں انہوں نے اپیل کی تھی کہ انہیں اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ کیس جسٹس شوکت صدیقی کے سامنے لگا تھا، جج صاحب نے اشرف عظیم کوحکم دیا کہ موجودہ ایم ڈی کو پارٹی بناؤ، اور درخواست داخل کرو۔ قصہ مختصر جج صاحب نے نہ صرف یوسف بیگ مرزا کو فارغ کر دیا بلکہ اشرف عظیم کی اپیل بھی مسترد کر دی۔

بہرحال جج صاحب کے آج کے انکشافات بہت سنگین قسم کے ہیں انتہائی سنجیدہ ہیں کیوں کہ ایک تو اب سے چند دن بعد انتخابات ہونے والے ہیں اور پھر اس کے بعد جج صاحب پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کھلی عدالت میں کارروائی شروع ہو جانی ہے۔ ان کے انکشافات کو جج صاحب کے ماضی کے تناظر میں دیکھنے کے بجایے انھیں صاف شفاف انتخابات کو یقینی بنانے اور نتائج کو کسی قسم کے بدنما دھبے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے اور خدشات کو دور کیا جائے۔

بہت سے ایسے اقدامات ہوتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک پارٹی کو صاف ستھرا راستہ فراہم کر کے دوسری بڑی پارٹیوں کو اچھے نتائج کے حصول سے دور رکھا جائے، جس میں نون لیگ سر فہرست ہے جب کہ پیپلز پارٹی کو بھی شکایات ہے کہ عمران خان کو اقتدار کی منتقلی کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ ایسے ہی جیسے انیس سو نوے میں نواز شریف کے لئے راستہ ہموار کیا گیا تھا۔

ابھی کچھ دیر پہلے حنیف عباسی کہ ایفڈرین کیس میں عمر قید کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا اور شیخ رشید کی جیت کے لیے راستہ ہموار کر دیا گیا۔ اس تمام تر صورتحال میں بلاول بھٹو زرداری نے انتہائی سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا اور ایک نئے میثاق جمہوریت کا مطالبہ کر دیا جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).