فلاحی مملکت کے قیام میں بس سمارٹ فون رکاوٹ ہیں


کچھ دنوں سے ویڈیوز سامنے آرہی ہیں۔ عوام کی طرف تشریف لے جانے والے انتخابی امیدواروں سے لوگ سوالات پوچھ رہے ہیں۔ کچھ کی تو دوڑیں لگو ارہے ہیں۔ لیکن چشم فلک ایسے نظارے کیوں دیکھ رہی ہے۔ اس بار تو وطن عزیز میں بڑے مقدس انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے انتخابی مہم زور پکڑے گی ویسے ویسے سیاستدانوں کا تقدیس سے بھر پور بیانیہ بھی سامنے آتا جائے گا۔

تاہم اس وقت تک سامنے آنے والی صورت حال کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر پارٹی اور ہر امیدوار اسلام کا معزز، معتبر اور واحد نمائندہ بن کر پیش ہو رہا ہے۔ اسی کے دم خم سے اس ارض پاک پر اسلام نافذ ہوگا۔ اسلامی شریعت لاگو کی جائے گی، امن کا بول بالا ہوگا۔ نظامِ عدل، عدلِ فاروقی ؓ ہوگا۔ ریاست کا نظم و نسق نظامِ مصطفی ﷺ ہوگا۔ یقیناًایسے نابغہ ء روزگارامیدواروں سے سوالات کرنے کی جر أت کرنے والے ملک و قوم کے دشمن ہیں۔ یہی وہ عوام الناس ہیں جو نہیں چاہتے کہ عدل فاروقی قائم ہو۔

بھئی آپ کیوں نہیں دیکھتے کہ انتخابات کے میدان کارزار میں اترنے سے قبل تمام امیدواروں کی جامہ تلاشی لی جارہی ہے۔ ان کی علمی، اخلاقی، دینی، اقتصادی اور معاشرتی اقدار کی خوب جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ گویا ہر امیدوار الیکشن کمیشن کے سخت کٹہرے سے گزر رہا ہے بلکہ اس بھٹی میں جل کر کندن ہو کر میدان عمل میں جا رہا ہے۔ جس امیدوار کے کاغذات نامزدگی منظورکیے جاتے ہیں ان پر صرف منظوری کی مہر نہیں لگتی بلکہ صاحبِ کاغذات کے کردار پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے۔ صرف صادق اور امین افراد کو ہی اس مہم پر روانگی کا پروانہ مل رہا ہے۔ پھر بھی کوئی ان کے کردار پر شک کرے اور مخلص ہونے پر انگلی اٹھائے تو یقیناًاسے عاقبت نا اندیش ہی کہا جا سکتا ہے۔

پھر یہ بھی تو دیکھئے یہ معزز امیدوار کتنی محنت اور مشقت سے دن رات غورو فکر کر کے، سر جوڑ کر ہماری فلاح و بہبود کے لئے ہماری تسلی کے لئے منفرد نعرے ایجادکررہے ہیں۔ ان نعروں کی زبان سے ہی صاف دکھائی دیتا ہے کہ ملک کا نظم و نسق چلانے اور عوام کی خدمت کرنے کے لئے دن رات ہلکان ہونے والے امیدوار کیسی اعلیٰ دینی اور اخلاقی سوچ رکھنے والے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے لئے وہ دنیوی مقاصد کو پیش نظر نہیں رکھ رہے اپنا نظریہ سیاست اور منشور پیش نہیں کررہے بلکہ سارا زور ا س بات پر ہے کہ کس طرح اس مملکت خدا داد میں اسلامی شریعت لاگو کریں گے۔ ارض پاک کو عظیم تر اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے۔ وہ کبھی دائیں بائیں دوسرے ممالک کے نظامِ حکومت کو بھی نہیں دیکھتے، خواہ وہ کتنا ہی کامیاب ہو اور اس میں عوام کو کتنا ہی ریلیف مل رہا ہو۔ واقعی مشرک و ملحد ممالک کیا جانیں حکومت کیا ہوتی ہے۔ ان کو کیا پتا فلاحی ریاست کس بلا کا نام ہے۔ اصل پالیسیاں تو ہمارے ان امیدواروں کے پاس ہیں۔ ہر امیدوار اسلامی نظام سے اکتساب علم و فن کر کے نعرے عطا کر رہا ہے۔

کہیں عدل فاروقی کے قیام کا نعرہ لگ رہا ہے تو کہیں مدینہ کی ریاست کے قیام کی خوشخبری سنائی جا رہی ہے۔ کہیں تالیوں کی گونج میں شریعت محمدی ﷺ کے نفاذ کا اعلان ہورہا ہے تو کہیں ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے جانیں قربان کر نے کی نوید سنائی جارہی ہے۔ بہر حال یہ نہیں بتا یا جارہا کہ جان کس کی قربان کی جائے گی۔ اپنی یا سامنے والے کی۔ ویسے ایسا سوا ل کرنے کی بھی جرأ ت نہیں کرنی چاہیے۔ آپ بھی نہ کریں۔

