انتخابات 2018 : آخری لمحات میں ہونے والی دھاندلیاں


انتخابات میں ہونے والی انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہونے والی دھاندلیاں بے شمار قسم کی ہیں۔ ان میں سے کچھ قبل از انتخاب، بعض انتخابات کے دن اور چند بعد از انتخابات ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اور خصوصاً موجودہ دور میں جدید ٹیکنالوجی، میڈیا اور سوشل میڈیا کی ترقی نے بھی جہاں ایک طرف شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنانے اور عوام کی آگاہی دینے کا باعث بنا ہے، وہیں اس کے منفی اثرات، جیسے جھوٹی خبریں، کنفیوژن پھیلانے اور غیر جانبداری کی بجائے اپنے اپنے حامی امیدواروں اور من پسند پارٹیوں کے حق میں کمپین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان میں 1985ء کے بعد سے ہونے والے تمام انتخابات میں ایک مشاہدہ کار کے طور پر ماضی میں مشاہدہ کی جانے والی چند دھاندلیوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل پاکستان الیکشن کمیشن کی قوتِ استعداد بڑھانے اور انتخابات کو آزادانہ شفاف، اور غیر جانبدارانہ بنانے کی غرض سے اقوام متحدہ کے ادارے ”یو۔ این۔ ڈی۔ پی“ نے کئی ملین ڈالر کی امداد سے ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا۔ اس پراجیکٹ کا نام ”سپورٹ ٹو الیکشنز ان پاکستان“ (SNEP ) تھا۔

اس پراجیکٹ کے تحت پورے پاکستان میں الیکشن منعقد کروانے والے پریزائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفسران کی فنی تربیت تھا، علاوہ ازیں تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ، ریٹرننگ اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفسران کو ٹیریننگ بھی فراہم کی گئی تھی۔

2007ء میں شروع ہونے والے اس پراجیکٹ کا میں بھی حصہ تھا۔ میری ڈیوٹی بطور ”ڈویثزنل ٹریننگ کوارڈی نیٹر“ گوجرانوالہ ڈویژن کے چھ اضلاع، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد، منڈی بہاؤ الدین اور گجرات میں انتخابات میں اپنے فرائض ادا کرنے والے انتخابی عملے خصوصاً پریزائیڈنگ آفیسرز کی تربیت شامل تھی۔

میرے ساتھ اعانت کے لیے ہر ضلع میں ایک ڈسٹرکٹ کوارڈی نیٹر اور ایک ڈپٹی ڈسٹرکٹ کوارڈی نیٹر اور پانچ سے سات کے قریب ماسٹر ٹریینر مہیا کیے گئے تھے۔ جو زیادہ تر الیکشن کمیشن کے ریٹائرڈ آفسران وکلاء، ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹرز یا پھر این جی اوز کے تربیت یافتہ اشخاص شامل تھے۔ جن پریزائیڈنگ آفسران کو تربیت دی جا رہی تھی ان میں زیادہ تر مرد و خواتین کا تعلق محکمہ تعلیم سے تھا۔

ہم نے مقررہ وقت میں تمام پولنگ اسٹیشن میں اپنے فرائض انجام دینے والے انتخابی عملے کی تربیت کا ٹارگٹ مکمل کر لیا۔ اب ہمارے فرائض میں یہ چیز بھی شامل تھی کہ ہم الیکشن کمیشن کے مقامی اضلاع کے تعاون سے اس چیز پر نظر رکھیں بلکہ اس کو یقینی بنائیں کہ ریٹرننگ اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفسران صرف تربیتی عملے کو ہی پریزائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفسران مقرر کریں۔ غیر تربیت یافتہ عملے کو انتخابی ڈیوٹیاں نہ دی جائیں، ہمیں ایسے غیر تربیت یافتہ عملے کی لسٹیں بنا کر بھجینے کی ہدایات دی گئیں تھیں۔

2008ء کے انتخابات سے ایک روز قبل ضلع گجرات کے ایک اہم انتخابی حلقے سے یہ رپورٹ میرے ذاتی مشاہدے میں آئی کہ تقریباً چار سو سے زائد پولنگ اسٹیشن کے حلقے میں 85 سے زائد تربیت یافتہ پریزائیڈنگ آفسران جن ڈیوٹیاں متعلقہ حلقے میں لگائی گئی تھیں، الیکشن سے صرف ایک روز پہلے اچانک ان کی بیماری کی درخواستیں آ گیئں کہ وہ اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہیں۔ اس نئی افتاد سے نمٹنے کے لئے اب مجبوراً متعلقہ ریٹرننگ آفسر نے ان کی جگہ جس دوسرے عملے کی ڈیوٹیاں لگائیں وہ تربیت یافتہ نہیں تھا۔

بعدازاں الیکشن جب میں نے اپنی دلچسپی کے لیے معاملے کی گہرائی میں جا کر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ سب اتفاقیہ نہیں تھا بلکہ اس حلقے سے انتخاب لڑنے والی با اثر سیاسی جماعت کی شخصیت نے پوری منصوبہ بندی کے تحت ہی عین وقت پر اپنے حمایت یافتہ عملے کو بیمار کروا کر ان کی جگہ بھی ریٹرننگ آفسر کی اعانت کرنے والے ایک دوسرے من پسند اہلکار کے ذریعے اپنے منظورِ نظر پریزائیڈنگ آفسر تعینات کروائے تھے۔ بچارے ریٹرننگ آفسر کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوا ہو گا کہ اس کی ناک کے نیچے کتنی بڑی واردات ہو گئی ہے۔ اس سارے سلسلے میں دلچسپ بات یہ تھی کہ ان تبدیل کروائے جانے والے تمام پریزائیڈنگ آفیسروں کا تعلق دور دراز کے دیہی پولنگ اسٹیشنوں سا تھا۔ انفرادی طور پر ہر ضلع میں انتخابات لڑنے والی با اثر شخصیات اپنے بھرتی کروائے گئے حمایت یافتہ عملے کی مدد سے چھوٹی موٹی دھاندلیاں کرنے کے لیے وارداتیں ڈالتی رہتی ہیں۔

یو این ڈی پی کے اسی پراجیکٹ کے دوران مجھے اپنے ساتھ کام کرنے والے گوجرانوالہ کے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر نے بتایا تھا کہ اس نے 1970ء کے بعد سے ہونے والے تمام انتخابات میں پریزائیڈنگ آفسر کے طور اپنی ڈیوٹی دی ہے۔ کسی ایک انتخاب کو بھی ہم سو فیصد شفاف نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے 1990ء کی دہائی کے ایک انتخاب کا ایک واقعہ سنایا کہ بطور پریزائیڈنگ آفسر جب وہ تمام پارٹیوں کو اپنے پولنگ اسٹیشن کا رزلٹ دینے کے بعد اپنے سامان کی تھیلی اور رزلٹ دینے ضلع کچہری ریٹرننگ آفسر کے پاس جا رہے تھے۔ تو راستے میں انہیں چند نقاب پوش افراد نے اغواء کر لیا۔ جب انہوں سیل شدہ رزلٹ والا تھیلا مجھ سے چھننے کی کوشش کی اور میری طرف سے تھوڑی مزاحمت پر جب ایک شخص نے مجھے تھپڑ رسید کرنے کی کوشش کی تو انہی میں سے ایک دوسرا شخص بیچ میں آگیا اور کہنے لگا کہ میرے استاد جی کو مت مارنا۔ مجھے ان سے بات کرنے دو۔

اس نے مجھے بتایا کہ میں سکول میں آپ کا شاگرد رہا ہوں۔ اور اب میں فلاں سیاسی شخصیت کے ساتھ منسلک ہوں۔ ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ جو آپ کے پاس سرکاری رزلٹ ہے اس کو واضح مارجن کے ساتھ متعلقہ امیدوار کے حق میں بنانا ہے۔ اور اگر آپ تعاون نہیں کریں گے تو یہ آپ کے ہاتھ پاؤں توڑنے کے علاوہ جان سے بھی مار سکتے ہیں۔ اور اگر بچ بھی گئے تو انصاف کے لیے کہاں تک کورٹ کچہری کے دھکے کھاتے پھریں گے۔

ہیڈ ماسٹر صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے شاگرد کا مشورہ مان کر اپنے بال بچوں کی خاطر ضمیر کی قربانی دے کر اپنی جان بچائی۔ جیسا نتیجہ وہ چاہتے تھے ان کو بنا کر دے دیا اور تین گھنٹے لیٹ اپنا رزلٹ متعلقہ ریٹرننگ آفسر کو جمع کرا دیا۔ وہ امیدوار جیت بھی گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سسٹم اور انصاف کے ادارے کمزور ہیں۔ چھوٹے ملازمین خصوصاً محکمہ تعلیم کا عملہ اپنے اضلاع کی با اثر سیاسی شخصیات کے خلاف جانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2