جنگل کی جمہوریت اور بندوق


\"ammarشکاری نے بندوق سنبھالی، شست باندھی، شکار پر الوادعی نگاہ ڈالی اور دھائیں کر کے فائر کر دیا۔ فائر کی آواز سارے جنگل میں دور دور تک پھیل گئی۔ جھاڑیوں میں دبکے پرندے خوف سے شور مچاتے فضا میں بلند ہوئے۔ جنگلی جانور اپنی اپنی کمین گاہوں سے نکلے اور انجانی سمت میں بھاگ نکلے۔ فائر کے بعد کا دھواں فضا میں پھیل رہا تھا۔ جنگل میں ہاہا کار مچی تھی۔ جانور سراسیمگی کے عالم میں ایسے بھاگے کہ جس کو جو سمت نظر آئی وہ بھاگ پڑا۔ خاموشی ایسے ٹوٹی جیسے بے خبری میں بچوں پر چھت آن گری ہو۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ گیدڑ شور مچا رہے تھے۔ لگڑبگڑ الگ چلا رہے تھے۔ کہیں شیر کی دھاڑ تھی کہیں ست رنگ ناگ کی پھنکار۔ برق رفتار چیتے اپنی رفتار سے خشک زمین پر دھول اڑا رہے تھے۔ نیل گائیوں کے جھنڈ کے جھنڈ زمین کی دھمک بڑھا رہے تھے۔ چالاک لومڑیاں فضا میں تھوتھنیاں بلند کئے خوفزدہ آوازیں نکال رہی تھیں۔ جنگلی بھینسے اپنے سروں کو جھکائے چھوٹے جانوروں کو اپنے مضبوط سموں تلے روندتے تیزی سے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ ایک فائر سارے جنگل کا سکون لوٹ چکا تھا۔ فائر کو ہوئے اب کچھ وقت گزر چکا تھا۔ مگر جنگل اپنی پرانی خاموشی کو لوٹانے کے لیئے وقت مانگ رہا تھا ۔ خشک پتوں اور زمین کی گرد کی گرد ساری فضا میں پھیلی تھی۔ دھول پھیلتے پھیلتے اب بیٹھنے لگی تھی۔ تیز رفتار جانوروں کے قدم اب مدہم پڑتے جا رہے تھے۔ شور کم ہوتے ہوتے تھم سا گیا تھا۔ خاموشی جنگل کی رگوں میں پھر سے سرایت کرنے لگی تھی۔ جانور کمین گاہوں کی طرف پلٹ رہے تھے۔ فضا خاموش ہوتی جا رہی تھی کہ اتنے میں بڑے تالاب کے نزدیک سے، گھنی جھاڑیوں کے پاس سے ایک زخمی ہرنی تیر کی طرح نکلی جھاڑیوں کو چیرتی ایک جانب کو بھاگ گئی۔ ہرنی کی ٹانگ زخمی تھی خون قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا۔ آنکھوں میں ہراس اور بدن کے پورپور میں آنے والے فائر کا خوف تھا۔ نرم چمکتی بھوری جلد جگہ جگہ سے خون آلود ہو رہی تھی۔ اس لمحے ہرنی کو نہ اپنی چمک دار جلد کا کوئی خیال تھا، نہ غزالی آنکھوں کی کوئی پرواہ تھی، نہ رفتار پر ناز تھا، نہ اپنے جھنڈ پر کوئی گھمنڈ تھا، بس جان بچانے کی فکر تھی۔ زندہ بچ جانے کی آخری کاوش تھی۔ سانسوں کو کچھ اور طول دینے کی چاہت تھی۔

زخمی ہرنی اپنے جسم کو جھاڑیوں سے بچاتی تیزی سے آگے بڑھی۔ تازہ خون کی مہک ہوا میں تیرنے لگی۔ جنگلی جانور خون کی لکیر کا تعاقب کرنے لگے۔ شیر، چیتے، لگڑبگڑ اور لومڑیاں تازہ شکار کے نرم گوشت کی تلاش میں اس کا تعاقب کرنے لگے۔ کیڑے مکوڑوں نے بھی اس شکار کی راہ دیکھ لی۔ ہوا میں مردار گدھ منڈلانے لگے۔ جانوروں کے حیوانی شور کی آوازیں تیز ہونے لگیں۔ زخمی ہرنی کے قدم اب نقاہت سے مدہم پڑنے لگے۔ خون کی ایک لکیر اس کا مسلسل تعاقب کرنے لگی۔ سامنے پانی کا تالاب آگیا جہاں بڑے بڑے مگر مچھ منہ کھولے مدتوں سے شکار کے منتظر تھے۔ پانی میں مگر مچھوں کا پہرا تھا اور خشکی پر جان کے دشمن درندے اس کے تعاقب میں تھے۔

