جلسے میں تھپڑ: خان صاحب سمجھے کوئی عام آدمی ہے


میں پریشان نہیں ہوں کیونکہ خان صاحب سے مشٹیک ہو گیا ہے۔ وہ سمجھے کہ کوئی عام آدمی ان کے ساتھ برابری کر رہا ہے، میرا مطلب ہے ان کے برابر سیڑھیاں پھلانگ رہا ہے۔ کیونکہ تھپڑ تو عام آدمی کو ہی مارا جا سکتا ہے۔ عام آدمی۔ جی عام آدمی کو ہی تھپڑ لگایا جاتا ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔

جی کنٹینر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے لیڈر کا تھپڑ کھانے والے امیدوار کے اس بیان سے کہ ”یہ تھپڑ عام آدمی کے لیے تھا، غلطی سے اسے پڑ گیا“، کس کو امتیازی سلوک کی بو آئی ہو گی۔ کسی کو نہیں آئی کیونکہ عام آدمی کے ساتھ امتیازی سلوک ہمارے رہن سہن کا حصہ ہے۔ جیسے کچھ لوگوں کو عزت دار لوگ کہنا عام ہے۔ بہت کم لوگ اس کا یہ مطلب لے پاتے ہیں کہ پھر باقی ماندہ گھرانے تو غیر عزت دار گردانے جا رہے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں تو آدمی ہوتے ہی دو قسم کے ہیں، ایک وہ جو تھپڑ مارتے ہیں اور دوسرے وہ جو تھپڑ کھاتے ہیں۔ یہ انسانوں کی دوسری قسم پیدا ہی تھپڑ کھانے کے لیے ہوئی ہے۔ ان کو نسل در نسل تسلسل سے تھپڑ پڑتے آ رہے ہیں۔ وہ اسی قابل ہوتے ہیں اور تھپڑ کھانا ان کی تو عادت بن چکی ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں تھپڑ مارنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لیے عام آدمی کو تھپڑ لگانے کی بات کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے۔

ہمارے معاشرے میں کچھ عزت دار اور شریف لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے کہ دوسرے لوگوں کو، جو عزت دار نہیں ہیں، ایک خاص دائرے کے اندر رکھنے کے لیے تھپڑ کا استعمال کیا کریں۔ ان عزت دار شریف لوگوں نے یہ ذمہ داری خوب سنبھالی ہوئی ہے اور تھپڑ تو کیا اس سلسلے میں جتنی بھی محنت کرنی پڑے کر گزرتے ہیں۔ تھپڑ سے جب کام نہ چلے تو وہ جوتے، ڈنڈے یا باقی ماندہ مناسب ہتھیار بھی استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو ان شریف لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ہتھیار کام نہیں آئیں گے یعنی ان سے عزت دار شریف آدمی کا غصہ نہیں اترے گا اس لیے کوتاہی کرنے والے تھپڑ خور طبقے کے شخص پر کتے ہی چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں یہ ہتھیار خاص طور گھروں یا کھیتوں میں کام کرنے والے بچوں کو ڈسپلن سکھانے کے لیے خوب آزمایا گیا ہے۔

ہاں تو تھپڑ لگانے والے شریف لوگوں کی کئی قسمیں ہیں۔

ایک مشہور قسم تو شوہر کی ہے۔ شوہر کو خاص طور پر اجازت ہے کہ وہ اپنی زوجہ کی طبیعت درست کرنے کے لیے تھپڑ کا استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ طبقہ اس کا بے دریغ استعمال کرتا بھی ہے۔ مولانا شیرانی صاحب وقفے وقفے سے شوہروں کو اپنی ذمہ داریوں کی یاد دلاتے رہتے ہیں اور ان کے تھپڑ چلانے کے حق کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ مولانا شیرانی کے علاوہ جماعت اسلامی بھی شوہروں کے اس حق کو ہمارے مشرقی معاشرتی سیٹ اپ کے بقا کی ضمانت سمجھتی ہے۔ ہم سب شوہروں کو اس الیکشن میں جماعت اسلامی کو ووٹ دے کر کامیاب کرنا چاہیے تاکہ ہمارے تھپڑ رسید کرنے کے حق کو قانونی تحفظ مل سکے۔

تھپڑ لگانے کی ذمہ داری سے لیس دوسری قسم میں سکولوں اور مدرسوں کے اساتذہ آتے ہیں۔ اساتذہ بھی اپنی اس ذمہ داری کو خوب نبھاتے ہیں۔ یاد رہے کہ بے چارے اساتذہ کو ایک ہی وقت میں کلاس میں موجود درجنوں طاقت ور اور درندہ صفت بچوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لیے استاد اپنے ہاتھ تو نہیں تھکا سکتا۔ عام طور مدرسوں اور سکولوں میں ڈنڈا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ استاد کی مجبوری ہوتی ہے۔ یا تو اتنی محنت کرے کہ بچوں کو سیکھنے سکھانے میں مصروف رکھ سکے یا پھر وہ ڈنڈے کے زور سے بچوں کو فارغ بیٹھنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ عام طور پر استاد دوسری آپشن ہی لیتے ہیں۔

تھپڑ لگانے کے عہدے پر فائز باقی عزت دار شریف لوگوں میں جاگیردار، وڈیرے، صنعت کار حتی کہ چھوٹی چھوٹی آٹو ورکشاپس اور چائے کے کھوکھوں کے مالکان بھی شامل ہیں۔ ان کا شکار مزارع اور ہاری خاندان کے خاندان اور مزدور بچے ہوتے ہیں۔

یہ سب کچھ ہمارے کلچر اور رہن سہن کا لازمی حصہ ہے۔ اسی لیے تو جب ایک عزت دار شریف آدمی کو تھپڑ پڑا تو اس نے کمال سادگی سے وہ تھپڑ کروڑوں عام پاکستانیوں کو ٹرانسفر کر دیا۔ تہذیب یافتہ دنیا میں جہاں تھپڑ ایک بری چیز ہے اور سارے انسانوں کے لیے برا ہے وہاں اگر کوئی یہ فقرہ کہہ دیتا ”خان صاحب نے سمجھا کہ کوئی عام آدمی ہے“ تو طوفان برپا ہو جاتا۔

ٹیل پیس: غلام اسحاق خان صدر پاکستان تھے۔ انہوں نے 1993 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ٹیکسی ڈرائیور بنا دیا۔ صدر غلام اسحاق خان کی تقریر میں بیان کیے گئے اس فقرے پر امریکہ کی ایک ٹیکسی ڈرائیورز ایسوسی ایشن نے باقاعدہ احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا کہ صدر صاحب نے اپنی تقریر میں ٹیکسی ڈرائیور کے شعبے کی توہین کی ہے اور انہیں اس پر ساری دنیا کے ٹیکسی ڈرائیورز سے معافی مانگنی چاہیے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik