جاگتے رہو، ہمارے پہ نہ رہو


پہلے تھوڑا چیخنا، پھر رو پِیٹ لینا اور آخر میں کچھ لکھ دینا، کیونکہ اِس کے علاوہ نہ ہم کچھ کرسکے ہیں اور نہ ہی کبھی کر پائیں گے۔ بحیثیت قوم بہت سے المیوں کا منہ دیکھ کر چھوٹے موٹے المیے ہمیں اب جھنجھوڑنے کی ہمّت نہیں رکھتے۔ افسوس کے طور پر چند جملے کہہ کر، کچھ گھنٹوں کے لئے کالی تصاویر لگا کر، غم کے طور پر کچھ رزمیہ اشعار لکھ کر ہم اُسے اپنے فرض کی ادائیگی سمجھ لیتے ہیں۔ جب تک کسی دھماکے یا اِس قسم کے کسی حادثے میں سو سے زائد لاشیں نہ گِر جائیں ہمارے کان کے پردے تک نہیں پھٹتے۔ بحیثیت قوم یہ ہماری مُردہ دِلی کا واضح ثبوت ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ہمارے بڑوں کے پالے ہوئے گدھ ہیں، ہمیں نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ مگر ہماری زبان سے اُن کے لئے کوئی ایک لفظ بھی بُرا نہیں نکل پاتا۔ آنے بھی دے گا کون؟ ذرا بول کے تو دکھائیں، زبانیں کھینچ کر باہر رکھ دی جائیں گی۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اللّہ تعالٰی نے جب ہماری قوم سینچی ہوگی تو فرشتوں نے یہ پوچھا ہوگا، ”یہ قوم دنیا میں کیا کرے گی؟ “ پھر اللّہ میاں نے فرمایا ہوگا، ”یہ قوم وقتاً فوقتاً لاشیں اٹھائے گی۔ “ دہشگردی کی روک تھام کے سلسلہ میں ایک آپریشن ہوا، ”ردّالفساد“ کے نام سے۔ مگر میرے خیال میں یہ آپریشن ”ردّ الفساد“ کی بجائے ابھی تک ”جدّ المفاد“ ہی ثابت ہوا ہے۔ ٹھیک ہے کہ ہمارے فوجی نوجوانوں نے شہادتیں دیں، مگر جس کام کے لئے انہوں نے شہادتیں دیں کیا وہ پورا ہوا؟ ہمیں اِس آپریشن میں کتنی کامیابیاں حاصل ہوئیں؟ نہ اُن کے پاس کوئی جواب ہے اور نہ ہمارے پاس۔

دوسروں پر منحصر کرنا ہماری قوم کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ جب بھی کوئی سیاستدان اچھی کاکردگی نہ دکھائے تو ہم اُسے کوستے ہیں کہ یہ وزارت کے اہل ہی نہیں ہے یا اِن کے بس میں ہی نہیں ہے کہ یہ حکومت چلا سکیں۔ لیکن پَل بھر کے لئے بھی یہ نہیں سوچتے کہ اُن کو منتخب کس نے کیا تھا۔ جب بھی کوئی قومی سانحہ پیش آئے تو ہم اُنہی کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ سیاستدان کا کام نہیں کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ ہماری حفاظت کرنے والے تو ایک طرح سے سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی اُن سے حساب مانگ کر تو دیکھے۔ اپنے پُتلی تماشے میں پُتلیوں سے ایسا ناچ نچوائیں گے کہ اُنگلی اٹھانے والوں کو مکمل طور پر منظر سے ہی ہٹا دیا جائے گا۔ مگر وہ مداری خود مطمئن رہے گا کیونکہ وہ کسی کو نظر ہی نہیں آرہا ہوگا۔

سوشل میڈیا پر مستونگ حملے میں شہید ہوجانے والے ایک نوجوان کی لاش کی تصویر ایک ضعیف العُمر شخص کے ساتھ گردش کر رہی تھی۔ تصویر میں خون کا رنگ تو سُرخ تھا۔ لاش بے سُدھ پڑی تھی۔ اسٹریچر تک میسر نہ تھا۔ سُننے میں آیا کہ مرنے والے کا تعلق کسی بلوچستان نامی پسماندہ صوبے سے تھا۔ دھماکے میں سینکڑوں لاشیں گِریں مگر بدقسمتی سے یہ حادثہ قومی سانحہ میں تبدیل نہ ہوسکا۔ سینکڑوں انسان شہید ہوئے۔ اور انسانوں کا دُکھ اور غم تو انسان ہی محسوس کرتے ہیں نا۔ مگر یہاں ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں مِلا۔

یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ آج بھی جب گوگل پر ”کوئٹہ“ لکھیں تو آگے تجاویز میں ”دھماکہ“ خود بخود آجائے گا۔ المیہ ہے کہ مستونگ دھماکے کا دفاع کرنے والے بھی کئی لوگ آپ کے درمیان موجود ہیں اور افسوس ہوتا ہے کہ ہم صرف چیخ سکتے ہیں، رو سکتے ہیں، پِیٹ سکتے ہیں اور لکھ سکتے ہیں۔ چلو پھر سب مِل کر لکھیں کہ مستونگ ہم شرمندہ ہیں۔ اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اور ہاں، ایک بات یاد رکھیں کہ آئندہ کسی بھی غیر مُلکی ٹی وی چینل کی جانب سے شام یا فلسطین میں ہونے والے مظالم کو نہ دِکھانے پر کوسنے سے پہلے ضرور سوچ لیجیے گا کہ آپ کے اپنے مُلک میں سینکڑوں لاشیں گِری تھیں مگر آپ کا میڈیا مسافروں کے جہاز کے راستے کی تفصیل بتانے میں مصروف تھا۔

ہمارے محافظوں، راہنماؤں اور میڈیا کے اِس رویّے سے اُن کا بیانیہ صاف ظاہر ہوتا ہے، ”جاگتے رہو، ہمارے پہ نہ رہو۔ “ افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہاں عزّت سے مرنا کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک ہُنر ہے۔ دوسروں پر منحصر کرنا چھوڑ دیں۔ خود کو بہتر سے بہترین بنانے کی بھرپور کوشش کریں۔ اہم بات کہ ہمارے محافظ خود سے یہ سوال کریں کہ ہم اپنے فوجی جوانوں اور عوام کے خون کی کئی قسطیں دینے کے باوجود بھی اپنے وطن کا قرض ادا کیوں نہیں کر پا رہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).