تعاقب کرنے والی حیوانی آوازیں جب تیز ہونے لگیں تو ہرنی نے پانی کا رخ کیا۔ مکمل ساکت مگر مچھ کے بدن میں جنبش ہوئی اس نے غار سا منہ کھولا اور ہرنی کو ایک ہی لقمے میں ہڑپ کرنے کی کوشش کی۔ ہرنی تڑپ کے واپس پلٹی تو اس اثنا میں اس کے بدن کا ایک ٹکڑا مگر مچھ کے منہ میں رہ گیا۔ زخمی ہرنی کا بدن اب آدھا رہ گیا۔ جنگلی لومڑیاں اسی لمحے کے تاک میں تھیں۔ وہ گروہ میں اکھٹی ہوئیں اور چاروں جانب سے ہرنی پر حملے کرنے لگیں۔ لومڑیوں کی آنکھوں میں بھوک شعلے جگا رہی تھی۔ زخمی ہرنی کی آنکھوں میں ہراس تھا، موت تھی، خوف تھا۔ دور کہیں سے شیر کی گرجدار چنگھاڑ سنائی دی۔ زندہ شکار کے جسم میں دانت پیوست کی ہوئی لومڑیاں آواز سے چونکیں اور پھر خوف کے عالم میں اپنا شکار جنگل کے بادشاہ کے حضور چھوڑ کر فرار ہو گئیں۔

شیر کے آنے کی دھمک سے سارا جنگل کانپ رہا تھا۔ ہرنی کا بدن اب ٹوٹ کر چور ہو چکا تھا۔ خون فواروں کی طرح اس کے بدن سے بہہ رہا تھا۔ اس کے چلنے کی رفتار بہت کم ہو چکی تھی۔ اتنے میں سنہری جھاڑیوں کے جھنڈ میں سے شیر پوری شان و شوکت سے برآمد ہوا۔ تیز دھوپ میں اس کے بدن کی کھال چمک رہی تھی۔ لمبے لمبے دانت زخمی ہرن کے جسم میں پیوست ہونے کے لیئے باہر کو نکل آئے تھے۔ بدن متوقع شکار کی لذت سے تھرا رہا تھا۔ جنگل کے بادشاہ نے ہرنی پر اچانک حملہ نہیں کیا بلکہ اس کے اردگرد پہلے چکر لگائے جیسے دم توڑتی ہرنی کے آخری دموں سے لطف اٹھا رہا ہو۔ پھر پیروں سے زمیں کو کریدا ہوا میں خشک مٹی کو اچھا ل دیا ۔ جیسے شکار کو کھانے کے لیئے جگہ بنا رہا ہو۔ پورے اطمینان کے بعد جب اس نے زخمی ہرنی کو دبوچنے کے لئے اپنے پنجہ بڑھایا تو ہرنی کے بدن میں ایک حرکت ہوئی اور اس نے جسم کی ساری قوت کو جمع کر کے ایک زقند بھری اور کہیں جھاڑیوں میں ہوا ہوگئی۔ شیر کی چنگھاڑ دیر تک اس زخمی بدن کا تعاقب کرتی رہی۔ ہرنی اب تقریبا نیم مردہ ہو چکی تھی۔ اس کو اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ جنگل کی طرف رخ کیا تو  جنگلی جانور اس کو چیڑ پھاڑ دیں گے ۔ پانی کا رخ کیا تو مگر مچھ اس کو ایک ہلے میں ڈھیر کر دیں گے۔ ہرنی نے  اپنےجنگل اور اپنے دریا سے مایوس ہو کر کھلے میدان میں جانے کا فیصلہ کیا۔ جہاں دور دور تک نگاہ جا سکتی تھی۔ اپنے خون آلود وجود کو گھسیٹ کر وہ کھلے میدان میں لے آئی۔ دور دور تک نہ کوئی درندہ تھا نہ مگر مچھ ۔ کھلے میدان کے عین درمیان اس نے خود کو آرام کی خاطر ڈھیر کر لیا۔ اسی لمحے دور بیٹھے شکاری نے بندوق سنبھالی، شست باندھی، شکار پر الوداعی نگاہ ڈالی اور دھائیں کر کے فائر کر دیا۔ فائر کی آواز سارے جنگل میں دور دور تک پھیل گئی۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar