بیس سال بعد


سنئیر لوگ یا جو پاکستا ن کی تاریخ پر 1947 سے غیر جانبدارانہ نظر رکھے ہو ئے ہیں وہ سمجھ گئے تھے کہ میں نے ملٹری، مولوی، میڈیا اور سول سروس کا جو رونا پچھلے خط میں رویا تو غلط نہیں تھا۔ انہوں نے کہا جو آج ہو رہا ہے بیس سال بعد ان لوگوں کو ان دس صفحات کی سمجھ آئے گی۔ میں نے کہا المیہ یہی تو ہے بیس سال بعد پرانی نسل، جن پر آج بیت رہا ہے، تقریبا ختم یا ٹھنڈی پڑ کر کنارہ کش ہو چکی ہو تی ہے، اور پاکستان کے عوام کا جو پڑھائی لکھائی کی طرف رحجان ہے، اسے دیکھتے ہو ئے بیس سال بعد کی اس معاملے میں پیشن گوئی یہ ہے کہ ابھی تو پھر چھوٹے چھوٹے لطیفوں یا خود ساختہ اقوال بنا کر ایک دوسرے کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں بیس سال بعد شاید آن لائن تھپڑ، جوتی اور گندہ انڈا ایک دوسرے پر پھینک دیا کریں گے۔ تو اس لئے یہ دس صفحات یا اور بھی جو لوگ آج کے حالات کو سمجھ کو لکھ رہے ہیں، بیس سال بعد بھی اُتنے ہی ناکارہ ہو نگے جتنے آج ہیں۔

اسی لئے سوشل میڈیا کے اس دور میں ایجنسیوں کے پروپیگنڈہ کا یہ آسیب اور بھی سہل اور کثرت سے ہو گیا ہے۔ سچ کو محسوس کرنا نا ممکن ہو گیا ہے۔ یہاں ایک ر ٹیائرڈ جر نلسٹ تابندہ شاہدہ ہیں جن کے والد کا عمران خان کے والد کے ساتھ گہرا دوستانہ تھا، اور جو عمران اور اس کی فیملی کی سادگی اور شرافت کی گواہ اور ان کی خیر خواہ ہیں پڑھ کر کہنے لگیں :

تمھارے خط سے ایک بات جو بالکل روزِ روشن کی طرح عیاں ہے وہ تمھارا عمران کے لئے خلوص ہے۔ اس دنیا میں اب کتنے لوگ رہ گئے ہیں جن کے پیار کے اظہار کا یہ طریقہ ہو تا ہے کہ وہ جس سے پیار کرتے ہیں اس کو برے انجام یا مستقبل سے بچانے کے لئے اس وقت شور مچا کر برے بن جاتے ہیں جب اس بندے کے عروج کا زمانہ ہو۔ یہ تو ایک خالص مامتا بھری صفت ہو تی ہے۔ جو بچوں کو آگاہ کرتی ہے دیکھو یہ نہ کرنا، وہ نہ کرنا۔ تم کہتی جارہی ہو عمران، ملٹری، مولوی اور میڈیا کا ٹرائیکا توڑ دینا، اقتدار کے نشے میں مطلب پرستوں سے دور رہنا، ورنہ سب اپنا اپنا فائدہ اٹھاتے رہیں گے، اور جب تم کسی بھی پکڑ میں آگئے تو اسی طرح تنہا ہو گے جیسے آج نواز اور کل بھٹو تھا یہ تمھاری تاریخ پر نظر اور عمران سے پیار ظاہر کرتا ہے۔ “

تابندہ جی کے یہ کمنٹس اس لئے لکھ رہی ہوں کہ عمران کے چاہنے والے باقی سب تو اپنے پیر صاحب کے لئے کوئی بات سننے کو تیار نہیں، یہی ایک متوازن کمنٹ ملا تو سوچا شئیر کر لوں شاید کچھ گالیوں میں روک تھام ہو جائے۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے آج کی نسل جو بیس سال بعد ایک دوسری نسل سے ریپلیس ہو چکی ہو گی، کے لئے ضروری ہے کہ جذباتیت سے نکل کر یہ سوچیں کہ نہ تو میں عمران خان کے حکومت میں آنے کے خلاف ہوں اور نہ ہی نواز، زرداری یا کسی کی بھی کر پشن کو سہارا دینے کی کوشش کر رہی ہوں، یہ میری جبلت میں ہے ہی نہیں۔

مجھے تو آج تک یہ سمجھ نہیں آسکی کہ ایسی دولت، ایسا نام، ایسی عزت کا کیا کرنا جو آپ کو زندگی کی خوبصورتی ( کسی مخلص دوست کے ساتھ بیٹھ کر جھیل کنارے اس کے خاموش پانی کو تکنا، مر غابیوں کے ساتھ بیٹھ کر تصویریں لینا، ایک اچھی کتاب، یا نظم پڑھ کر اپنے دوست سے اس کے بارے بات کرنا، کسی خوبصورت پینٹنگ کو ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرنا، اور تصویر میں جا کر چاند سورج کی سیر کر آنا، کسی درخت تلے لیٹ کر ہوا کو اپنے بدن پر محسوس کر نا، بچوں کی ہنسی میں خدا کو دیکھنا اور چھوٹے سے کتے کے بچے کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اس کی حدت کو اپنے دل میں محسوس کر نا، کسی بوڑھے کے پاس بیٹھ کر اس کے بچپن کی کہانی کو سننا۔ )سے دور رکھے اور ہر وقت ایک مقابلے کی دوڑ میں شامل رکھے، مجھے تو اس تصور سے ہی وحشت ہو تی ہے، کہاں میں ایسی اعلی پیمانے کی ذلتوں کو سپورٹ کر وں گی؟

نواز پر ترس مجھے وہ والا نہیں آرہا جو کسی مجبور کو دیکھ کر آتا ہے، یہ وہ ترس ہے جو میں مستقبل قریب میں عمران پر نہیں کھانا چاہتی۔ مجھے کرپٹ نواز سے ہمدردی نہیں، مجھے خواب دیکھتے عمران کے خوابوں کے انجام کی فکر ہے۔ کیو نکہ ہر دو آنکھوں کے درمیان ایک اوسط دماغ رکھنے والے کو نظر آرہا ہے کہ یہ سزائیں کرپشن کے لئے نہیں ہو رہی ہیں۔

کبھی یہ پاکستان، مشرقی اور مغربی پاکستان میں بٹ جا تا ہے، کبھی اردو اور پنجابی کے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، کبھی سندھی اور مہاجر دست و گریبان ہیں اور کبھی شیعہ سنی ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ اب کے پولرائزیشن پٹواری اور یوتھیئے میں ہو گئی ہے۔ کسی بھی نام پر؛ چاہے زبان ہو، ثقافت ہو، مذہب ہو یا سیاسی پارٹی، کسی بھی نام پر ہم دو حصوں میں بڑے احترام اور جوش و جذبہ سے تقسیم ہو تے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا طریقہ کار ”توڑو اور حکومت کرو“۔ یہی سادہ سا فارمولہ ہماری اسٹبلشمنٹ لے کر چلتی ہے وہ کسی بھی نقطے پر قوم کو دو حصوں میں کا ٹتی ہے اور وہ دو حصے ایک دوسرے کی جان ایک کر نے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور یہ اپنا کھیل کھیل جاتے ہیں۔

آج کے پی پی پی کے ”کرپٹ“ اور نون کے ”پٹواری“ کل کے نظریاتی تھے اس فارمولے سے آج کے ”یوتھیے“ بھی کل کے زانی مشہورہو سکتے ہیں۔ اس نقطہ کی سمجھ آ گئی تو میں سمجھوں گی میں کامیاب ہو گئی۔ صرف فوج محب وطن نہیں ہے۔ لوگ کہتے ہیں سیاست دان جب ملک بیچنے لگتے ہیں تو فوج کو مداخلت کر نی پڑتی ہے۔ اچھا؟ تو حسین حقانی، میمو گیٹ کیس میں غدار وطن ثابت ہو نے کے بعد بھی سکون سے ملک چھوڑ جا تا ہے؟ مشرف نے آپ کا ملک امریکہ کے آگے بیچ دیا، یہ محبِ وطنی کی کون سی قسم ہے؟ اگر بے نظیر نے خالصتانیوں کی لسٹ راجیو کو دی تھیں، اس غدارکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا شوہرِ نامدار ( ثابت شد کرپٹ ایک اضافی خوبی ) پانچ سال جمہوری صدر رہنے کا ریکارڈ قائم کر کے گیا ہے اور اسی غدار کا بیٹا، آج پاکستان میں آزادانہ گھوم رہا ہے، بلکہ کبھی بھی وزیرِ اعظم ہو سکتا ہے۔

الطاف بھائی بقول آپ کے ڈیکلئرڈ غدار، سکون سے لندن میں وزن کم کروا کے دوبارہ سے جوان ہو ئے بیٹھے ہیں، ان کی پارٹی آج بھی پاکستان میں ہی سیاست کر رہی ہے، انڈیا میں نہیں۔ 1971میں جنرل نیازی، آپ کے جنرل یحیی ( شراب اور عورت کے نشے میں دھت ) کی کمان میں تھے کسی غدار سیاست دان کی نہیں ہے نا؟ توکیا ہوا؟ عام فوجی کی کتاب پڑھو تووہ غم جھلکتا ہے جو انہوں نے ذلت سہی اور ہائی کمان کی خاموش رہنے کی ہدایت پر عمل کیا جب کہ وہ سب دشمن پر اٹیک کے آرڈر کا انتظار کر تے رہے۔ آدھا ملک کٹوا کر، بہادر فوجیوں کو شرمناک طریقے سے سر عام ہتھیار ڈلوا کر، یہ تھے اس وقت کے محبِ وطن فوجی حکمران؟

میں چاہتی ہوں سب کر پٹ اور غداروں کا احتساب ہو، سب عمر قید یا پھانسی پائیں مگر ایک پارٹی اور ایک بندہ ہی نہیں۔ یہ سلیکٹیڈ انصاف آپ کو مبارک ہو۔ انصاف فار آل ہو تا ہے یہ نا انصافی ہو تی ہے جو چن چن کر کی جاتی ہے۔ حنیف عباسی کو ایفیڈرین کیس میں سو سال کی مزید سزا دیں لیکن کیا مجھے بتائیں گے کہ اتنی ایمرجنسی میں گیلانی اور دوسرے مجرمین کو سزا کیوں نہیں ملی؟

نواز کو پکڑا ہے تو سرائے محل والوں کو بھی ساتھ والی کوٹھری میں بند کریں۔ نواز کی بیٹی اقربا پروری کا شاہکار ہے تو بھٹو کا نواسہ کس سیاسی ادارے سے ٹریننگ لے کر آیا ہے؟ معزز جج افتخار کا بیٹا اور جنرل کیانی کے بھائی کس چکر میں ابھی تک آزاد زندگی گزار رہے ہیں؟ بیس سال بعد جو ہو ش آنا ہے۔ لوگو وہ ہوش آج ہی لے آؤ۔ ورنہ ”تبدیلی“ کانامکمل بھوت آپ کی نسلوں کو ڈرائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).