تخت لاہور کا میدان: فاتح کون ہوگا؟


2018 کے عام انتخابات کے معرکہ میں 2 دن باقی رہ گئے ہیں سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، پیپلز بارٹی اور ایم ایم اے سمیت دیگر کئی جماعتیں اپنی قسمت آزمائی کر رہی ہیں ان کے ساتھ کئی آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ تمام جماعتیں اس انتخابات میں بھر پور تیار ی کے ساتھ حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم ن لیگ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات، دھرنا سیاست، تحقیقاتی کمیشن، پانامہ، اقامہ، سابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی، پارٹی صدارت کا چھن جانا، پارٹی کے کچھ رہنماؤں کا ساتھ چھوڑ دینا، جنوبی پنجاب میں پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ سمیت کرپشن دیگر تمام نوعیت کے الزامات کے حوالے سے شدید دباؤ کا شکار رہی ہیں رہی سہی کسر احتساب عدالت کے فیصلے نے پوری کر دی ہے جس کے تحت مریم نواز کا سیاسی سفر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا ہے۔

اس تمام تر صورت حال کے باوجود ن لیگ اپنے حریفوں کا بھر پور مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ جنوبی پنجاب میں ن لیگ کو خاصی مشکلات ہیں یہاں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان اصل مقابلہ ہو گا۔ تینوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ پنجاب کے سیاسی محاذ پر کامیابی حاصل کریں پنجاب سے جو جیتے گا وہی مقدر کا سکندر ہو گا۔

پنجاب کے مختلف شہروں میں لاہور کا سیاسی محاذ انتہائی اہم ہے جہاں نئی مردم شماری کے بعد قومی اسمبلی کی 13 سے 14 سیٹیں اور صوبائی سیٹیں 26 سے 30 ہو گئی ہیں۔ لاہورکے سیاسی محاذ پر اصل مقابلہ ن لیگ اور تحریک انصاب میں ہوگا اور پیپلز پارٹی کے لیے ایک سیٹ بھی نکالنا مشکل لگ رہا ہے۔ ہم یہاں پر ان چند حلقوں کا ذکر کریں گے جہاں پر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا آپس میں کانٹے دار مقابلے ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔

این اے 125 میں ن لیگ کے وحید عالم خان اور ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ یہ آبائی سیٹ سابق وزیراعظم نواز شریف کی تھی جس پر 2017 میں کلثوم نواز بھی جیت چکی ہیں۔

این اے 133 میں ن لیگ کے پرویز ملک اور ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے اعجاز چوہدی کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ دونوں اس حلقے میں سخت محنت کر رہے ہیں۔ اسی حلقے سے ن لیگ کے سابق ایم پی اے زعیم حسین قادری آزاد امیدوار کی حیثیت سے ایم این اے کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقے میں جیتنے کے لیے امیدوار سردھٹر کی بازی لگا رہے ہیں۔ لاہور کا دوسرا کانٹے دار مقابلہ این اے 129 میں ن لیگ کے ایاز صادق اور تحریک انصاف کےعلیم خان کے درمیان ہو گا۔ یہ انتہائی دلچسپ مقابلہ ہو گا۔ این اے 130 میں خواجہ حسان احمد اور سابق ایم این اے شفقت محمود کے درمیان ہو گا۔ اس حلقہ میں ایم ایم اے کی سیٹ پر لیاقت بلوچ حصہ لے رہے ہیں۔

این اے 131 میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق آمنے سامنے ہیں اور کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے اس حلقے پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی۔ تحریک انصاف کی اس حلقہ پر بڑی پرانی نظر ہے تاہم خواجہ سعد اپنی سیٹ کا بھرپور دفاع کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ این اے 135 میں سیف الملوک ن لیگ کی سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں ان کے مدمقابل ان کی ہی برادری سے تحریک انصاف کے کرامت کھوکھر الیکشن لڑ رہے ہیں جب کہ ایم ایم اے کے مرکزی رہنما امیرالعظیم بھی کافی محنت کر رہے ہیں تاہم اصل مقابل ن لیگ اور تحریک انصاف میں ہوگا۔

جہاں ن لیگ کی کامیابی کے امکانات انتہائی روشن ہیں ان میں این اے 123 لاہور کا پہلا قومی اور صوبائی حلقہ ہے۔ اس حلقہ میں ملک ریاض زیادہ مضبوط امیدوار ہیں۔ اس حلقہ میں ن لیگ کی طرف سے حصہ لینے والے فتح یاب ہوتے آرہے ہیں۔ این اے 124 شریف فیملی کا آبائی حلقہ ہے جہاں سے ہمیشہ ن لیگ جیتی حمزہ شہباز دوبار یہاں سے جیتے، ان کے مد مقابل تحریک انصاب کے مہر نعمان قیصر حصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقہ میں حمزہ شہباز کی پوزیشن بہت مضبوط بتائی جا رہی ہے۔

این اے 126 سے ن لیگ کے مہر اشتیاق اور تحریک انصاف کے بیرسٹر حماد اظہر ہیں اس حلقے میں بھی اچھے مقابلے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ این اے 128 میں شیخ روحیل اصغرن لیگ سے جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے اعجاز ڈیال ہیں، کانٹے دار مقابلہ ہو گا۔ این اے 132 میں سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف انتخاب لڑ رہے ہیں یہ بھی ان کا آبائی حلقہ ہے اور یہاں سے وہ بیک قومی و صوبائی اسمبلی کی تینوں سیٹوں پر حصہ لے رہے ہیں شہباز شریف مسلم لیگ ن کے صدر بھی ہیں، ان کے مدمقابل تحریک انصاب کے منشاء سندھو ہیں پہلے ان کا تعلق ن لیگ سے رہا ہے۔ منشاء سندھو بھی بڑی محنت کر رہے ہیں۔

این اے 134 میں ن لیگ سے رانا مبشر اقبال ان کے مد مقابل تحریک انصاف سے ظہیر عباس کھوکھر ہیں۔ اس حلقہ میں رانا مبشر اقبال کی پوزیشن اچھی بتائی جا رہی ہے دنوں فریقوں میں کانٹے دار مقابلہ ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی لاہور میں انتخابی پوزیشن کافی خراب بتائی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ کئی انتخابی ریکارڈ ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ نئی جماعتیں جو پہلی بار 2018 کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں ان کے امیدواروں کی ایسی پوزیشن میں نہیں لگ رہیں کوئی سیٹ لے سکیں البتہ ن لیگ اور تحریک انصاف کے ووٹ پر ضرور اثر انداز ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).