جسٹس شوکت عزیز صدیقی کون ہیں؟


آج راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ اور عسکری اداروں پر سنگین الزامات عائد کرنے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی گذشتہ سات سال سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ اُنھیں 21 نومبر سنہ 2011 کو صوبہ پنجاب کے کوٹے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا اور پھر اُنھیں مستقل جج مقرر کر دیا گیا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی یکم جولائی 1959 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قاضی عزیز الرحمن صدیقی شہر کی بلدیاتی سیاست میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ جسٹس شوکت عزیز نے گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجوایشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایل ایل بی اور ایل ایل ایم کے امٹحانات پاس کئے۔ شوکت عزیز نے اگست 1988 میں ضلعی عدالت مین پرئیکٹس کی اجازت ملی جس کے دو برس بعد اکتوبر 1990 میں وہ ہائی کورٹ کے وکیل ہو گئے۔ انہیں اپریل 2001 میں سپریم کورٹ میں وکالت کی اجازت مل گئی۔ شوکت عزیز 1995-96 میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن (راولپنڈی) کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ انہوں نے 2011 میں راولپنڈی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کا انتخاب بھی جیتا۔

سابق فوجی صدر کی طرف سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد وکلا کی عدلیہ بحالی تحریک میں بھی شوکت عزیز صدیقی پیش پیش تھے۔ راولپنڈی پولیس کے مطابق اُنھیں اس وقت کی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ شوکت عزیز صدیقی ان چند وکلا رہنماؤں میں سے تھے جنہیں اس وقت کے پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قربت حاصل تھی۔

2007 میں لال مسجد تنازع میں شوکت عزیز صدیقی مولوی عبدالعزیز کے وکیل تھے اور انہوں نے مولوی عبدالعزیز کی ضمانت پر رہائی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اس وقت میڈیا میں خبروں کی زینت بننا شروع ہوئے جب اُنھوں نے وفاقی دارالحکومت میں قائم افغان بستیوں کو گرانے میں ناکامی اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر وفاقی ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کے حکام کو جیل بھجوایا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر سنہ 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے بعد ججز کو نظر بند کرنے کے مقدمے میں پولیس حکام کو انسداد دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کرنے کا بھی حکم دیا جب پرویز مشرف ضمانت کے لیے ان کی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ عدالتی احکامات کے بعد سابق فوجی صدر کمرہ عدالت سے فرار ہو گئے تھے، بعدازاں پولیس نے اُنھیں حراست میں لے کر متعلقہ عدالت میں پیش کیا تھا۔

شوکت عزیز صدیقی جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بعد سنیئر ترین جج ہیں، نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے بارے میں گستاخانہ مواد کا نوٹس بھی لیا تھا۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایف آئی اے کو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ عدالتی حکم کے بعد ہی فیس بک کی انتظامیہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور یقین دہانی کروائی تھی کہ آئندہ فیس بک پر پیغمبر اسلام کے بارے میں گستاخانہ مواد نہیں لگایا جائے گا۔

شکرپڑیاں کے قریب پریڈ گراونڈ کو ’ڈیموکریسی پارک‘ اور ’سپیچ کارنر‘ کا نام بھی اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حکم پر ہی رکھا ہے۔ یہ جگہ احتجاج کے لیے مختص کی گئی ہے، جب کہ اسی گراؤنڈ پر پاکستانی افواج اپنی سالانہ پریڈ کرتی ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ہی حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو اکتوبر 2016ء میں اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہویے اُنھیں دھرنا دینے سے روک دیا تھا۔

ان کا نام اس وقت بھی میڈیا میں آیا تھا جب انھوں نے ویلنٹائنز ڈے کے موقعے پر ہونے والی تقریبات پر پابندی عائد کر دی تھی۔

شوکت عزیز صدیقی کو جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج تعینات کیا گیا تو اس وقت افتخار محمد چوہدری پاکستان کے چیف جسٹس تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ویب ساییٹ پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2011میں جب اُنھیں ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج بنانے کے بارے میں غور کیا گیا تو وہ اس وقت راولپنڈی اور اسلام آباد کے چند مصروف ترین وکلا میں سے ایک تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس محمد انور خان کاسی کے سپریم کورٹ میں چلے جانے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوں گے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ اُنھوں نے سی ڈی اے کے حکام پر اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزین و آرائش کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز نے ان کے خلاف ریفرنس کی سماعت کو بند کمرے میں کرنے کی بجائے اوپن کورٹ میں کرنے کی درخواست کو سپریم جوڈیشیل کونسل نے ابتدائی طور پر مسترد کر دیا تھا۔ تاہم بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ریفرنس کی سماعت کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے اوپن ٹرائل کی درخواست منظور کر لی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس دو رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے ممتاز قادری کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم کر دیا تھا تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے مجرم کو موت کی سزا دینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز نے فیض آباد میں تحریک لبیک کے دھرنوں کو ختم کروانے میں عسکری اداروں کے کردار پر سخت تنقید کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کے سامنے سے گزرنے والی سڑک کھولنے کا حکم دیا جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا۔ اس کے ردعمل میں جسٹس شوکت عزیز نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف سخت ریمارکس دیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تضحیک کا کوئی حق نہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ان ریمارکس کے بعد ہی چیف جسٹس ثاقب نثار نے 7 جولائی کو جسٹس شوکت عزیز کے خلاف کھلی سماعت کی اجازت دیتے ہوئے 30 جولائی کی تاریخ سماعت مقرر کی۔

جسٹس شوکت صدیقی عملی سیاست میں حصہ لے چکے ہیں اور انھوں نے 2002ء کے انتخابات میں جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر راولپنڈی سے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).