ہر پارٹی اور ہر امیدوار غلبہ حق کے لئے کام کرنے والا اور نظام مصطفی ﷺ کو قائم کرنے والا ہے۔ پر یہ کیا؟ ہر امیدوار کا مد مقابل بددیانت، چور، ناموس رسالت کا منکر، ختم نبوت کے قوانین میں تبدیلی کرنے والا، رسالت مآب ﷺ سے دشمنی رکھنے والا، عاشقان رسول ﷺ کا قاتل، ملحد اور پتا نہیں کیا کیا ہے۔ اب یہ ساری باتیں ہمیں کس نے بتائی ہیں اسے راز ہی رہنے دیں۔ آپ بھی کبھی ا س راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔

میرے ملک کے عوام کو نوید ہو کہ یہ عام انتخابات نہیں ہیں۔ یہ بڑے خاص انتخابات ہیں۔ ان انتخابات میں ووٹ کے بدلے جنت کے حصول کی بشارت گلی گلی بانٹی جا رہی ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ کتنا سستا سودا ہو چکا ہے۔ کتنی سہولت پیدا کر دی گئی ہے۔ کوئی بتائے کیا اس سے قبل کبھی بہشت اتنی قریب تھی۔ صرف ایک ووٹ کی پرچی کے فاصلے پر جنت کا دروازہ۔ بہشت کی کنجیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ بشارت سر عام دی جا رہی ہے۔ اب کون بد بخت اس میں داخل نہیں ہونا چاہے گا۔ بہر حال یہ نہیں بتایا جا رہا کہ یہ جنت کون سی ہے۔ ویسے سنا ہے اردو لغات میں جنت الحمقاء بھی شاید ایک لفظ استعمال ہوتا ہے۔

ناموس رسالت ﷺ کے محافظ بھی میدان عمل میں ہیں۔ مجاہدین ختم نبوت بھی حاضر ہیں۔ محافظین شریعت بھی کھڑے ہیں۔ پھر یہ مجاہدین اور محافظین بڑے بے نفس لوگ ہیں۔ عاجزی اور انکساری کے پتلے ہیں۔ شرافت کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ کردار کے غازی اور میدان عمل کے سکندر ہیں۔ پھر اپنے ان عظیم کارناموں پر فخر بھی محسوس نہیں کرتے۔ ہر کوئی اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا آگے جھک کر کر کہتا ہے کہ ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کی اس گنہگار کو توفیق ملی۔

صرف یہی کہتے ہیں۔ جی بس۔ اللہ کا کرم ہے اس گنہگار پر کہ اس نے مجھ سے یہ خدمت لی ہے ورنہ یہ نابکار کسی کام کام نہیں۔ عجز و انکساری میں گندھے ہوئے ایسے لیڈر آج پاکستانی عوام کو میسر ہیں۔ اللہ اللہ۔ کیا شان ہے۔ اور کیا خوش بختی کے دن ہیں۔

شنید ہے کہ اسلام کے قلعے کی دیواریں آپ کے ووٹ سے تعمیر ہوں گی۔ تو جان لیجیے آپ کا ووٹ صرف ووٹ نہیں ہے۔ اسے بس اسلام کے قلعے میں لگنے والی ایک ایک اینٹ ایک ایک پتھر سمجھ لیجیے۔ اب آپ کی ذمہ داری کہ قلعہ تعمیر ہونے دیں گے یا نہیں۔ ویسے یہ کوئی پہلی بار تو نہیں کہ آپ اسلام کو ووٹ دے رہے ہیں۔

انتخابی عمل میں اترنے والے امیدوار اور مستقبل کے حکمران تو تیار ہیں کہ گلی کوچوں میں گشت کریں اوراناج کی بوری اپنی ننگی کمر پر لاد کرغریبوں کے گھروں تک پہنچائیں۔ آپ ہی اناج وصول نہ کرنا چاہیں تو پھر ان خمیدہ کمر انکساری کے پتلوں کا کیا قصور؟ برا ہو آپ کے سمارٹ فونوں کا جو صادق و امین اور معززین کی صداقت و امانت کی گلی کوچوں میں لگتی دوڑیں ریکاڑ کر کر کے ہر طرف پھیلا رہے ہیں۔ واقعی یہ کوئی اسلام دشمن سازش لگتی ہے جس نے فون اتنے سستے کر دیے ہیں کہ ہر کس و ناکس کی پہنچ میں ہیں۔ مجھے لگتا ہے بس آپ کے اسمارٹ فون ہی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں رکاوٹ ہیں۔

ویسے بقول مشتاق احمد یوسفی
’صبح اس وقت نہیں ہوتی جب سورج نکلتا ہے صبح اس وقت ہوتی ہے جب آدمی جاگ اٹھے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).