پاک امریکہ تعلقات اور رضا ربانی کی مجہول منطق


\"edit\"سینیٹ کے چئیرمین رضا ربانی نے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو عدم توازن کا شکار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ صرف اس وقت پاکستان کی طرف دیکھتا ہے جب اسے علاقے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر وہ پاکستان کے مفادات کو نظر انداز کرتا ہے، اس کے عدالتی نظام کا احترام نہیں کرتا اور حالیہ برسوں میں اس کی پالیسی کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا ہے۔ یہ اعتراضات درست ہونے کے باوجود صورت حال کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتے۔

کل سینیٹ کے اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے سینیٹ کے چئیر مین نے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے یک طرفہ جھکاؤ پر گفتگو کی اور کہا کہ امریکہ پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں امریکی کانگرس کی طرف سے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی خریداری کے لئے فراہم کی جانے والی رقم روکنے پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا امریکہ نے بھارتی اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ رقم روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ امریکی سویلین جوہری معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے شکایت کی کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے ریمنڈ ڈیوس اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتا۔

قوم پرست پاکستانی لیڈر کے طور پر تو یہ باتیں قبول عام کا درجہ رکھتی ہیں اور ان پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ تاہم اگر ان اعتراضات کو دونوں طرف سے سامنے آنے والی معلومات اور دو ملکوں کے باہمی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے گا، تو بات اتنی سادہ نہیں رہتی۔ حیرت ہے کہ رضا ربانی جیسے منجھے ہوئے سیاستدان نے یہ بتانے کے لئے کہ امریکہ پاکستانی عدالتی نظام کا احترام نہیں کرتا، ریمنڈ ڈیوس اور شکیل آفریدی کیس کا حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ 2012 میں پیش آنے والے ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ میں پاکستان کے عدالتی نظام کو استعمال کرتے ہوئے قصاص کی ادائیگی کے بعد اسے رہا کیا گیا تھا۔ اگر چئیرمین سینیٹ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ غلط تھا تو اس میں امریکہ کا کیا قصور ہے۔ اس صورت میں تو انہیں ملک میں قتل کے جرم میں دیت اور قصاص ادا کرکے رہائی پانے کے طریقہ کو بدلوانے کے لئے قانون سازی کرنی چاہئیے تاکہ بے گناہ لوگوں کے قاتل محض دولت کی بنیاد پر ملک کے نظام میں رہائی نہ پا سکیں۔ اس طرح غیرت کے نام پر ہونے والے متعدد قاتلوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے میں آسانی ہوگی۔ رضا ربانی یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو قبائیلی علاقوں کے انتظامی عدالتی انتظام کے تحت ایسے الزامات میں سزا دی گئی ہے جو اس سے سرزد نہیں ہوئے۔ اس پر اصل الزام اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں امریکی سی آئی اے کی مدد کرنا ہے۔ لیکن اسے اس الزام میں سزا نہیں دی گئی۔ایسے میں اگر امریکہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان نے دنیا کے بدترین دہشت گرد کو پکڑوانے والے شخص کو سزا دے کر امریکی مفادات کے خلاف کام کیا ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔ پاکستان تو 3 مئی 2011 کو ایبٹ آباد حملہ میں ملوث ہونے یا تساہل کا مرتکب ہونے والے کسی ذمہ دار کا تعین کرنے یا سزا دینے میں بھی کامیاب نہیں ہؤا ، تو کیا اس کی ذمہ داری بھی پاکستان کے ساتھ امریکہ کی بے اعتنائی پر ڈالی جائے گی۔

رضا ربانی سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ دو ملکوں کے تعلقات باہمی مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ فریقین ایسے میں اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ پاکستان نے اگر برس ہا برس سے بوجوہ اپنی خارجہ پالیسی کا محور امریکہ کی خوشنودی کو بنایا ہے اور اس دوران اپنے مفادات کی ضمانت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے تو اس کا الزام واشنگٹن یا امریکی کانگرس پر عائد کرکے اسلام آباد کے بزرجمہر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ امریکہ اگر بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے تو پاکستان کو بھی آزادی ہے کہ وہ دنیا کے دوسرے ملکوں سے تعلقات استوار کرے اور امریکی رسوخ سے نکلنے کی حکمت عملی اختیار کرے۔ لیکن کسی ملک سے مسلسل امداد وصول کرتے ہوئے اس کی شرائط ماننے سے انکار کرنے کے نتیجے میں تو وہی صورت حال پیدا ہوگی جو اس وقت پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجود ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ سینیٹ میں موجود وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے بھی چئیرمین سینیٹ کی باتوں سے اتفاق کیا حالانکہ درحقیقت رضا ربانی کی باتیں حکومت پاکستان کی نااہلی کا اعلان نامہ ہیں۔ جب ملک کا اعلی ترین سفارت کار یہ بات سمجھنے سے قاصر ہو تو اس ملک کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کے بارے میں کیوں کر خوش گمانی ہو سکتی ہے۔ اسی تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستانی حکام نے ایف 16کی خرید کا معاملہ اسلام آباد کا دورہ کرنے والے امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کے سامنے پیش کیا۔ یعنی پاکستان کے پالیسی ساز یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکی فوج کے کمانڈر کانگرس کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں، اسے فیصلے بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ پاکستان نے اس وقت سستی کا مظاہرہ کیا جب بھارتی لابی واشنگٹن میں پاکستان کو طیاروں کی فروخت میں رخنہ ڈالنے کے لئے کام کررہی تھی اور اب لکیر پیٹی جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali