سر جی! حالات کنٹرول میں ہیں


سیاسیت کی گرم بازاری، الیکش کی گہما گہمی، بد امنی کے اندیشوں اور غیر تسّلی بخش معاشی صوتحال کے باوجود محبِّ وطن حلقوں کے لیے مژدہ ہے کہ اس وقت حالات مکمّل کنٹرول میں ہیں۔ عوام النّاس کے سیاسی شعور کی ناپختگی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان موجود تھا کہ وہ اس مرتبہ بھی اپنے حقِ انتخاب کا استعمال کرتے وقت ملک کے وسیع تر قومی مفاد کے ادراک میں ناکام رہیں گے۔ سسٹم کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زمامِ اقتدار ایک مرتبہ پھر سے انہی کرپٹ، بد دیانت اور مفاد پرست طاقتوں کے قبضے میں آ جائے گی۔ مگر بھلا ہو ان مردانِ حُّر کا کہ جن کا اوڑھنا بچھونا وطن کی محبت ہے اور قابلیتیں جن کی ملکی استحکام کے لیے وقف ہیں۔ پانی سر سے اونچا ہوتا جاتا تھا۔

ان مکروہ پرانے چہروں کا دوبارہ مسندِ اقتدار پرمتمکن ہونا ملکی سلامتی کے لیے ازحد خطرناک تھا۔ اس لیے ملکِ پاکستان کے ان گمنام مجاہدوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ باطل قوّتوں کا مقابلہ اس طرح سے کیا جائے گا کہ انہی کی شاطرانہ چالوں اور مکر فریبیوں کو ان ہی پر الٹ دیا جائے گا۔ خدا کی نصرت ان نیک طینیت لوگوں کے ہمراہ تھی۔ سو اس مرتبہ ان کی سعی و جدوجہد نے ہمیں ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ ہم آپ کو نہایت خوشی کے ساتھ مطلع کر رہے ہیں کہ اب متفکر ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ بفضلِ خدا حالات کنٹرول میں ہیں۔

اب آپ پوچھیں گے کہ کیسے؟ یعنی کہ ہم یقین کریں تو کیسے کریں کہ کل کویہ محض طفل تسلیاں ثابت ہوئیں تو ہم بھلا کس سے شکوہ کناں ہوں گے، کہ آپ تک براہِ راست رسائی تو ہمیں میّسر نہیں۔ آپ بھی خدشات رکھنے میں حق بجانب ہیں۔ ظاہر ہے کہ دودھ کا جلا تو چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ تو دیکھیے، ایسی بات اگر پردہ رکھ کر کی جائے کہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ دیا جائے تو لطف ایسی ہی طرزِ گفتار میں ہے۔ کہ سب کچھ کھل کر کہہ دینے سے کھیل کا مزہ تو کرکرا ہوتا ہی ہے مگر غنیم کو انگلی اٹھانے کا موقع بھی میّسر آ جاتا ہے۔ مگر خیر ان کی لرزتی کانپتی انگلی کا ڈر ہی کس کو ہے، مگر لطف تو یہ ہے کہ انہیں ایسے انگلی کی جائے کہ ان کو اپنا سر پیٹتے ہی بنے۔

تودھیان سے سنیے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ کھلاڑی تو شیر کا شکاری بننے کو بیتاب تھا ہی۔ مگر اصل مسئلہ شیر کو گھیر گھار کر جنگل کے اس گوشے میں لانا تھا جہاں وہ گھات لگائے بیٹھا تھا۔ سو یہ ہانکا کرنے کا کام آپ کے ان خادموں نے اپنے ذمہ لیا اور شیر کو گھیر گھار کر شکاری کے نشانے پر لا چھوڑا۔ اب اگر شیر زخمی ہو گر بھاگے گا بھی تو کہاں تک کہ ہماری جیپ شکاری کو شکار میں مدد دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ مگر دوسری جانب جنگل کے تیرانداز خود کو شیر کا شکاری سمجھتے تھے اور ہمارے شکاری کو اپنا حریف تصوّر کرتے تھے۔ ان کا سدِّ باب بھی ضروری تھا ورنہ وہ رنگ میں بھنگ ڈال سکتے تھے۔

