کارِ آشیاں بندی


یہ اگر الیکشن ہیں تو لشکر کشی کیا ہوتی ہے؟ باہم متحارب لشکر کے درمیان چند ساعتوں کی لڑائی کو الیکشن کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے؟ یہ سوچنے کی کسی کو فرصت نہیں کہ اس وقتی ڈرامے میں ہمارا کیا کچھ داو پر لگا ہوا ہے۔ انتخابات میں اب تک ہمارے ہاتھ کیا لگا؟ ایک دوسرے کا تیاپانچہ کرنے کے لئے بیتاب سیاسی پارٹیاں اور اس کے نام نہاد لیڈرز جن سے عقل و دانش کی کسی بات کی توقع رکھنا بھی کارِ لاحاصل ہے۔ سوشل میڈیا جو حقیقی بیداری اور عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کا ایک موثر پلیٹ فام بن سکتا تھا الیکشن میں تمسخر، سطحی طنز، الزامات، گالیوں اور ایک دوسرے کو ہر حالت میں نیچا دکھانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اپنے لیڈروں کی دیکھا دیکھی ان کے حامیوں کا محبوب مشغلہ ایک دوسرے کو نت نئے تضحیک آمیز القابات سے نوازنا ہے۔
حقیقی مسائل اور ان کے حل کے متعلق لیڈرانِ کرام بات کرنا چاہتے ہیں اور نہ ان کے حامیوں کو یہ سب سننے میں دلچسپی ہے۔ جمہوریت اگر بکسوں میں ووٹ ڈالنے کو کہتے ہیں تو مبارک ہو۔ ایک مرتبہ پھر ہم جمہوریت حاصل کرنے جا رہے ہیں لیکن اگر جمہوریت کارِ آشیاں بندی کا ذریعہ ہے تو پشتو میں ہم کہتے ہیں کہ ‘سُدم تہ شین دے’ یعنی یہ بیل منڈھے چڑھنے سے رہی۔

یہ کیسے الیکشن ہیں جس کے لڑنے کے لئے آپ کو کم ازکم پانچ کروڑ روپوں کی ضرورت ہے۔ ٹکٹ کے حصول کے لئے پارٹی کو خوش کرنے کے لئے کروڑوں الگ۔ یہ تو سیدھی سادی سرمایہ کاری ہے۔ پیسہ لگاؤ اور پیسہ بناؤ۔ خدمت خدمت کی گردان تو بس سیدھے سادے لوگوں کو لبھانے کا سیدھا سادہ فارمولا ہے۔ شائد ہماری نفسیاتی ساخت میں کوئی مسئلہ ہے۔ کچھ لوگ ہماری نمائندگی حاصل کرنے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہم دیدہ و دل فرش راہ کئے گلیوں، چوراہوں میں زندہ باد کے نعرے لگاتے انہیں ہار پہناتے ہیں۔ یہ ہمیں خدمت کا جھانسہ دیتے ہیں اور اپنے سیاسی حریفوں کے متعلق تضحیک آمیز گفتگو کر کے ہماری انا اور انتقام کے جذبات کی آبیاری کرتے ہیں اور ہم ایک مرتبہ پھر زندہ باد مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں اور اپنے دکھ درد کے ساتھ آسودہ رہتے ہیں۔
یہ خطۂ زمین تنازعات کا گڑھ ہے۔ تنازعات جہاں بہت سے مسائل کا موجب بنتے ہیں وہاں اپنے ساتھ بہت سارے مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان میں قدرت کے ارزاں کردہ وسائل کی فراوانی ہے۔ بیس کروڑ کی آبادی اپنی تقدیر کے سنورنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اس کا محل وقوع ایسا کہ پوری دنیا کے لئے قابلِ رشک ہے۔ عمل کے بیسیوں میدان خالی پڑے دعوت دے رہے ہیں کہ آو اور ہمیں تسخیر کرو۔ مناسب سوجھ بوجھ والا کوئی لیڈر آکر یہاں کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑ سکتا ہے کہ ایک زمانہ اُسے یاد رکھے، عظمت اس پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسے۔ اس ملک کے سنجیدہ طبقات کسی لیڈر سے کیا توقعات رکھ سکتے ہیں؟ یہی ناں کہ یہ چار دن کی زندگی آبرو کے ساتھ بسر ہو، بچوں کو تعلیم ملے، صحت کی چند سہولیات میسر ہوں، دو وقت کی روٹی کمانے کے کچھ باعزت اسباب۔ سر کو چھت ، پیٹ کو روٹی اور بدن کو لباس میسر ہو۔ ملک میں کوئی قاعدہ کوئی قانون ہو، ریاست انہیں تحفظ کا احساس دلائے، وہ تھوڑا مسکرا سکیں، اپنی مرضی سے ہنس سکیں رو سکیں۔ کیا یہ کوئی ناممکنات ہیں؟ ہلکا سا دل و دماغ رکھنے والا لیڈر منظم حکمت عملی، باہم مربوظ اقدامات اور پیہم جدوجہد سے ان تمام مسائل سے نمٹ سکتا ہے بشرطیکہ ایسا کرنے میں مخلص ہو۔
ایک طویل جدوجہد کے بعد حاصل کئے جانے والا یہ ملک اکہتر سال کا ہوگیا ہے۔

ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ اکہتر سال بعد جب ہمیں ایک دفعہ پھر اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنا ہے تو ہمیں عمران خان اور نوازشریف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ خان صاحب کا سارا زورِ بیاں تبدیلی پر جبکہ میاں صاحب سویلین بالادستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کا سرسری جائزہ یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ نہ تو خان صاحب کو حقیقی تبدیلی کا ادراک ہے اور نہ میاں صاحب کو معلوم ہے کہ سویلین بالادستی کس طرح لائی جاتی ہے ۔ لیکن عوام جائیں تو کہاں انہیں انہی عظیم لیڈرز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے کہ فی الحال یہ دھرتی حقیقی قیادت جننے کے لئے بانجھ ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ عمران خان کی جماعت کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کی تیاریاں مکمل ہے، یہ بات البتہ یاد رہے کہ یہ ہمارے درد کی دوا نہیں، امیدوں کی فصل کا غارت جانا ایک دفعہ پھر یقینی ہے، اچھا ہوگا کہ اگلی رت کی فکر ابھی سے شروع کر دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).