عالی جناب! تھپڑ میں کیا برائی ہے؟


منہ پہ پڑے تھپڑ اور چند مشہور گالیوں کو عموما قبول کر لیا جاتا ہے، خاص کر جب ہاتھ کسی مقتدر کا ہو اور زبان کسی زورآور کی ہو۔ لیکن یہ حق کسی کمزور کو حاصل نہیں ہے کہ وہ بوقت ضرورت اس روایت پہ عمل کر کے فائدہ لے سکے۔ اگر خلاف روایت کسی نے یہ کر دیا تو بستی کے تمام معزز حضرات اسے برا بھلا کہنے کے لئے ایک صفحے کے مقرر بن جاتے ہیں۔ ارتقائی سائنس کے ماننے والے تو یہ تک کہتےہیں کہ انسان ابھی تک رینگنے والے جانوروں کی پر تشدد فطرت سے آزاد نہیں ہو سکا۔ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے حدود میں بن بلائے داخل ہو۔ لیکن خیر انسانوں اور جانوروں کے بیچ کیا موازنہ، انسان اشرف المخلوقات ہے، اسے صرف شکل کی بنیاد پہ سند مل جاتی ہے، چاہے اٹھ کر اپنی طاقت کے نشے میں وہ سارے کام کر ڈالے جو ایک انسان کو زیبا نہیں۔ مگر کوئی سوال نہیں کر سکتا، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ پوچھ سکے کہ آپ کو جو مرتبہ بھی مل جائے مگر توہین کرنے کی آزادی نہیں مل سکتی۔ اگر کوئی اعتراض کرے بھی تو اسے آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ تھُپڑ اور گالی کو ہم جتنا بھی لطیف بنا لیں، لیکن ان کے پیچھے جو ذہنی حالت کارفرما ہے، اس سے لاتعلق نہیں ہوا جا سکتا۔ حالانکہ ایسی کارروائی اکثر راہ چلتے مشاہدے میں آتی ہے، لوگ معمولی جھگڑے میں منہ پہ تھپڑ جڑ جاتے ہیں، زبان درازی کر جاتے ہیں۔ پھر بھی اس حرکت کو معمولی خیال نہیں کیا جا سکتا۔

اس سے تشدد کا کوئی پہلو نہ بھی نکلے تو کیا یہ کم ہے کہ آپ اپنی سہولت کے لئے کسی آدمی کی توہین کر رہے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ اس توہین آمیز حرکت کے لئے کوئی ایسا اخلاقی ضابطہ نہیں جس کا اطلاق ہو۔ ہتک کرنے والا شخص جتنی بھی وضاحت کرے لیکن یہ کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ طاقت کا گھمنڈ ہمیشہ یہ یقین دلاتا ہے کہ تمہارے پاس کچھ بھی کر نے کا اختیار ہے۔ لوگ تمہاری حیثیت کو تسلیم کر چکے ہیں۔ تمہیں ایک غلام معاشرے میں کچھ ایسی آزادیاں حاصل ہیں جو کسی بھی عام آدمی کو نہیں ہیں۔ بلکہ آپ جس مقام پہ کھڑے ہیں وہاں آپ سے سوال کرنا ہی ممکن نہیں ہے۔ ایک با اختیاریآدمی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنے غلط کیئے کی کوئی وجہ بیان کرے۔ ایک تھپڑ اور ایک گالی جو دونوں ایک ساتھ برآمد ہوتے ہیں، اکثر اوقات گالی تھپڑ کی آواز میں گم ہو جاتی ہے، کیونکہ تھپڑ کھانے والا شاید توہین کے احساس میں غرق ہو جاتا ہے۔ جس شخص کو آپ اپنے ایسے رعب کا نشانہ بناتے ہیں، وہ اپنے اس تجربے کو شاید ہی کبھی بھلا پائے۔ وہ آپ سے جتنی بھی عقیدت رکھتا ہو، لیکن معذرت کے ساتھ اس کیاور باقی ناظرین کی نظروں میں کبھی آپ وہ مقام دوبارہ حاصل نہیں کر سکتے جو ایک تھپڑ یا گالی سے پہلے ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس یہ جواز ہے کہ تھپڑ جان بوجھ کے نہیں مارا گیا، تو پھر آپ جو بھی نامناسب حرکت کریں وہ اسی عذر کے تحت سمجھی جائیں۔ یہ مطالبہ دراصل انتہائی غیر فطری ہے۔ جیسے آپ اپنی حرکات کو قابو نہیں کر سکتے، اسی طرح دیکھنے والے انسان بھی آپ کی پیش کردہ تجاویز کے مطابق نہیں سوچ سکتے۔ اس کے برعکس جو انہیں سمجھ آئے گا وہ وہی کریں گے۔ آپ اپنے مطالبات میں سختی کرنے کی بجائے اپنی حرکات پہ نظر ڈالئے۔ یہ جانیں کہ آپ کا نشانہ آپ کے ساتھی نہیں تھے تو کون تھا؟ وہ وہاں آپ کے برابر کیسے بھٹکا اور کیا سوچ کے آپ نے اس کیتواضع کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے اگر یہ سوچ کے ہاتھ بڑھایا کہ وہ عام آدمی تھا تو پھر رہنے دیں اور اپنے نعروں میں عام آدمی کی جھوٹی تکریم کے دعووں سے گریز کریں۔ کیونکہ وہ آپ کی زد میں آئیں گے تو آپ ان کو دو تھپڑ رسید کریں گے۔

