فیصل آباد ڈویژن میں کون جیتے گا؟


پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی کل آبادی دس سے گیارہ کڑورہے۔ پنجاب کے کل 9 ڈویژنز اور 36 اضلاع ہیں۔ اس صوبے میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 148 ہے۔ اس مرتبہ پنجاب میں سیاسی صورتحال اور سیاسی فضا دلچسپ اور عجیب و غریب دکھائی دے رہی ہے، توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ پنجاب میں سیاسی دنگل میں بڑے بڑے پہلوان گر سکتے ہیں یا انہیں گرایا بھی جاسکتا ہے۔ آج ہم فیصل آباد ڈویژن کی انتخابی سیاسی صورتحال پر تفصیل سے بات کرتے ہیں کہ یہاں پچیس جولائی کو کیا ہونے جارہا ہے؟

فیصل آباد ڈویژن کے کل چار اضلاع ہیں دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں فیصل آباد کی بیس قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے اٹھارہ پر پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر آزاد امیدواروں نے میدان مارا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں فیصل آباد مسلم لیگ ن کا قلعہ ثابت ہوا۔

اس مرتبہ سیاسی صورتحال بدل سی گئی ہے کیونکہ اس ڈویژن میں بہت بڑی تعداد میں الیکٹیبلز یا طاقتور سیاسی پنچھی مسلم لیگ ن سے پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔ اسی وجہ سے کہا جارہا ہے کہ فیصل آباد کی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔ ادھر سے نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہاں سے قومی اسمبلی کی دو نشستیں کم بھی ہو گئی ہیں۔ اب بیس کی بجائے یہاں پر قومی اسمبلی کی اٹھارہ نشستیں رہ گئی ہیں۔

فیصل آباد ڈویژن کے کل چار اضلاع یعنی فیصل آباد ڈسٹرکٹ، ضلع جھنگ، ضلع چنیوٹ اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ ہیں۔ اس علاقے میں اب اٹھارہ نشستوں پر سیاسی دنگل سجنے ہیں۔ ضلع فیصل آباد میں قومی اسمبلی کی کل دس سیٹوں پر سیاسی معرکے ہونے ہیں۔ این اے 101 سے این اے 110 تک یہاں سیٹیں ہیں۔ پاکستان کی نامور سیاسی شخصیات اس ضلع میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ ماضی کا قصہ تو یہ ہے کہ دو ہزار تیرہ میں اس ضلع کی تمام سیٹوں پر شیر دھاڑا تھا، مسلم لیگ ن نے حقیقی کلین سویپ کیا تھا۔ مگر اب کہا جارہا ہے کہ یہاں پر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ٹف مقابلہ ہوگا۔

این اے 102 کو مسلم لیگ ن کا گڑھ کہا جاتا ہے، یہ طلال چوہدری کا حلقہ ہے جو پہلے این اے 76 کہلاتا تھا۔ یہاں سے مسلم لیگ ن کے جوشیلے لیڈر طلال چوہدری نے ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی کے نواب شیر تھے جنہوں نے صرف پنتیس ہزار ووٹ لئے تھے۔ اب نواب شیر تحریک انصاف میں جاچکے ہیں اور اسی حلقے سے طلال صاحب کا مقابلہ کررہے ہیں۔

وہ حلقہ جہاں جنگی انتخابی ماحول ہے اسے این اے 106 کہتے ہیں جہاں سے مسلم لیگ ن کے رانا ثنا اللہ پہلی بار قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں معروف الیکٹیبل نثار جٹ ہیں جو اب تحریک انصاف کے نشان پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ نثار جٹ نے دو ہزار تیرہ میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر ایک لاکھ بائیس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے اور بھاری مارجن سے کامیاب ہوئے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں سے ن لیگ کے سابقہ فاتح امیدوار رانا صاحب کو ٹکر دے رہے ہیں۔ وہاں کے مقامی سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس مرتبہ بھی نثار جٹ فاتح رہیں گے، اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ یہاں پر جٹ صاحب کا ذاتی اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ فیصل آباد  کا حلقہ این اے 108 بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ عابد شیر علی کا حلقہ ہے جہاں سے وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے آئے ہیں۔ دو ہزار تیرہ میں عابد شیر علی نے اس حلقے سے ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے کامیابی سمیٹی تھی۔ یہاں پی ٹی آئی کے میاں فرخ حبیب ان کے مدمقابل ہیں۔

ضلع جھنگ میں انتخابی سیاسی صورتحال باقی تمام سنٹرل پنجاب سے مختلف ہے۔ کیونکہ یہاں پیر خانے بھی ہیں، جاگیردارو ں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ کیونکہ یہ علاقہ جنوبی پنجاب سے ملتا ہے تو اس وجہ سے جنوبی پنجاب کا اثر و رسوخ بھی ہے۔ دوسرا مذہبی عقائد کی بنیاد پر بھی یہاں سیاست میں بہت گرمی سردی کی کیفیت رہتی ہے۔ دو ہزار تیرہ میں جھنگ میں قومی اسمبلی کی کل چار نشستیں تھی جو اب گھٹ کر تین رہ گئی ہیں۔

این اے 114سے این ائے 116 تک نشستیں ہیں۔ دو ہزار تیرہ میں یہاں سے مسلم لیگ ن نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور دو نشستوں پر آزاد امیدوار جیتے تھے۔ این اے 114 پر اہم مقابلہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہے۔ یہاں پر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے مخدوم فیصل صالح حیات پاکستان تحریک انصاف کے صاحبزادہ محبوب سلطان کے مدمقابل ہیں۔ یہاں سے پچھلی مرتبہ غلام بی بی بھروانہ نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔ یہاں ن لیگ نے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن فیصل صالح حیات کو سپورٹ کررہی ہے۔

این اے 115 جھنگ سے بہت ساری سیاسی شخصیات الیکشن لڑ رہی ہیں، مسلم لیگ ن کی سابق ایم این اے غلام بی بی بھروانہ یہاں سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ ان کے مقابلے پر محمد احمد لدھیانوی ہیں جو آزاد امیدوار ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن سے الگ ہونے والے شیخ وقاص اکرم بھی اسی حلقے میں الیکشن کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ سیدہ عابدہ حسین کی صاحبزادی صغری امام بھی آزاد حیثیت میں اسی حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔

اب چلتے ہیں چنیوٹ کی جانب جہاں قومی اسمبلی کی کل دو نشستیں ہیں، این اے 99 اور این اے 100۔ کہاجارہا ہے کہ ان دونوں نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان سخت مقابلہ ہوسکتا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق فیصل آباد ڈویژن میں بہت سے لوگوں نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کی ہیں الیکٹیبلز کی ایک بہت بڑی کھیپ پی ٹی آئی کے کیمپ میں گئی ہے۔ اس لئے اس ڈویژن میں مسلم لیگ ن کے لئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

فیصل آبادکی سیاسی تاریخ دیکھی جائے تو ایک زمانہ وہ بھی تھا جب یہ علاقہ پاکستان پیپلزپارٹی کا گڑھ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یہاں غریب مزدور ووٹرز بہت زیادہ ہوا کرتے تھے جو اب مڈل کلاس کا حصہ بن چکے ہیں اور اب ان کی اولادیں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں۔ اس علاقے میں برادریوں کا بڑا اثر و رسوخ ہے۔ جاٹ برادری، ساہی فیملی، چوہدری برادری فیصل آباد میں اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ اس لئے یہاں برادری برادری کھیل ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).