ووٹر اپنے حصے کی جہنم کا انتخاب کر لیں


انتخابات میں اب چند گھنٹے باقی ہیں۔ دھماکے سیاست میں اور بدقسمتی سے گراؤنڈ پر بھی جاری ہیں، اس وقت ایک بے یقینی، سیاسی خلا کی سی کیفیت کا ہونا عین فطرت کے مطابق ہے مگر اس بار تذبذب اور اظطراب زیادہ ہے۔ تحریک انصاف کے زیادہ تر ووٹر اس وقت مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ ہونے والی کارروائی کو جس شعوری سطح پر کھڑےہو کر دیکھ رہے ہیں وہاں سے انہیں یہ سب بہت جائز اور قدرت کا کرشمہ دکھائی دے رہا ہے۔ اسی لیے وہ بجا طور پر ان کارروائیوں کو اپنی جیت کے لیے آسمانی اشارے قرار دے رہے ہیں۔

انسانی ذہن میں نئے خیالات یا صورتحال کے بارے میں کوئی نیا امکان اسی طرح آتا ہے جیسے کوئی مچھیرا پانیوں میں جال ڈالے انتظار کرتا ہو اور کب کوئی مچھلی کس وقت جال میں پھنس جائے کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ یہ کسی بھی واقعے کو دیکھنے کا مقام ہے ہے جو طے کرتا ہے کہ اس واقعے کو آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہی بات نظریات اور سیاست پر بھی لاگو ہوتی یے۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے دو سگے بھائی ایک ہی طرح کے مسائل دوچار ہوتے ہوئے بھی ان کے حل کے لیے متضاد آرا کے حامل ہو سکتے ہیں۔ آرا کا تضاد فطری ہے مگر ان کا پر امن حل اصل چیلنج ہے، دنیا نے اس مسئلے کا حل جمہوریت میں کامیابی سے ڈھونڈ لیا ہے۔ ہم بہرحال ابھی تک اس نظام کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں لہذا نتائج بھی آدھے ادھورے ہیں۔

ایک نظر دوڑا کر دیکھیں آپ کو اپنے حلقے میں جو بینرز، فلیکس اور کارنر میٹنگ کی گہما گہمی نظر آتی ہے یہ سب دولت کے بے دریغ استعمال کی بدولت ہے۔ یہ پارٹی پرچم کی لہلہاتی بہار دراصل کرنسی نوٹ ہیں جو درختوں اور کھمبوں پر نظر آتے ہیں۔ میرا، ایک دوست ایم این اے کا الیکشن لڑ رہا ہے، مجھے اپنے خرچوں کی تفصیل بتا کر غم غلط کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کے مرکزی انتخابی دفتر میں صرف ایک دن کی دیگوں اور خرچہ پانی کی مد میں ایک لاکھ روپے سے زائد خرچ ہو رہا ہے، اس کے نیچے دو ایم پی اے الیکشن لڑ رہے ہیں جن کو وہ اب تک صرف پارٹی پرچم کی مد میں ساٹھ لاکھ روپے ادا کر چکا ہے کہ پارٹی قیادت کا حکم ہے کہ ان کے خرچے میں بھی ہاتھ بٹاؤ۔

دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ اپنی جیب سے آپ کو اتنا پیسہ خرچ کرنا ہو تو کیا آپ اس پیسے کی واپسی نہیں چاہیں گے۔ اسی بات کو کاروباری کے مقام پر کھڑا ہو کر دیکھیں تو جان لیں گے کہ سرمایہ کاری جتنی محفوظ ہو گی منافع اتنا کم اور رسک جتنا بڑھتا چلا جائے گا، شرح منافع بھی بڑھتی چلے جائے گی۔ سٹاک ایکسچینج میں کیا ہوتا ہے۔ اب الیکشن کو اسی طرح دیکھنے کی کوشش کریں، آپ الیکشن پر دس کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں، اگر ہار گئے تو ایک پیسہ واپس نہیں ملے گا، اس صورت میں جیت کی شرح منافع کیا ہونی چاہیے۔

نواز شریف اور اس کی مسلم لیگ کو نفرت ہی نہیں حقارت سے دیکھنے والے طعنہ دیتے ہیں کہ گدھے نام کی مخلوق کہتی ہے کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ اپنی حقارت کو ایک جانب رکھ کے بتائیں کہ ان کے ساتھی الیکشن میں تمام سرمایہ کاری کیا خدمت خلق کے لئے کر رہے ہیں، اگر دیانتداری سے اس جذبہ خدمت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی جو سرمایہ کاری اپنی جیب سے کی جائے گی کم از کم اس کی واپسی کو تو جائز اور حلال ہی سمجھا جائے گا۔

اب اسی انتخابی مہم کو غریب یا مڈل کلاس کے مقام پر کھڑے ہو کر دیکھیں، یہ کون لوگ ہیں جو میدان میں لڑ رہے ہیں، کھلاڑی کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو بنیادی شرائط کیا ہیں جن پر پورا اترے بغیر وہ کھیل ہی نہیں سکتا، اصل شرط سرمایہ ہے اور طاقت ہے۔ یہ بنیادی نکتہ اتنا واضح ہے کہ اس پر بات کرنا یا اس کی جانب توجہ دلانا اپنا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ الیکشن کمیشن کیا، بچہ بچہ ان امیدواروں کے جانب سے دولت پھینکنے کے مناظر دیکھ رہا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی رقاصہ ناچ رہی ہو اور اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے شوقین حضرات زیادہ سے زیادہ پیسہ ہوا میں اچھال رہے ہوں، اس میں رقاصہ کی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ اناؤں کی جنگ کا فیصلہ بھی ہوتا ہے۔ اس طرح جیت جانے والے سے کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ وہ بازی جیت کر اس رقاصہ کے سر پہ چادر رکھ دے گا۔ اگر رکھے گا تو صوفی ہو گا اور کتنے صوفی ہیں جو رقاصہ کا رقص دیکھنے پیسہ لے کر جائیں اور جیت بھی جائیں۔

سیاست آخری نتیجے میں اقتدار کے لیے کی جاتی ہے اور اس کو تسلیم کرنے میں کچھ برائی نہیں، مگر ہمارے طریقہ انتخابات میں خرچہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اقتدار اس رقم کی واپسی پر استعمال اگر نہ ہو تو کوئی بھی کاروباری شخصیت اس کام پر چار حرف بھیج کر اپنے کام سے کام رکھے۔ اس کو سمجھنا کیا بہت مشکل ہے اگر نہیں تو اس پر قانون حرکت میں کیوں نہیں آتا، آپ اور میں اس پر اعتراض کیوں نہیں اٹھاتے۔ الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی ترمیم اور آسانی کے بعد بھی ایم این اے زیادہ سے زیادہ 40 اور ایم پی اے 20 لاکھ روپے اپنی انتخابی مہم پر خرچ سکتا ہے جبکہ یہاں کسی پردے کے بغیر اتنا خرچہ محض ایک جلسے کر مار ہے باقی کیمپین کیا خیراتی ادارے چلاتے ہیں، اور اب اس ایک قانون کی کسوٹی پر رکھ کر دیانتداری سے فیصلہ کریں کہ اس کسوٹی پر کتنے امیدوار پورا اتریں گے اور کتنے نا اہل ٹھہریں گے۔

کہاں گئی صداقت اور کدھر اڑی امانت، الیکشن کمشن کو گالی دینا بہت آسان کام ہے لہذا یہ ہی ہوتا ہے مگر اکیلا الیکشن کمیشن کیا کرے، ہم جانتے ہیں کہ چند ایشوز جن پر پوری قوم متفق ہے ان پر طاقتور سے طاقتور حکومت یا طبقات بھی عوامی ردعمل کے خوف سے کچھ تبدیلی نہیں لا سکتے، لیکن یہ کرپشن کی وہ تسلیم شدہ حقیقت ہے جس پر ساری قوم خاموش ہے اور کسی کو اعتراض نہیں۔ ہم اور کچھ نہیں کر سکتے تو اتنا تو کر لیں کہ موجودہ انتخابی پریکٹس کو ہی قانون بنا دیں تاکہ ہر چوک اور گلی محلوں میں سرعام اپنے قانون کی دھجیاں تو نہ اڑیں۔ ایک طرف صادق اور امین کی شرائط کے ساتھ آسمانی مسیحاؤں کی تلاش اور دوسری جانب یہ آسمانوں کو چھوتے اخراجات، اس کو ایک ساتھ رکھ کے دیکھیں اور اپنی خواھشات اور امیدوں کو داد دیں۔

اب ذرا نواز شریف کے سپورٹرز کے مقام پر کھڑے ہوں تو آپ جان جائیں گے کہ وہ عمران خان کو سیاسی مخالف سے زیادہ ایک سوتن سمجھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ شوہر کا دل جلد ہی اس نئی سوتن سے بھر جائے گا اور وہ گھر واپس آ جائے گا۔ یہ طعنے جو جمہوریت کے نام پر پرانے یاروں کو دیے جا رہے ہیں تب تک ہی ہیں جب تک شوہر واپس گھر نہیں آتا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ شوہر کے ساتھ وہی کچھ کریں گے جو ریحام خان یا تہمینہ درانی نے اپنے سابقہ شوہروں کے ساتھ کیا۔ وہ معاملات کو اس طرح سے نہ دیکھیں تو کریں بھی کیا کہ جس مقام پر وہ کھڑے ہیں وہاں سے ان کو یہ ہی نظر آتا ہے۔ ان کے سامنے وہی کھلاڑی ہیں جن سے وہ برسوں سے کھیلتے آئے ہیں لہذا بہت کچھ جانتے ہیں اور ان معلومات کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ تبدیلی کے نعرے کو سنجیدگی سے لیں۔

پنجاب کی حد تک انہیں منظور وٹو کی حکومت یاد ہے جب منظور وٹو محض 18 ایم پی اے کے ساتھ پیپلز پارٹی کی گردن پر سوار ہو کر وزارت اعلیٰ کے مزے لوٹتے رہے اور بے نظیربھٹو کی وفاقی حکومت تمام طاقت لگا کر بھی صرف اتنا ہی کر سکی کہ منظور وٹو سے جان چھڑا لے مگر آیا پھر بھی عارف نکئی۔ مخدوم فیصل حیات یا کوئی اور پیپلز پارٹی کا لیڈر پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل نہیں کر سکا۔ وہ جانتے ہیں ایسا کیوں نہیں ہو سکا اور بخوبی علم رکھتے ہیں کہ اب اسی مار پر چوہدری نثار ہیں، وہ اپنی چند جیپوں کے ساتھ پی ٹی آئی کی لہر پر سواری کرنے کے امیدوار ہیں۔

1993 کے انتخابات کو یاد کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان انتخابات کے دوارن ہی سب باخبر کھلاڑی جانتے تھے کہ نواز شریف کا حکومت بنانا ممکن نہیں تب انتخابی نتائج کیا تھے۔ یعنی لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، گجرانوالہ، راولپنڈی سمیت شہری علاقوں میں ووٹوں کی اکثریت نواز شریف کو ملی، ووٹوں کی کل تعداد میں نواز شریف کو پڑنے والا ووٹ زیادہ نکلا مگر دیہاتی ووٹ جو الیکٹیبلز کی جیب میں ہوتا ہے وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے، وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کو ملی۔

اس سے ملتے جلتے نتائج اب بھی متوقع ہیں، نواز شریف اپنے روایتی حلقوں سے جیتیں اور باقی ووٹ پی ٹی آئی کا بن جائے تو وفاقی حکومت بھی پی ٹی آئی کی بن جاتی ہے اور شہروں سےنواز شریف کی جیت سے دھاندلی کا شور بھی کم ہوتا یے۔ لیکن آج کی دنیا ظاہر ہے بہت مختلف ہے اور اگر انتخابی لہر نواز بیانیے کے حق میں آجاتی ہے تو یار پرانے دوبارہ مل بھی سکتے ہیں، چند سر ادھر گریں گے چند ادھر پھر سب ٹھیک۔

اب ایک ووٹر کے مقام پر کھڑے ہوں، اور اپنے حصے کی جہنم کا انتخاب کر لیں۔ موجودہ رائج انتخابی رویہ اور اس کے نتیجے میں جاری انتخابی انتظام اس کے علاوہ آپ کو یا مجھے اور دے بھی کیا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).