جسٹس شوکت صدیقی پاکستان میں کلیسائی احتساب چاہتے ہیں؟


اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی کے حالیہ فیصلہ کی شکل میں نازی ہٹلر کے بھوت نے پھر سے جنم لے لیا ہے۔ اور ہسپانوی کلیسائی عدالتوں میں مذعومہ بے دینی کے الزامات پر چلائے جانے والے مقدمات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ جن میں موت اور ایذاا رسانی جیسی سزائیں دی جاتی تھیں۔ جسٹس صدیقی کلیسائی عدالتوں کے سربراہ ہونے کے بجا طور پر حقدار ہیں۔

کیا مضائقہ ہے کہ اگر اس تکلیف دہ تاریخ کو پھر سے یاد کر لیا جائے۔ 15صدی عیسوی میں فرڈیننڈ اور ایزبیلا نے خصوصی عدالتیں تشکیل کیں تاکہ مسیحیت میں خالص لوگ ہی رہیں اور مذہبی امتیازات یا اختلافات کا خاتمہ ہو جائے اور قوم میں ایک یکتائی پید ا کر دی جائے۔ یہ تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی نیت نیک تھی یا بد؟ وہ واقعی مسییحت کو خالص کرنا چاہتے تھے یا مسلمانوں اور یہودیوں کو نقصان پہنچانا ہی ان کا مقصد تھا۔ لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کے اس اقدام سے اسپین میں آباد مسلمان اور یہودی بدترین مظالم کا شکار ہو ئے۔ ریاست اور مذہبی پیشواﺅں کا یہ اتحاد یا انضمام کہہ لیجیے، انسانیت کا ایک تاریک تر دور ثابت ہوا۔جن لوگوں کے مذہبی عقائد سے عدالتیں مطمئن نہ ہوتیں اور جو کہ اکثر نہیں ہوتی تھیں ان مظلوموں پر وہ مظالم ڈھائے گئے کہ آج بھی انسانیت شرمندگی سے منہ چھپاتی پھرتی ہے۔

جسٹس صدیقی کا کہنا ہے کہ،

” یہ نہایت مناسب ہو گا کہ قادیانیوں کوغلامانِ مرزا یا مرزائی وغیرہ کا نام دیا جائے، ناکہ احمدی۔ کیونکہ اس طرح ذکر کرنے سے ان کے مسلمان سمجھے جانے کا مغالطہ ہو سکتا ہے، جو کہ حضرت محمد ﷺ کی ختمِ نبوت اور آخری نبی ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ قادیانیوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے کہ وہ مسلمانوں کے سے نام اختیار کر کے اپنی شناخت کو چھپا سکیں۔ یا بصورتِ متبادل، قادیانی، غلامِ مرزا، یا مرزائی کے لاحقے ان کے ناموں کے حصہ کے طور پر استعمال ہونے چاہئیں“

جسٹس صدیقی بہتوں کے نزدیک ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور یقیناً وہ قرآن کی اس آیت پر پوری طرح عمل کرنے کے سنجیدگی سے خواہشمند ہونگے کہ:

”….اور کسی قوم کی دشمنی ہرگز تمیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کے تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو ، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ اور اﷲ سے ڈرو۔ یقیناً اﷲ اس سے ہمیشہ با خبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔ “ (المائدہ آیت ۹)

تھامس جیفرسن نے کہا تھا:

”عدالت دیوانی کو اس بات کی اجازت دینا کہ وہ اپنے اختیارات میں اپنی رائے کو دخل انداز ہونے دے اور اصولوں پر عمل اور ابلاغ پر اس خیال سے پابندی لگائے کہ وہ وہ غلط میلانات کو فروغ دیں گے انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے مذہبی آزادی ختم ہو کر رہ جائے گی کیونکہ ایسے رجحانات کا فیصلہ کرنے میں اس کی اپنی پسند اور نا پسند داخل ہو جائے گی اور وہ آراء کو اپنی رائے سے مطابقت یا عدم مطابقت کے پیمانے پر پرکھے گی۔ “

پاکستان سپریم کورٹ کی یہ نظیرعزت مآب جج صاحب کے پیشِ نظر رہنی چاہئیے کہ:

” جج کے نا مناسب زبان استعمال کرنے یا برافروختہ ہو جانے سے عدالتی منصب کے غیر شخصی تصور کو سخت دھچکا لگتا ہے۔“PLD 1961 SC 237)

اور یہ کہ:

”ایک جج جو انصاف کی مسند کو زینت بخشتا ہے اسے ہمیشہ اس بات کی احتیاط کرنی چاہئیے کہ وہ اپنے منصب کے وقار کو قائم رکھے۔ اگر کوئی جج برافروختہ ہو جاتا ہے یا کسی فریق یا اس کے وکیل کی تحقیر کرتا ہے تو انصاف کے نظام پر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔“ (PLD 1961 SC 237)

”عدالت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ مذہبی اعتقاد کی سچائی کے بارہ میں رائے زنی کرے۔ “

(PLD 1957 SC 201)

مذہبی معاملات میں رائے زنی کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس وجہ سے بھی نا پسند کیا ہے کہ ۔ ’

’ایسے معاملات میں ہمیشہ اختلافِ رائے کی گنجائش رہتی ہے اور جج کے لئے مناسب نہیں کہ وہ مذہبی راہنما یا مشیر کا کردار اختیار کرے“ (PLD 1957 SC 201)

جسٹس صدیقی نے احمدیوں کو مسلمانوں کے سے نام رکھنے سے منع کرنے کا مشورہ دے کر بعینہ یہ کردار اختیار کیا ہے۔ ہر شخص کو حق ہے کہ وہ جس فلسفہ کو اپنی نجات کے لئے بہتر سمجھتا ہے بطور عقیدہ اختیار کر لے۔ خواہ وہ کسی بھی عہدے پر ہے یا ایک عام آدمی کے طور پر زندگی بسر کررہا ہے لیکن یہ خیال کر لینا کہ صرف میرے عقیدہ کے حامل لوگ ہی باکردار اور اچھے محب وطن شہری ہو سکتے ہیں اور جو لوگ میرے عقیدہ کے مطابق خدا کے عذاب کے مستحق ٹھہریں گے ان کو ریاستی معاملات کے لئے بااعتماد نہ سمجھا جائے ،کسی طور درست نہیں ہو سکتا۔

کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم قائد اعظم کے اس ارشاد کی جانب لوٹ آئیں

”اب آپ آزاد ہیں اِس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، آپ مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں آپ کا کسی مذہب، ذات پات عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار ریاست کا اِس سے کوئی واسطہ نہیں … ہم اِس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں انگلستان کے باشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور ان ذمہ داریوں اور اس بارگراں سے سبک دوش ہونا پڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کے اس مرحلے سے بتدریج گزر گئے۔ آپ بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ اب جو چیز موجود ہے، وہ یہ کہ ہر فرد ایک شہری ہے اور سب برطانیہ عظمی کے یکساں شہری ہیں۔ سب کے سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).