اللہ بخشے فلاں اور عوامی عقیدت کے معیار


بر صغیر پاک و ہند میں ہر گھر میں کچھ ”اللہ بخشے مرحوم فلاں“ موجود ہوتے ہیں اور ان کا نام لے لے کر بارہا جذباتی بلیک میلنگ کی جاتی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ مظاہرہ شادی بیاہ کے موقع پہ دیکھنے میں آتا ہیں۔ جہاں کئی مرحومین کے نام سے دونوں فریقین سے خرچے کروائے جاتے ہیں۔ خاص کر دولہا والوں کا بس چلے تو وہ اپنے پانچ پشتوں پرانے مرحومین تک کے لیے پہناونی کے جوڑے اور زیورات لے لیں۔

یہ اللہ بخشے مرحوم فلاں گھر کی غیر منطقی روایات کے اختتام کی راہ میں سب سے بڑی دیوار ہوتے ہیں۔ حد یہ کہ سالن میں پہلے بگھار ہو یا بعد میں یہ بھی کوئی اللہ بخشے فلاں فیصلہ کرجاتے ہیں اور نئی نسل کے لیے اس سے انحراف ممکن نہیں۔ میاں بیوی کے درمیان ان کے خاندان کے زندہ انسانوں سے زیادہ ان اللہ بخشے فلاں کی موجودگی ہوتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے مرحومین سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے ایک دوسرے کے جذبات سے صرف نظر کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ جب یہ اللہ بخشے فلاں کے عہدے پہ فائز جائیں تو ان کی اولاد ان کے جذبات کے احترام میں زندہ انسانوں کا جینا حرام کرے۔

ہمارے معاشرے میں کئی اللہ بخشے فلاں زندہ انسانوں کی زندگیوں کے فیصلے تک کرجاتے ہیں۔ کس کی شادی کس سے ہوگی؟ کس کو گھر کا کونسا حصہ ملے گا؟ کون بڑے ہوکر کیا بنے گا؟ یہ سب عموما گھروں میں اللہ بخشے فلاں بتا کے جاتے ہیں۔ بلکہ پاکستان جیسے ممالک میں تو پوری قوم کی تقدیر انہی اللہ بخشے فلاں کے بنائے گئے قوانین پہ چل رہی ہے۔ ہر سیاسی تنظیم کا الگ ”اللہ بخشے فلاں“ ہے۔ جس کا نہیں ہے اس کی کوشش ہے کہ کہیں سے ایک اللہ بخشے فلاں حاصل کر لیا جائے تاکہ اس کے نام پہ ووٹ حاصل کرنے میں آسانی ہو۔ آپ کے پاس دلیل نہیں کوئی بات نہیں آپ کسی بھی اللہ بخشے فلاں کو بیچ میں لے آئیں اب سامنے والے کی مجال کہ آپ کو غلط کہہ سکے؟ اور مجال ہو جائے تو بلوائیے بلوا اور دونو‍ں اطراف میں اللہ بخشے فلانوں کا اضافہ کر لیں۔

زندگی میں چاہے آپ کئی بدعنوانیوں، جرائم اور گناہوں کے مرتکب ہوئے ہوں مگر اللہ بخشے فلاں ہوتے ہی آپ کو قومی ہیرو بنا کر بچوں کی نصابی کتب میں ٹھونس دیا جائے گا۔ اور آپ کی بدعنوانیاں بھی ”ٹھگ لائف“ بنا کر پیش کی جائیں گی۔ تاکہ نئی نسل کبھی یہ صلاحیت نہ سیکھ سکے کہ پیروی کرنے کے لیے کن اعلی اقدار کی حامل شخصیت ہونی چاہیے۔ جب ایک ہی نصابی کتاب کے ایک صفحے پہ ملک کے عالمی شہرت یافتہ فلاحی شخصیت کا سبق ہو اور اگلے صفحے پہ جمہوریت کی ہنڈیا پھوڑ کر آمریت کی دیگ پکانے والوں، مذہبی اور لسانی چورن سے عوام کا پیٹ خراب کروانے والوں اور پڑوسیوں کو دور دور سے بیٹھ کر منہ چڑا کر پنگے پہ آمادہ کرنے والے اللہ بخشے فلانوں کی شان میں قصیدے درج ہوں نئی نسل کیا اور کیسے سیکھے؟

مسئلے کی بات یہ ہے کہ زندہ انسانوں کی زندگیوں کو مردہ انسانوں کی مرضی کے مطابق چلانا تقریبا ناممکن ہے۔ یہ اللہ بخشے فلاں جتنا عشرے قدیم ہے اس کے فیصلے اسی زمانے کے مطابق ہیں اب ان فیصلوں کی میچنگ تو کیا کنٹراسٹ بھی نہیں مل سکتا۔ کہ چلو کنٹراسٹ بنا کر ہی سہی کہیں تو اچھا لگے۔

ہمارے یہاں ویسے بھی زندہ انسان کی اہمیت اللہ بخشے فلاں سے کم ہے۔ اگر آپ بہت عظیم انسان ہیں آپ نے ملک کے لیے بہت خدمات پیش کی ہیں تو سب جائے بھاڑ میں جب تک آپ اللہ بخشے فلاں نہیں بن جاتے آپ کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا۔ اور جیسے ہی آپ اللہ بخشے فلاں کے عہدے پہ فائز ہوں گے تو سب سے پہلے نئی نسل اپنی ڈی پی پہ آپ کو سجائے گی۔ ہر ٹی وی چینل کا مارننگ شو والا یہ دعوا کرے گا کہ آپ اس کے سب سے قریبی تھے۔ اور سب سے آخر میں مرنے سے پہلے پہلے آپ نے اسے ہی کال کی اور اپنی قربت کا یقین دلایا تھا۔ آپ فورا کچھ لوگوں کے خواب میں آجائیں گے۔ جیسے مرنے سے پہلے بکنگ ہوئی ہو۔ کہ مرنے کے پہلے آدھے گھنٹے میں فلاں فلاں کے خواب میں آنا ہے اور مزید اگلے دن فلاں فلاں کے۔ اور آپ تب تک ان رہیں گے جب تک کوئی دوسری عظیم شخصیت اللہ بخشے فلاں نہیں بن جاتی۔

اپنی زندگی میں آپ کو پورے پاکستانی عوام سے بلا تفریق عزت چاہیے تو آپ کو یا تو کرکٹ کی سیریز جتوانی پڑے گی یا پاک فوج کی قیادت کرنی پڑے گی۔ ورنہ اللہ بخشے فلاں بننے تک انتظار کیجئے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima