بولتی دلیلوں میں وہ زندہ ہیں


\"Taqqiجب بھی کسی نظریے کو مذہبی عقائد جیسی سخت گیری عطا کر دی جاتی ہے تو پھر اس مخصوص نظریے کے علاوہ باقی سب کچھ باطل نظر آنے لگتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کے مذہبی روایات کو ہمارے معاشرے میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ چند مواقعوں پر یہ انسان سے بھی فوقیت لے جاتی ہیں اور ان روایات کے خلاف جانے کے جرم میں ایک انسان دوسرے انسان کو قتل بھی کر سکتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ روایات کسی بھی معاشرے کا ایک ترقی پسند عنصر یا جمود کو ظاہر کرتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں مذہبی رسم و رواج مخصوس شناخت اور خاکہ کو برقرار رکھنے کے لیے نافذ کی جاتی ہیں حقیقت میں روایات معاشرے میں علامتی حثیت رکھتی ہیں جو جمود کو برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ قدامت پرست معاشرے ایسی روایات کو نافذ کرتے ہیں جن کی بنا پر معاشرے میں طاقت، اقتدار اور اختیار کے مراکز قائم رہیں۔

مذہب کے نام پر مذہبی رہنماؤں اور مذہبی انتہا پسندوں کی دہشت گردی قبل مسیح سے جاری ہے۔ مذہب کی فرسودہ رسومات اور ضعف الاعتقادی کے ناقدوں کو آٹھویں سے گیارھویں صدی میں زندہ نظر آتش کرنے میں بھی کوئی تردد نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ انتہا پسند ہی تھے جنہوں نے چار سو قبل مسیح میں سقراط کو زہر پینے پر مجبور کیا تھا۔ سقراط نے حق کے لیے اپنی جان تو قربان کر دی لیکن جن نظریات کی پاداش میں اسے سزائے موت دی گئی تھی وہ فلسفے اور نظریات آج بھی زندہ ہیں اور جنہوں نے مذہب اور معاشرتی اقتدار کے مبینہ تحفظ کے لیے سقراط کو بے دین قرار دے کر زہر دیا تھا، ان میں سے ایک کا بھی نام کسی کی زبان پر نہیں ہے لیکن سقراط کی موت کے بعد اس کا نام ساری دنیا میں بڑے احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ مذہبی انتہا پسند منطق، دلائل اور مباحث سے ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں وہ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے تشدد میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔

مگر اب بھی کئی ہزار سال گزر جانے کے بعد روئے زمین پر ایک ایسی ریاست قائم ہے جہاں ہر ناانصافی،ظلم اور بربریت کے خلاف اٹھائی جانے والی آواز کو دبا دیا جاتا ہے – آج بھی ایک ایسا معاشرہ قائم ہے جس میں معصوم بچوں کا بے رحمی سے قتل کیا جاتا ہے۔ جہاں اختلاف رائے رکھنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ جہاں اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ جہاں کسی کی مسلکی شناخت اس کی موت کی رسید بن جاتی ہے۔ جہاں قوم کی غیرت و حمیت کا اندازہ صنفی امتیاز پر ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں مردوں کی غیرت صرف عورتوں کے جسم سے جڑی ہوتی ہے۔ جہاں مرد کی غیرت و مردانگی عورت کے زندہ جلا دینے سے ثابت کی جاتی ہو۔ جہاں سیاستداں، قومی رہنما اور بنیاد پرست طبقہ مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرتا ہے۔ جہاں دانشوروں، صحافیوں، سماجی کارکنوں اور روشن خیال انسانوں کے خلاف مذہبی فتویٰ صدر کر کے انکی سیاسی،سماجی اور معاشرتی زندگی کو محدود کیا جاتا ہے۔

ہمارے ورثے میں ایسی کوئی تاریخ نہیں جس پر ہم فخر کرسکیں اور ہماری نظریات بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی ہم اپنے ماضی کو ہی گلے لگائے رکھنا ہے۔
آج بھی مذہب جو بھائی چارہ اور برابری کا درس دیتا ہے تنگ نظر مفاد پرست طبقے اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی مقاصد کے لیے اس کا استمال کر رہے ہیں۔ عقائد و نظریات کی بنیاد پر آج بھی سر بازار میں لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے۔ مگر عقائد کی بنیاد پر کوئی کسی شخص کی جان تو لے سکتا ہے مگر معاشرے میں اس کے اخلاقی کردار اور اسکی سوچ و نظریے کو نہیں مٹا سکتا۔ ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں کسی دانشور، صحافی، اور سماجی کارکن کو اس کے آزادانہ نظریات اور انسانی حقوق کا علمبردار ہونے پر قتل کر دیا جائے تو پرسہ دینے والے دل ہی دل میں یہ اطمینان محسوس کرتے ہیں کا وہ نہیں مرے اور کوئی اور مر گیا ہے۔ اس اطمینان کا اظہار تعزیت کی صورت میں کیا جاتا ہے اور قتل ہونے والے کو شہادت کا رتبہ دے کر اس کی یاد میں موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ ایسی موت پر افسوس کرنے والے بھی اپنے پیغامات میں دبے دبے کہہ جاتے ہیں کہ مقتول اگر توازن برقرار رکھتے تو شاید زندہ رہتے۔ توازن سے یہاں مراد کسی ظلم پر چپ سادھے رہنا ہے۔

مگر ایسے انسانوں کو تاریخ نے ہمیشہ اپنے دامن میں سنبھال رکھا ہوتا ہے کیونکہ ایسے انسان جسمانی لحاظ سے تو کوئی وجود نہیں رکھتے مگر انکی جرات و بہادری کی داستاں اور نظریات ہر اک نئی گواہی میں، کاغذوں کے ساہے میں اور بولتی دلیلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).