ڈیپ سلوٹ: ایک ایسا علاقہ جہاں ہر تیسرا شخص ریپ میں ملوث ہے


ماریہ

جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ڈیپ سلوٹ علاقہ سب سے خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں ریپ عام بات ہے۔

ڈیپ سلوٹ کے دو نوجوانوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اب تک کئی خاتون کا ریپ کیا ہے۔ اور کیمرے کے سامنے یہ کہتے وقت ان کے چہرے پر کوئی شکن بھی نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ انھیں یہ علم نہیں کہ وہ کوئی غلط کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کبھی ریپ کی متاثر کی جگہ خود کو رکھ کر ان کی تکالیف کا اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی۔

وہ کیمرے کے سامنے آنے کے لیے تیار تھے لیکن اپنا نام پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے بہت ہی اطمینان کے ساتھ اپنے جرائم کی کہانیاں بیان کیں۔

انھوں نے کہا: ‘جیسے ہی وہ دروازہ کھولتیں ہم ان کے گھر میں داخل ہو جاتے اور چاقو نکال لیتے۔ وہ چیختیں چلاتیں، ہم انھیں خاموش کرا دیتے اور انھی کے بستر میں ہم ان کا ریپ کرتے۔’

یہ بھی پڑھیے

جنوبی افریقہ:’انسانی گوشت کھانے پر پانچ افراد گرفتار‘

جنوبی افریقہ کی انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے علیحدگی

دونوں میں سے ایک نوجوان دوسرے کی طرف رخ کرکے کہنے لگا: ‘یہاں تک کہ میں نے ایک بار اسی کے سامنے اس کی گرل فرینڈ کا ریپ کر دیا۔’

یہ بیانات پریشان کن اور حیران کن تھے لیکن ڈیپ سلوٹ میں یہ عام بات ہے۔

ڈیپ سلوٹ

گنجان آبادی والا یہ علاقہ غربت اور بے روزگاری کے مسائل سے دو چار ہے

ہر تیسرا شخص ریپسٹ

اس علاقے کے ہر تین میں سے ایک شخص نے یہ تسلیم کیا ہے کہ انھوں نے زندگی میں کم از کم ایک بار ریپ کیا ہے اور یہ تعداد یہاں کی آبادی کا 38 فیصد ہے۔

سنہ 2016 میں منعقدہ سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی۔ اس سروے کے لیے وٹواٹرسرنڈ یونیورسٹی کے سروے کرنے والوں نے ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد سے گفتگو کی تھی۔

بعض نے تو ایک ہی خاتون کا دو دو بار ریپ کیا تھا۔

ماریہ کا ان کے ہی گھر میں ریپ کیا گیا تھا۔ جس وقت ان کا ریپ ہوا ان کی بیٹی ساتھ کے کمرے میں سو رہی تھی۔

انھوں نے کہا: ‘میں بیٹی کے سوتے رہنے کے لیے دعا کر رہی تھی۔ مجھے خوف تھا کہ وہ کہیں اسے نہ نقصان پہنچائيں۔’

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: 17 سالہ لڑکی کا ریپ، چار افراد گرفتار

آپ ریپ ہوتے ہوئے دیکھیں تو کیا کریں گے؟

ان کے ریپسٹ نے کہا کہ وہ کسی کو ماریں گے نہیں لیکن وہ جو کرنا چاہتے ہیں وہ اس میں ان سے تعاون کریں۔

ماریہ نے کہا: ‘میں نے کہا میرے ساتھ جو کرنا ہے کر لو۔ اس کے بعد اس نے میرا ریپ کیا۔ وہ دوسری بار میرا ریپ کر رہا تھا۔’

بہت کم متاثرین اپنے ریپسٹ کی مخالفت کر پاتی ہیں۔ ڈیپ سلوٹ میں لوگوں کا خیال ہے کہ ریپ جرم نہیں ہے۔

مظاہرہ

ریپ کی کوئی سزا نہیں

گذشتہ تین سالوں میں ڈیپ سلوٹ میں ریپ کی 500 سے زائد شکایات کی گئی ہیں لیکن کسی بھی معاملے میں قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔

ریپ کے معاملے میں ہی نہیں دوسرے جرائم کے معاملے میں بھی یہاں کا قانون اپاہج نظر آتا ہے۔

مقامی صحافی گولڈن امٹیکا کرائم رپورٹنگ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘رات میں ڈیپ سلوٹ کی سڑکوں پر نکلنا بہت خطرناک ہے۔ کچھ ہونے پر مدد ملنا مشکل ہے۔’

رات میں 10 یا 11 بجے بھی کسی کا قتل ہو سکتا ہے اور پولیس اگلے دن تک اس شخص کی لاش نہیں اٹھاتی۔

قانون اپنے ہاتھ میں لینا

امٹیکا کہتے ہیں کہ ڈیپ سلوٹ میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور ایسے میں بڑے سے بڑا جرم ہو جاتا ہے۔

جرائم پر انتظامیہ کا ڈھیلا رویہ عام لوگوں کے لیے باعث تکلیف ہے۔

انتظامیہ کی جانب سے کارروائی نہ کیے جانے کی وجہ سے لوگ یہاں قانون اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔ مجرموں کو سزا دینے کے لیے بعض اوقات لوگ انھیں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیتے ہیں۔

امٹیکا کے مطابق اس طرح کے واقعات یہاں ہر ہفتے ہوتے ہیں۔

دو نوجوان

انھوں نے ایک چشم دید واقعے کے بارے میں بتایا: ‘ہجوم نے پٹرول چھڑک کر تین افراد کو زندہ جلا دیا۔’

امٹیکا کہتے ہیں کہ اپنی آنکھوں کے سامنے کسی شخص کو تڑپتے دیکھنا بہت خوفناک ہے لیکن وہ شخص کی مدد کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو انھیں بھی لوگوں کے غیظ و غضب کا شکار ہونا پڑتا۔

یہاں تک کہ پولیس بھی ایسے معاملات میں دخل نہیں دیتی خواہ سب کچھ ان کے سامنے ہی کیوں نہ ہو۔

یہاں لوگ ریپ کے مجرم پر ہجوم کے تشدد کو درست قرار دیتے ہیں۔ ڈیپ سلوٹ کی ایک رہائشی نے کہا: ‘ان کا مر جانا ہی اچھا ہے، وہ ہمارے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں اور ہمارے شوہروں کے سامنے ہمارا ریپ کرتے ہیں۔ وہ ہمارے شوہروں سے کہتے ہیں دیکھو میں کس طرح تمہاری بیوی کا ریپ کرتا ہوں۔’

یہ بھی پڑھیے

’بیٹا پوچھتا ہے ماں اور پھوپھی کے ساتھ کیا ہوا تھا‘

طالبہ نے ریپ کرنے والے کا عضو کاٹ دیا

لیکن ہجوم کے ہاتھوں قتل کے بعد بھی جرم میں کمی نہیں دیکھی جا رہی ہے۔

ڈیپ سلوٹ کو ‘ڈیپ ڈچ’ یعنی گہری کھائی کہا جاتا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ گہرے گڑھے میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

جوہانسبرگ کا کثیر آبادی والا یہ شمالی علاقہ غربت اور بے روزگاری کے مسائل سے دوچار ہے جبکہ ریپ کلچر اور خواتین کے خلاف جرائم نے یہاں کی معاشی صورت حال کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp