اندرونِ سندھ کے چند حلقے اور آصف زرداری کی مشکل


ضلع جامشورو کے علاقے سیہون میں واقع سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے حلقہ پی ایس 80 نے میڈیا پر بڑی مشھوری پا ہی ہے۔ الیکشن 2018 کی سب سے پہلی دھاندلی اسی حلقہ میں نہ صرف رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے بلکہ دھاندلے کرنے والے گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے ووٹ سیل بند لفافوں میں سے نکال کر ان کی بجائے سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے این اے 233 کے امیدوار سکندر راھپوٹو کے حق میں ووٹ لفافوں میں دوبارہ بند کیے جا رہے تھے کہ میڈیا جائے واردات پر پہنچ گیا۔ اسسٹنٹ رٹرننگ آفیسر سیہون قربان میمن، جو تعلقہ ایجوکیشن آفیسر بھی ہیں، این اے کے امیدوار سکندر راہ پوٹہ کے قریبی رشتہ دار پرائمری ٹیچر ایسوسی ایشن کے تعلقہ سیہون کے لیڈرعزیز راھپوٹو اور دیگر سرکاری اسٹاف، عابد علی، محمد اسلم اور غلام مصطفٰی سولنگی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس حلقہ سے مراد علی شاہ کے والد سید عبداللہ شاہ بھی منتخب ہو کر سندھ کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں مگر باپ پیٹے کے وزیر اعلٰی رہنے کے باوجود حلقہ میں واقع سیہون، بھان سید آباد، سن شہروں کی حالت ناقابل بیان ہے۔ مراد علی شاہ کی اپنی تین آبائی یونین کونسل وارہ، جعفر آباد اور بوبک پینے کے پانی کے لئے ترس رہی ہیں۔ بوبک میں تو سمندر کی طرح نظر آنے والی میٹھے پانی کی جھیل منچھر بھی واقع ہے جو اب مکمل طور پر گندے اور زہریلے پانی کی جھیل بن چکی ہے جس کی حالت پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار دو ہفتے قبل ہی دیکھ کر آئے ہیں۔

مراد علی شاہ نے صرف اس جھیل کو بچانے کے لئے ہی کچھ کیا ہوتا تو پورا جنوبی سندھ، کراچی تک میٹھے پانی سے مالا مال ہوتا۔ اس حلقہ میں مراد علی شاہ کے مد مقابل سائیں جی ایم سید کے پوتے اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود امیدوار ہیں۔ جلال شاہ اسی حلقہ سے مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ کو ایک مرتبہ شکست دے کر سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں۔ سیہون کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 233 پر بھی پیپلز پارٹی کے امیدوارسکندرراہ پوٹہ کے مقابلے میں جلال محمود شاہ ہی ہیں۔ اس حلقہ کی الیکشن پر پورے سندھ کی کافی گہری دلچسپی ہے۔

حلقہ پی ایس 63 حیدر آباد کی نشست پر بھی کافی نظریں ہیں۔ اس حلقے سے پیپلز پارٹی نے شرجیل میمن کو ٹکٹ دیا ہے جو کہ اربوں روپے کی کرپشن کیسز میں جیل میں ہیں۔ شرجیل میمن کا مقابلہ سندھی زبان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کاوش نیٹورک کے روح رواں، کاوش اخبار کے ایڈیٹر اور کے ٹی این نیوز چینل کے مالک محمد علی قاضی کر رہے ہیں۔ علی قاضی نے حال ہی میں اپنی سیاسی جماعت تبدیلی پسند پارٹی کے نام سے بنائی ہے اور اپنے صحافتی عہدوں سے دستبردار ہو کر اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ قاضی صاحب کی سیاست انٹی بھوتار یعنیٰ سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں کے خلاف جدوجہد کے نعرے کے ماتحت پریکٹس میں ہے۔

حلقہ پی ایس 62 حیدر آباد کی سندھی اکثریتی آبادی والے علاقہ قاسم آباد کی نشست ہے۔ اس حلقے سے پیپلز پارٹی نے سابق صوبائی وزیربلدیات جام خان شورو کو ٹکٹ دیا ہے اس کے مقابلے میں گرانڈ ڈیموکریٹک الائینس کے رہنما ایاز لطیف پلیجو ہیں۔ اس نشست پر دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی بھی اسی حلقہ سے امیدوار ہیں۔ سندھ کے دونوں قوم پرست رہنماؤں ایاز پلیجو اور ڈاکٹر مگسی کی آپس میں کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی تو فائدہ پیپلز پارٹی کو جائے گا اور پیپلز پارٹی کی جیت ہو سکتی ہے۔ حالانکہ جام خان شورو بلدیات کے وزیر تھے تب بھی یہ حلقہ قاسم آباد گندگی سے اٹا رہتا ہے۔

ضلع بے نظیر آباد کی دو نشستیں صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 39 اور این اے 214 پر بھی پورے سندھ کی نظریں ہیں اس حلقہ میں سندھ کے عوام کی دلچسپی کا سبب نوجوان قوم پرست رہنما زین شاہ کا الیشن میں حصہ لینا ہے۔ زین شاہ بھی سائیں جی ایم سید کے پوتے، سندھ اسمبلی میں ایک وقت میں قائد حزب اختلاف مرحوم امداد محمد شاہ کے بیٹے اور جلال شاہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس حلقہ سے اپنے سابقہ امیدواروں کو ہی ٹکٹ دیے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لئے پیپلزپارٹی کے امیدوار غلام مصطفٰی شاہ ہیں اور صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ غلام قادر چانڈیو کو دی گئی ہے۔ ان دونوں نشستوں پر چوٹی کا مقابلہ ہے کیونکہ زین شاہ سندھ کے نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں اور حال ہی میں انہوں نے گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ مل کر آصف علی زرداری کی شوگر ملز کا گھیراؤ کیا تھا اور آبادگاروں کو گنے کا جائز معاوضہ نہ دینے کے خلاف مسلسل اور کامیاب جدوجہد کر کے ان کو جائز معاوضہ دلوایا۔

آصف علی زرداری ان دونوں ںشستوں پر پیپلز پارٹی امیدوار کامیاب کروانے کے لئے ذاتی دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ یہ ان کے اپنے گھر کی نشستیں ہیں مگر گذشتہ دس سالہ کارکردگی پیپلز پارٹی امیدواروں کے لئے باعث ندامت بنی ہوئی ہے اس لئے ان حلقوں میں زین شاہ کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).