ان میں اب نہ تو شیر کے شکار کی سکت باقی تھی اور نہ ہی وہ تن تنہا شکاری کو کوئی نقصان پہنچا سکتے تھے۔ مگر عین ممکن تھا کہ کھیل ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر وہ شیر کو اپنا اتحادی بنا لیتے کہ دونوں جنگل کے قدیم باسی ہیں۔ وہ سوچتے کہ ابھی مل کر شکاری سے نمٹ لیں اور جیپ کی ہوا نکال دیں، آپس کق حساب پھر بے باک ہوتا رہے گا۔ اس خطرے کو نظر انداز کرنا بھی حماقت تھی۔ اس کا حل یہی تھا کہ تیر انداز کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ شیر کے ساتھ مل کر بھی شکار کو ناکام بنانے کے قابل نہ ہو۔ سو اس معاملے سے نمٹنے کے لیے ہمارے ذہنِ رسا کو یہ تدبیر سوجھی کہ جنگل کے باسیوں ہی میں سے چند چڑھتے سورج کے پجاریوں کو کہ صورتیں جن کی کثرتِ ریاضت کے سبب مانندِ نجم چمکتی تھیں، تیر انداز کے مقابل لا کھڑا کیا کہ اس کے جنگل میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا بھی خطرے میں پڑ گیا۔ دوسری جانب تیر انداز کے خوراک کے ذخیرے پر بھی گائے کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا تا کہ وہ مقابلے کے لیے توانائی بھی نہ جوڑ پائے۔

اب چند ہی دن کی بات ہے۔ شیر کا شکار ہو جائے گا، اور تیرانداز کسی پہاڑ کی کھوہ میں چھپا اپنی چوٹیں سہلاتا ہو گا۔ شکاری خوش ہے کہ شیر کا شکار کرنے کے بعد وہ جنگل کا بادشاہ ہو گا۔ کیا؟ آپ بھی ایسا ہی سمجھ رہے ہیں؟ اگر آپ ایسا سمجھتے بھی ہیں تو ہم آپ کی اس طفلانہ سادہ دلی سے لطف اندوز ہی ہوسکتے ہیں۔ دیکھیے! شکاری کے پاس جیپ کس کی؟ ہماری۔ شکاری کی بندوق میں کارتوس کس کے؟ ہمارے۔ چڑھتے سورج کے پجاری کس کے؟ ہمارے۔ گائے بچاری تو اللہ میاں کی گائے۔ ہم چاہے تو اس کا دودھ پییں چاہے تو ذبح کر کے کھا لیں۔ تو پھر جنگل کا اصل بادشاہ کون؟ جی ہاں۔ اب تو داد دیجیے ہماری عقلِ سلیم کو۔

مگر آپ جانتے ہیں کہ بادشاہت یا حکومت کی ہمیں کوئی حرص نہیں۔ ہم تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ قومی سطح کے سب فیصلے وسیع تر قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کیے جائیں۔ یقین مانیے یہ ایک عارضی بندوبست ہے۔ ہم تب تک ایسے عارضی بندوبست کرتے رہنے کو مجبور ہیں جب تک عوام کا شعور اس سطح پر نہیں پہنچ جاتا کہ وہ فیصلہ کرتے ہوئے صورتحال کو ہماری نظر سے دیکھ سکیں۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ قوم کا درد رکھنے والے محبِ وطن حلقوں کی حمایت ہمیں ہمیشہ حاصل رہے گی۔ باقی رہ گیا یہ مفاد پرست اور کرپٹ ٹولہ، تو ان غداروں سے تو ہم نمٹ ہی لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).