یہ نشانی ان کے لئے کافی ہے جو تھوڑی سی توہین کو کافی سمجھتے ہیں۔ ایسی بے عزتی کو کسی طرح کےرعایتی نمبر دے کے پاس نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ عزت اور بے عزتی کے بیچ بہت بڑی فرق ہے۔ آپ جب تک کسی کو برابر نہیں سمجھتے، آپ اس آدمی سے ویسا سلوک نہیں کر سکتے جو آپ اپنے ساتھ کرتے ہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے؟ آپ کو خود پہ غصہ آئے تو آپ خود کو کس کے تھپڑ ماریں، کبھی نہیں۔ کیونکہ یہ غیر فطری ہے اور آپ کا دماغ آپ کو کبھی اجازت نہیں دیتا کہ خود اپنی ذات کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں۔ لیکن آپ کے لئے یہ انتہائی آسان ہے کہ کسی پہ غصہ آئے تو آپ اس کیتوہین کر دیں۔ اس طرح کر کے دوسرے انسان کو احساس دلاتے ہیں کہ تم وہاں نہیں ہو جہاں میں ہوں اور ہم قطعی برابر نہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں آپ اس شخص کو اس کیاوقات یاد دلاتے ہیں، اب یہ اس کیمرضی ہے اور اس کیسوچ ہے کہ وہ اس توہین آمیز رویئے کو کس طرح لیتا ہے۔ البتہ آپ نے اپنا کام کر دیا ہے، جو آپ کے دماغ نے آپ کو ہدایت دی آپ نے اسی طرح کیا۔

انسان کی سب سے اول خواہش ”برابری“ ہے، اسی لئے ہمیں مذہبی تعلیمات میں بھی مساوات کے بارے میں زیادہ تلقین کی جاتی ہے۔ انسان کسی دوسرے انسان کو اگر اپنے ساتھ ایک جیسی سہولیات مہیا نہ بھی کر سکے تو کم از کم اس کے ساتھ سلوک کرتے وقت اس بات کا خیال رکھے۔ انسان کی پیدائیش کبھی عام یا خاص کے معیار پہ نہیں ہوتی، اگر اس طرح ہوتا تو انسان پہلے سے ہی قدرت کے ہاں سے عام یا خاص بن کے آتا۔ پیدائیش کے وقت تمام ایک حالت اور ایک جیسی صورت لے کے آتے ہیں۔ باقی تمام درجہ بندی دنیا میں ہوتی ہے۔ یہاں بہت سے لوگ تھپڑ کھانے والے ہیں اور چند مارنے والے ہیں۔ دونوں اپنی اپنی حیثیت کو قبول کر لیتے ہیں، حالانکہ وہ اس اصول کے تحت پیدا نہیں ہوتے۔ اعتراض کرنے والوں سے بندہ پوچھے، عالی جناب! تھپڑ میں کیا برائی ہے۔ ؟ خاص طور پہ جب چہرہ بھی آپ کا نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).