پاکستان الیکشن 2018: ’انتخابی مہم میں غالب رنگ بےیقینی اور تقسیم کا رہا‘


سیاسی کارکن

انتخابی عمل ایک خوشی اور امید لے کر آتا ہے جس کے اپنے رنگ ہوتے ہیں

الیکشن 2018 کے لیے انتخابی مہم قریباً دو ماہ جاری رہنے کے بعد پیر کی شب ختم ہو رہی ہے اور اس مہم کو قریب سے دیکھنے والوں کے مطابق اس میں غالب رنگ غیر یقینی اور تقسیم کا رہا ہے۔

ویسے تو بیشتر متوقع انتخابی امیدوار الیکشن سے کئی ماہ پہلے ہی اپنے حلقے میں انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں لیکن باضابطہ انتخابی مہم نگران حکومت کے قائم ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے۔

اس بار انتخابی مہم کچھ مختصر اور کچھ پھیکی رہی۔ اس کی وجہ سیاسی بھی تھی اور غیر سیاسی بھی۔

غیر سیاسی وجوہات میں رمضان اور پھر عید کا انتخابات سے چند ہفتے قبل آنا، فٹبال کے عالمی مقابلے اور انتخابی مہم پر دہشت گردوں کے حملے قرار دیے جا سکتے ہیں جبکہ سیاسی وجوہات کی فہرست ذرا طویل ہے۔

انتخابات میں مداخلت کا تاثر

اس مہم کا قریب سے مشاہدہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان انتخابات پر غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کی چھاپ ہونے کے تاثر میں بعض ووٹرز میں ایک طرح کی بےدلی پیدا کی ہے۔

صحافی اور جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ کے میزبان طلعت حسین انتخابی مہم کے بارے میں پروگرام کرنے کے لیے ملک کے چاروں صوبوں میں گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر ووٹرز کو اپنے ووٹ کی طاقت پر زیادہ یقین نہیں رہا ہے۔

طلعت حسین کے مطابق ’چاہے آپ شہری علاقوں میں ہوں یا مضافات میں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوں ٹنڈو اللہ یار میں۔ آپ کو ووٹر کے زبان سے وہ واقعات سنائی دیتے ہیں جو اسلام آباد میں ہو رہے ہیں۔ چاہے وہ جیپ کے نشان الاٹ کیے جانا ہو، چاہے وہ سندھ میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کا بننے کا عمل ہو، چاہے امیدواروں کا ٹوٹ کر ادھر ادھر ہونا ہو۔ اس وجہ سے بہت سے لوگوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ وہ ووٹ ڈالیں گے تو صحیح لیکن انہیں معلوم ہے کہ شائد نتائج ایسے نہ ہوں جیسے ووٹ کے ذریعے ہونے چاہییں۔‘

تحریکِ انصاف

انتخابات پر غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کی چھاپ ہونے کے تاثر میں بعض ووٹرز میں ایک طرح کی بےدلی پیدا کی

شاہ زیب جیلانی دنیا نیوز کے لیے انتخابات کے لیے خصوصی رپورٹس کی تیاری کے سلسلے میں بلوچستان اور پنجاب کے دور دراز مقامات میں انتخابی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔

اس انتخابی مہم کے دوران ووٹرز کے جذبات و احساسات کے بارے میں اپنے تاثرات بتاتے ان کا کہنا تھا کہ ’اس مرتبہ جس طرح کے ماحول میں انتخابی مہم ہوئی ہے اس میں ایک بہت بڑا تاثر تھا کہ کچھ پارٹیوں کو دبایا جا رہا ہے، کچھ کو ابھارا جا رہا ہے، اس سے مجھے لوگوں میں بددلی نظر آئی۔ میں کوئٹہ گیا، چمن گیا، جھنگ اور کراچی کیا لیکن بیشتر جگہ پر وہ گہما گہمی نظر نہیں آئی۔‘

ندیم ملک سما ٹی وی میں ایک پروگرام کے میزبان ہیں اور حال ہی میں انھوں نے ملک کے مختلف حصوں، خاص طور پر پنجاب میں انتخابی مہم پر خصوصی پروگرام کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار انتخابی امید کی بنیاد امید نہیں دکھائی دی۔

’لوگوں میں بہت زیادہ امید دکھائی نہیں دی کہ یہ انتخابات ملک کو بحران سے نکال بھی پائیں گے یا نہیں۔ جب یہی سوال میں نے عام لوگوں سے کیا کہ انھیں ان انتخابات سے کتنی امید ہے تو انھوں نے الٹا مجھ سے سوال کیا کہ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت چل پائے گی؟‘

بلوچستان کی انتخابی مہم میں سنجرانی ماڈل کی گونج

انتخابی عمل ایک خوشی اور امید لے کر آتا ہے جس کے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں مختلف علاقوں کی ثقافت اور سیاسی وابستگیوں کے لحاظ سے انتخابی مہم کے اپنے رنگ ہوا کرتے ہیں۔ کہیں گہرے کہیں ہلکے لیکن طلعت حسن کے بقول اس بار انھیں پورے ملک ہی میں وہ جذبہ اور انتخابی رنگ نظر نہیں آیا۔

بلوچستان کے علاقے مستونگ میں انتخابی مہم پر حملے کے بعد سے اس صوبے میں انتخابی رنگ جم نہیں سکا۔ ویسے بھی اس صوبے میں انتخابی مہم باقی پاکستان کی نسبت بہت مختلف اور پھیکی رہتی ہے۔

پیپلز پارٹی

اس بار انتخابی مہم کچھ مختصر اور کچھ پھیکی رہی اس کی وجہ سیاسی بھی تھی اور غیر سیاسی بھی

طلعت حسین کے مطابق اس بار تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ ’اگر آپ انتخابی مہم کے لحاظ سے دیکھیں تو وہاں پر آپ کو کوئی گہما گہمی نہیں نظر آئے گی، کوئی جھنڈے نہیں نظر آئیں گے، کوئی جلسے نہیں نظر آئیں گے۔ ظاہر ہے اس سب کا تعلق مستونگ حملے سے بھی ہے لیکن اصل بات یہ ہے جب سے سنجرانی ماڈل سامنے آیا ہے بلوچستان نے اپنا الیکشن چھوڑ دیا ہے۔‘

خیبر پختونخوا کی توانا مہم

خیبر پختونِخوا میں حملوں اور دھمکیوں کے باوجود عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اپنی مہم چلائی اور خوب چلائی۔

اس صوبے کے مختلف علاقوں سے پروگرام کرنے کے بعد طلعت حسین کا کہنا ہے کہ صوبے میں چلنے والی انتخابی مہم میں بہت جان تھی۔

’وہاں پر تمام سیاسی جماعتوں کو امید ہے کہ ان کے پاس موقع ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی حملوں کے باوجود بہت متحرک نظر آتی ہے اسی طرح ایم ایم اے کا سامنا آنا بہت تحریک کا باعث ہے۔‘

پنجاب

پنجابی روایات کے مطابق صوبے میں ڈھول ڈھمکے اور انتخابی نغموں اور جلسے جلوسوں سے خوب رنگ جما

پنجاب نے خوب رنگ جمایا

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے 2013 کے انتخابات کے مقابلے میں اس بار ڈٹ کر اپنی پارٹی کی مہم چلائی اور بعض مبصرین کے اندازوں کے برعکس انہیں پنجاب میں بھی عوام کی طرف سے پہلے سے زیادہ پذیرائی ملی لیکن پنجاب میں اصل رنگ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف نے ہی جمایا۔ ندیم ملک کے بقول دو چار حلقوں کو چھوڑ کر پورے پنجاب میں یہی لگ رہا ہے کہ مقابلہ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہے۔

’بازاروں میں چلے جائیں یا گلی محلوں میں بھی آپ کو شیر اور بلے کے نشان اور نعرے ہی ملیں گے، پیپلز پارٹی یا دیگر جماعتوں کے حمایتی کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ انھی دو جماعتوں نے پنجابی روایات کے مطابق صوبے میں ڈھول ڈھمکا اور انتخابی نغموں اور جلسے جلوسوں سے خوب رنگ جمایا ہوا ہے۔‘

طلعت حسین کہتے ہیں کہ ’پنجاب کے ان علاقوں میں جہاں انتخابی امیدواروں نے انتخابات سے چند روز قبل سیاسی وفاداریاں گروپس کی شکل میں تبدیل کیں، جیسا کہ جنوبی پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان وغیرہ تو وہاں پر بھی آپ کو وہ گہما گہمی نظر نہیں آتی۔ لیکن مرکزی پنجاب میں آپ کو خوب جوش و خروش دکھائی دیتا ہے۔‘

بلاول

بلاول بھٹو کی پنجاب اور سندھ میں انتخابی مہم بھی خبروں اور تجزیوں کا موضوع رہی

سندھ کا ملا جلا رجحان

شاہ زیب جیلانی کے بقول خاص طور پر تحریک انصاف کے حمایتی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی جماعت کی حکومت بن رہی ہے اس لیے ان میں خاصا جوش و جذبہ پایا جاتا ہے جبکہ وہ روایتی پارٹیاں جو پہلے بھی اقتدار میں رہی ہیں وہاں پر جوش و خروش کی کمی دیکھنے میں آئی۔

’اگر آپ مسلم لیگ ن کی بات کریں یا پیپلز پارٹی کی بات کریں تو ان کے لوگوں سے بات کر کے تاثر ملتا تھا کہ ان کے لیے انتخابات ایک بہت مشکل مہم جوئی کی طرح ہیں۔ ان کے آگے رکاوٹیں کافی ہیں جنہیں عبور کرنے میں انہیں مشکل ہو رہی ہے۔‘

کیا یہ انتخابات سیاسی بحران حل کر پائیں گے؟

یہ سوال بھی میں نے ان تینوں صحافیوں کے سامنے رکھا جو اپنی صحافتی زندگی میں نصف درجن سے زائد انتخابات اور انتخابی مہمات کی رپورٹنگ کر چکے ہیں اور اس بار بھی پورے ملک میں گھوم پھر کر ووٹرز اور ان کے سیاسی نمائندوں سے ملتے رہے ہیں۔

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ انھیں مرکز ہوں یا صوبے کہیں بھی کوئی مضبوط حکومت نہیں بنتی دکھائی دے رہی بلکہ انتخابات کے بعد سیاسی عدم استحکام گہرا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔‘

’آئندہ 48 گھنٹوں میں صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے لیکن ابھی تک کی صورتحال یہی ہے کہ مرکز میں کوئی جماعت واضح اکثریت لیتی نظر نہیں آ رہی۔ پنجاب میں ن لیگ ابھی بھی اس پوزیشن میں ہے کہ صوبائی حکومت بنا لے۔ سندھ میں ایک مخلوط حکومت بنتی دکھائی دے رہی ہے اور خیبر پختونخوا میں بھی تحریک انصاف کو اپنی حکومت بنانے میں خاصی مشکل ہو سکتی ہے۔ بلوچستان کا معاملہ آپ کے سامنے ہے جہاں سنجرانی ماڈل چل رہا ہے۔‘

تحریکِ انصاف کی کارکن

تحریک انصاف کے حمایتی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی جماعت کی حکومت بن رہی ہے

ندیم ملک کا خیال تھا کہ پولنگ والے دن مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف میں سے جو جماعت اچھی کارکردگی دکھائے گی وہ اکثریت لے جائے گی۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ملک کو بحرانوں سے وہی حکومت نکال سکتی ہے جو مضبوط ہو یعنی واضح اکثریت رکھتی ہو۔ اگر ایسی حکومت بن گئی جسے سادہ اکثریت حاصل ہوئی تو وہ اپنا سیاسی ایجنڈا لے کر آئے گی اور مسائل کم ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ایسی حکومت آئی جسے قائم رہنے ہی کے لیے آزاد ارکان یا ’دوسری قوتوں‘ پر انحصار کرنا پڑے تو یہ صورتحال ملک کے حق میں نہیں جائے گی۔‘

شاہ زیب جیلانی کا کہنا تھا کہ ایسی حکومت جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ عدلیہ اور سکیورٹی اداروں کی بیساکھیوں پر اقتدار میں آئے گی اسے اپنا آپ ثابت کرنا پڑے گا اور انھیں شک ہے کہ وہ زیادہ لمبا عرصہ چل پائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’ایک قسم کے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ایک خاص شخصیت کو الیکشن جتوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جیپ والے بھی ان کے حوالے کیے جا رہے ہیں، باقی آزاد بھی ان کے حوالے کیے جائیں گے اور ان کی حکومت بن جائے گی اور ملک بہتری کے راستے پر چل پڑے گا۔ لیکن آپ ذرا تصور کریں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں تو یہ دونوں پرانی پارٹیاں ہیں ان کی اپوزیشن میں نظام کیسے چلے گا، یہ دیکھنا ہو گا۔

’دوسری رائے یہ ہے کہ ایک کمزور حکومت، مخلوط حکومت بنے گی۔ میری رائے میں ان حالات میں کمزور حکومت سیاسی طور پر زیادہ مستحکم ہو گی۔ اگر آپ واقعی میں عوامی ووٹ کی طاقت سے حکومت میں آتے ہیں تو آپ خود بھی اپنے آپ کو مضبوط تصور کریں گے۔ آپ کہہ سکیں گے کہ میں کسی کی بیساکھیوں پر حکومت میں نہیں آیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32535 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp