زرداری کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے والوں کے اعترافات


جمہوریت دشمن قوتوں کی طرف سے قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد سارے کے سارے بے ضمیر، کیا سیاست کار، کیا قلم کار، کیا صنعت کار، کیا جبہ و دستار، سب وقت کے فرعون کے قدموں میں سرجھکائے حاضر تھے۔ لیکن اس دہشت کے عالم میں اپنے باپ کی سیاسی میراث سنبھالنے والی ایک نہتی لڑکی بینظیر بھٹو آئین شکنوں کے سامنے چٹان کی طرح جم کر کھڑی تھی۔ اپنی بینظیر بیٹی کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی دُکھوں ماری نصرت بھٹو کے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے ایک ایسا دانشمند اور بلند ہمت جیون ساتھی ڈھونڈے، جو آئین شکن ضیاءالحق اور اُس کے حواریوں کی کمینگی کا سامنا پورے عزم و حوصلے اور استقامت کے ساتھ کر سکے۔ اپنی بیٹی کے زندگی کے ساتھی کے لیے بیگم نصرت بھٹو کی نظرِ انتخاب حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری پر آ ٹھہری۔ نصرت بھٹو جو خوبیاں اپنے مستقبل کے داماد میں ڈھونڈ رہی تھیں، اُنھیں وہ سب خوبیاں آصف علی زرداری میں نظر آئیں تو بیگم نصرت بھٹو نے پوری طرح سوچ سمجھ کر حاکم علی زرداری کی بیوی ڈاکٹر زریں آراء کے ساتھ بیٹھ کر اُن کے بیٹے آصف علی زرداری کے ساتھ اپنی بڑی بیٹی کا رشتہ طے کر دیا۔

زرداری کو ان کے ولیمہ والے دن ککری گراؤنڈ لیاری میں اپنی دلہن کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صحافی نے پوچھا کہ جب محترمہ جیل جایا کریں گی تو آپ کیا کریں گے؟ آصف نے اپنی سدا بہار مسکراہٹ کے ساتھ پورے اعتماد سے جواب دیا کہ اب محترمہ کبھی جیل نہیں جائیں گی۔ آصف علی زرداری نے اپنے قول کی لاج رکھی۔ شادی کے بعد فقط وہی جیل گئے۔ حالانکہ اکثر مقدموں میں مقدمات بنانے والوں نے ملزمہ کے طور پر پہلا نام محترمہ بینظیر بھٹو کا ہی لکھا تھا۔ مخالفین دباؤ ڈال کر اور کردار کشی کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کا تسلسل ختم کرنا چاہتے تھے۔ پروپیگنڈسٹ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر کے بھٹو فیملی سے عوام کی محبت کو کم نہ کر سکے تو انھوں نے آصف علی زرداری کو ایک کمزور کڑی سمجھ کر اُنھیں جُھکانے اور توڑنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ مگر وہ آبرو مندانہ استقلال کے ساتھ سینہ تان کر پورے فخر کے ساتھ کھڑے رہے۔ آصف علی زرداری نے آئین شکنوں اور ان کے حواریوں کو قدم قدم پر مایوس کیا۔ زرداری نے ہر وار کو مردانہ وار سینے پر سہا ہے۔ انھوں نے عمر قید کے برابر عرصہ بغیر کسی جُرم کے صرف انتقامی سیاسی مقاصد کے طفیل کاٹا۔ اُن کی قید کے دوران کئی حکومتیں بدلیں، کئی وزرائے اعظم آئے اور گئے، کئی چیف جسٹس انصاف کی مسند پر پدھارے اور “عدل” بانٹتے ہوئے چلے گئے، لیکن زرداری جیل سے باہر نہ نکل سکے۔ اُنھوں نے تقریباً دو درجن عیدیں اپنے خاندان اور پیاروں سے دور جیل کی تنہائیوں کے ساتھ گذاریں۔ وہ اپنے بچوں کا بچپن نہ دیکھ سکے، قید کے دوران ان کی والدہ سمیت کئی قریبی رشتہ دار وفات پا گئے، لیکن حکومت اور عدلیہ نے انہیں ہر دفعہ پیرول پر عبوری رہائی کا حق تک دینے سے انکار کر دیا۔ اسیر زرداری پر دورانِ قید بد ترین غیر قانونی جسمانی تشدد بجائے خود ایک الگ داستان ہے کہ کیسے انھیں ذلت آمیز طریقے سے رات بھر سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ انہیں دہشت زدہ رکھنے کے لئے تشدد کے نت نئے طریقے آزمائے جاتے رہے، زبان اور گردن پر کٹ تک لگائے گئے۔ انھیں جیل میں ہی دل کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، مگر آصف علی زرداری فوجی اور سویلین، ہر قسم کی حکمرانوں کے تشدد کا بہادری سے سامنا کرتے رہے۔ اپنی ہر تکلیف صبر، خاموشی، شجاعت اور حُسن توازن پر مبنی عظمت کردار سے جھیلی اور کسی لمحے بھی خوف اور ناامیدی کو خود پر طاری نہیں ہونے دیا اور اس طرح اِس مردِ آہن نے مخالفین کو اُن کے مذموم ارادوں میں کبھی بھی کامیاب نہ ہونے دِیا۔

آصف علی زرداری کو معلوم تھا کہ انہیں بینظیر اور بھٹو کی وجہ سے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکمران انھیں جھکا کر محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ اپنی مرضی کی شرائط پر معاملات طے کرنا چاہتے تھے۔ زرداری ساری عمر دکھ جھیلتے رہے، زخم سہتے رہے، صبر کرتے رہے اور انھوں نے کبھی بھی شکوہ سنجی اور برہمی کا اظہار نہیں کیا۔ زرداری نے کمال بہادری کے ساتھ بینظیر کو سر بلند رکھا۔

اپنی عظیم بیوی کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری صبر اور خاموشی کے ساتھ تابوت اٹھا کر گڑھی خدا بخش لے گئے۔ جیلیں بھلا دیں۔ قتل فراموش کر دیئے۔ ہر ظلم اور زیادتی کو تقدیر کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیا۔

آصف علی زرداری نے محترمہ بینظیر بھٹو کے چہلم پر گڑھی خدا بخش کے شہیدوں کے مزاروں پر کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا۔ “لوگ سمجھتے ہیں محترمہ مجھے کرسی سے باندھ گئی ہیں جبکہ انھوں نے مجھے قبر سے باندھ دیا ہے۔ وہ نظام بدلنا چاہتی تھیں، اسی لیے انھیں قتل کر دیا گیا۔ میں بینظیر کا مشن جاری رکھوں گا۔ میں یہ عزم لے کر گڑھی خدا بخش سے نکل رہا ہوں کہ یا تو وہ ٹولہ ختم ہو جائے گا، جس نے بیظیر کو ختم کیا یا میں شہید ہو کر گڑھی خدا بخش میں دفن ہو جاؤں گا”۔

تاریخ گواہ ہے کہ آصف علی زرداری کو عدلیہ، میڈیا، ملٹری اور حزب اختلاف سے چومکھی لڑنا پڑی۔ یہ زرداری کا تحمل، صبر اور دُور اندیشی تھی جو جمہوریت بچاتی رہی۔ اُنھوں نے ہر اُوچھے وار کو بڑے تحمل سے برداشت کیا۔ زیادتیوں کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجو وطنِ عزیز کے کسی ادارے کے خلاف کبھی ہرزہ سرائی نہیں کی۔ اپنے سیاسی مخالفین کی بدترین بد تہذیبی کا جواب کبھی بدتہذیبی سے نہیں دیا۔

اگر 2008ء سے  لے کر آج تک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مردِ حُر ایک ایسا سبک دست جوگی ہے، جس نے ہماری اسٹیبلشمنٹ کے بڑے بڑے اور زہریلے اژدہوں کے زہر کو بتدریج کم کیا ہے۔ اگر وطنِ عزیز میں یہ عمل جاری رہے تو انشاءاللہ بہت جلد یہ بے ضرر کیچوؤں میں تبدیل ہو جائیں گے اور پاکستان کی صورت حال ہرگز وہ نہیں رہے گی، جو اِس وقت ہے۔

اندھی نفرت برطرف، آج آصف علی زرداری کی حکمت عملی سے ہی جمہوریت ارتقائی طریقے سے مستحکم ہو رہی ہے اور آصف علی زرداری بلاشبہ فیڈریشن کی مضبوطی کی علامت بن چکے ہیں۔

مندرجہ بالا ناقابلِ تردید حقائق کے باوجود آصف علی زرداری کے خلاف جمہوریت دُشمن قوتوں کے پروپیگنڈے کا زور نہیں ٹوٹا۔ تمام جُھوٹے مقدمات سے باعزت بری ہونے کے باوجود آج بھی سیاسی شعور و تاریخ سے نابلد اور پروپیگنڈے سے برین واشڈ پاکستانی آصف علی زرداری کو کرپٹ ترین شخص سمجھتے ہیں۔ اِس صورت حال کے پیشِ نظر آج ہم آپ کو اُن سب لوگوں کے نقطہ ہائے نظر سے آگاہ کرتے ہیں، جنھوں نے آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات بنائے تھے۔ آیئے، پاکستانی قوم کی ذہن سازی کرنے والے مندرجہ ذیل بڑے بڑے بُرجوں کے اصل چہرے دیکھیئے:

1. غلام اسحٰق خان

سب سے پہلے ہم سابق صدرِ پاکستان غلام اسحٰق خان کا ذکر کریں گے۔ جنھوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کی 1990ء میں برطرفی کے بعد آصف علی زرداری پر کرپشن کے لاتعداد الزامات لگا کر اُنھیں جیل میں بند کر دیا۔ آصف علی زرداری جیل سے ہی رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے مگر اِس عرصہ میں وہ جیل میں ہی پابند سلاسل رہے۔ تین سال بعد 1993ء میں کوئی ایک بھی الزام ثابت کیے بغیر غلام اسحٰق خان نے اپنا تُھوکا سرِعِام چاٹ کر آصف علی زرداری کو رہا کر کے نگران وزیرِ اعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں وزیر بنا کر حلف لے لیا۔ اِس طرح انھوں نے بلاواسطہ طور پر پوری قوم کے سامنے اِقرار کیا کہ آصف علی زرداری کے خلاف اُس کی طرف سے سب کیسز جُھوٹے بنائے گئے تھے۔

2. برگیڈیئر امیتاز

برگیڈیئر (ر) امتیاز المعروف “بریگیڈیئر بلا” اپنی پوری ملازمت کے دوران جمہوریت دُشمن قوتوں کے آلہ کار رہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ان کی حکومت کے خلاف فوج کے خفیہ ادارے کے کچھ افسران کی جانب سے کیے جانے والے مڈنائٹ جیکال آپریشن میں وہ آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ کے ڈائریکٹر کے طور پر مرکزی کردار تھے۔ جمہوری حکومت کے خلاف اس سازش کی ناکامی پر محترمہ بینظیر بھٹو کے دباؤ پر آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے لیت و لعل کے بعد برگیڈیئر اِمتیاز کو فوج کی ملازمت سے برخاست کر دیا۔ فوج کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد اُس وقت کے وزیرِ اعلٰی پنجاب نواز شریف نے برگیڈیئر (ر) اِمتیاز کو پنجاب حکومت کا مشیر مقرر کر دیا، جہاں اُنھوں نے پنجاب حکومت کی وفاقی حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف بھرپور منفی پروپیگنڈہ کیا۔

1990ء میں نواز شریف نے وفاقی حکومت میں آتے ہی برگیڈیئر (ر) امتیاز کو اٹیلیجنس بیورو کا سربراہ مقرر کر دیا۔ اس تعیناتی کا واحد مقصد محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی کردار کشی کرنا تھا، جس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ نواز شریف اِن کی کارکردگی سے اتنے مطمئن تھے کہ اپنے دوسرے دورِ حکومت (1997ء) میں بھی انھیں ایف آئی اے کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا مگر بعض وجوہات کی وجہ سے یہ تعیناتی نہ ہو سکی۔

6 ستمبر 2009ء بریگیڈیئر (ر) اِمتیاز نے اعتراف کیا کہ آپریشن مڈنائٹ جیکال کے ذریعے بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے کا اقدام غلط تھا، نجی ٹی وی کو انٹرویو میں بریگیڈیئر (ر) امتیاز نے پہلی بار انکشاف کیا کہ مہران بنک اسکینڈل میں نہ صرف اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ بلکہ صدر غلام اسحاق خان بذاتِ خود شامل تھے اور انہوں نے صدارتی الیکشن جیتنے کے لیے کالا دھن استعمال کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سو پچاس ملین روپے جو مہران بنک سے آئے، وہ جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر آرمی کے اکاوٴنٹ میں جمع کرائے گئے اور اسی میں سے ساٹھ ملین روپے ایوان صدر میں قائم الیکشن سیل کو دیے گئے۔ یہ سیل جلال حیدر زیدی اور روئیداد خان چلا رہے تھے۔ اسی ملین روپے آئی ایس آئی کو ٹرانسفر کیے گئے، جو 1990ء کے الیکشن سے پہلے اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین میں تقسیم کیے۔

جب آصف علی زرداری جیل میں قید تھے اور عدالتوں میں جُھوٹے مقدمات کے سلسلے میں پیشیاں بھگت رہے تھے تو حکومت کی طرف سے بریگیڈیئر (ر) اِمتیاز بھی عدالتوں میں آتے تھے، جہاں انھوں نے آصف علی زرداری سے معافی مانگتے ہوئے تسلیم کیا کہ “ہم نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر آپ دونوں میاں بیوی کا امیج بہت خراب کیا”۔

3. جنرل (ر) احمد شجاع پاشا

میمو گیٹ شاہکار ڈرامے کے معماروں نے اپنی پہاڑ ایسی ناکامی چُھپانے کے لیے اپنے جمُوروں، میڈیا اور عدلیہ کے ذریعے گرد و غبار اور پراپیگنڈے کا ایسا طوفان بپا کیا کہ حقیقت خرافات میں کھو گئی۔ اُس وقت عمران خان کے بعد سب سے اہم کردار میاں نواز شریف نے ادا کیا تھا، جب اُنھوں نے جاتی عمرہ میں ایک سینئر فوجی اہلکار سے ملاقات کرنے کے بعد بڑی دھوم دھام سے دیدہ و دل فرش راہ کی مکمل تصویر “آزاد عدلیہ” میں میمو پر پٹیشن دائر کی۔ میمو گیٹ میں سب کرداروں نے مِل کر اِس ابرِ غلیظ میں آصف علی زرداری کے خلاف ہر ترکیب، حربہ اور گٹھ بندھن آزمایا، حتٰکہ دسمبر 2011ء میں میمو گیٹ کے گرد و غبار کے دوران صورت حال یہ تھی کہ آصف علی زرداری کو ایوانِ صدر کے پچھلے حِصّے میں اپنے سونے کے کمرے میں بندوق لے کر ساری ساری رات بیٹھنا پڑتا تھا۔ زرداری نے “اصل حکمرانوں” کو پوری طرح باور کرا دِیا تھا کہ وہ سرنڈر نہیں کریں گے، استعفٰی نہیں دیں گے، گرفتاری نہیں دیں گے، صرف لڑیں گے، گولی کا جواب گولی سے دیں گے اور اگر اُنھیں ہٹانا ہے تو آئینی طریقے سے ہٹایا جائے۔ ایک دن تو آصف علی زرداری نے اپنے لوگوں سے یہ بھی کہا تھا کہ ہو سکتا ہے حملہ آور مجھے گولی مار کر کہیں کہ میں نے خود کشی کر لی ہے لیکن گواہ رہنا، میں لڑتے ہوئے مروں گا، خود کشی نہیں کروں گا۔

اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) احمد شجاع پاشا (میمو گیٹ فیم + بابائے تحریک اِنصاف) میمو گیٹ کے اہم کردار تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل پاشا نے آصف علی زرداری سے التجا کی کہ “مجھے معاف کر دیں، غلطی ہو گئی، میں نے جو کچھ کیا، اپنے باس (آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی) کے کہنے پر کیا”۔

مزید برآں، جنرل (ر) احمد شجاع پاشا صحافی جاوید چوہدری کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں “میں نے ایک دن جنرل کیانی سے کہا، سر ہمیں بہرحال یہ ماننا پڑے گا، ہم نے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو کام نہیں کرنے دیا”۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2