متنازع انتخاب کے دہانے پر


ایک روز بعد ملک میں عام انتخابات منعقد ہورہے ہیں ۔  کوئی بھی جمہوری معاشرہ انتخابات کے ذریعے  آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کرتا ہے۔  اس لئے انتخابات  سے عوام کی رائے جاننے ، نئے راستے کھوجنے، متنوع اور تازہ دم قیادت کو سامنے لانے اور نئے  تصورات کے ساتھ ملک و قوم کو درپیش مسائل حل کرنے کی راہ ہموار  ہوتی ہے۔ جمہوریت عوامی حاکمیت کا نام ہے۔ پاکستان کا آئین  عوام کے ووٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والے نمائیندوں کے ذریعے  حکومت سازی اور معاملات طے کرنے کے اصول کو تسلیم کرتا ہے۔    بظاہر اسی اصول کو مانتے ہوئے   ایک بار پھر عوام سے رائے لینے کا عظیم کام کیا جائے گا۔  تاہم سامنے آنے والی معلومات، ظاہر کئے گئے شبہات، اداروں کے طرز عمل اور عوام میں پائی جانے والی مایوسی اور بے چینی کی وجہ سے 25 جولائی کو  منعقد ہونے والے انتخابات  اور ان سے برآمد ہونے والے نتائج  پر شبہات کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

 انتخابی مہم کے دوران دہشت گرد حملوں میں دو سو کے لگ بھگ شہری  جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں  صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب لڑنے والے تین  امید وار بھی شامل ہیں۔ ان سب کا تعلق تین مختلف پارٹیوں سے تھا اس لئے یہ کہنا غلط ہو گا کہ دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر نے کسی خاص پارٹی کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان حملوں سے یہی دکھائی دیتا ہے کہ ان کا مقصد کسی پارٹی کی بجائے جمہوری عمل کو درہم برہم کرنا اور ملک کو انتشار اور غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا کرنا  ہے۔ یوں تو سابقہ انتخابات  میں  تحریک طالبان  پاکستان نے  جس طرح  خاص پارٹیوں  کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا، وہ بھی جمہوری نظام کو ناکام بنانے ہی کی سازش تھی لیکن اس بار انتہا پسند گروہوں نے اس کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے براہ راست جمہوری عمل کو نشانہ بنایا ہے۔ بد قسمتی سے  نگران حکومت یا سیکورٹی ایجنسیاں اس چیلنج کا مناسب تدارک کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔  انتخابی جلسے، امید وار اور ان میں شرکت کرنے والے  عام لوگ دہشت گردوں کے رحم و کرم پر رہے ہیں۔ یہ خطرہ انتخاب کے دن پولنگ مکمل ہونے تک جاری رہے گا۔  کوئی  بھی غیر متوقع سانحہ انتخاب اور اس کے نتائج کے بارے میں نئے شبہات اور وسوسوں کو جنم دینے کا سبب بنے گا جو پہلے سے پائی جانے والی بے یقینی میں اضافہ اور تصادم اور الزام تراشی کے ماحول کو سنگین کرسکتا ہے۔

 اس حوالے سے نگران حکومتوں  نے جس طرح  ملک کے بعض انتہا پسند لیڈروں اور گروہوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے انہیں یک بیک فورتھ شیڈول سے نکال کر انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی اور جس طرح ملک کی پر و ایکٹو عدالتوں نے اپنی چوکسی کے باوجود ، ان خطرناک فیصلوں کو نظر انداز کیا ہے، وہ نہ انتخابات کی صحت کے لئے اچھی علامت ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر ملک کی شہرت کے لئے خیر کی خبر ہے۔ نگران وزیر خزانہ  ڈاکٹر شمشاد اختر نے گزشتہ ماہ کے آخر میں پیرس میں منعقد ہونے والے  فنانشل ٹاسک فورس  (ایف اے  ٹی  ایف) کے اجلاس میں پاکستان کو ٹیرر فنانسنگ کے مشتبہ ملکوں کی فہرست (گرے لسٹ) میں نہ ڈالنے کے لئے مضبوط مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے پاکستانی حکومت کے ایسے اقدامات کے بارے میں بتایا تھا جو دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کی روک تھام اور ان کو ملنے والے فنڈز کی نگرانی کے لئے  کئے گئے تھے۔  اس کے باوجود ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا۔ نئی منتخب حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ پاکستان کو اس فہرست سے ہٹایا جاسکے۔  اگر حکومت دہشت گردوں کی مالی معاونت کی نگرانی کرنے والے اس ادارے کی تشفی کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ اس افسوسناک فیصلہ کا پاکستان کی معیشت اور سفارتی پوزیشن پر  خطرناک اثر مرتب ہو گا۔

عالمی سطح پر پاکستان کو درپیش اس مشکل صورت حال کے تناظر میں بعض انتہا پسند اور  فرقہ وارانہ خوں ریزی میں ملوث گروہوں اور ان کے لیڈروں کو انتخاب میں شرکت کا حق دینے  کا فیصلہ قومی مفادات کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ اگر ان میں سے بعض لوگ منتخب ہو کر قومی اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو  دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے مؤقف کو شدید جھٹکا لگے گا اور عالمی میڈیا کے علاوہ حکومتیں بھی پاکستانی نمائیندوں سے سوال کریں گی کہ وہ  کس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  اپنی خلوص نیتی کو ثابت کرسکتے ہیں۔ اس صورت حال کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے مختلف حلقوں میں  انتخابی ضرورتوں کے تحت  مختلف انتہاپسند گروہوں سے تعاون اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ  کی کوشش بھی کی ہے۔ اس طرح قومی مفادات کی بجائے حلقہ جاتی کامیابی کو اہمیت دے کر پاکستان کے اصولی مؤقف  کو کمزور اور قومی ضرورت کو نظر انداز کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔

اس انتخاب کا یہ تاریک پہلو بھی قابل غور ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں کے علاوہ جولائی ہی کے مہینے میں عدالتوں کے فیصلوں کی بدولت قومی اسمبلی کے  تین امید واروں کو نااہل قرار دیا گیا ہے ۔ اس طرح  یہ تاثرقوی ہؤا ہے کہ ایک خاص جماعت کی کامیابی کے امکانات محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔  گزشتہ روز پراسرار عدالتی کارروائی کے بعد حنیف عباسی کو دی جانے والی سزا  سے یہ  شبہ زیادہ شدید ہو گیاہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے اس سزا کے بعد سامنے آنے والی نکتہ چینی  کے  باعث  این اے 60 میں انتخاب ملتوی کردیا  ہے  لیکن اس فیصلہ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل پر فیصلہ محفوظ کیا گیا ہے۔ اگر ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو تبدیل کرتی ہے تو یہ شبہ یقین میں بدل جائے گا کہ  انتخابات کے نتائج میں بعض در پردہ قوتیں مطلوبہ نتائج کی خواہش  رکھتی ہیں اور اس مقصد کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

ان تین نااہلیوں کے علاوہ فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے  ایک امید وار کی خود کشی کا واقعہ بھی بدھ کو ہونے والے انتخابات کا ایک افسوسناک پہلو سامنے لاتا ہے۔ اس شخص نے اپنے انتہائی اقدام کی وجہ اپنے بیٹوں کی سیاسی مخالفت کو قرار دیا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انتخابی عمل جو اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر فیصلوں کا طریقہ ہونا چاہئے تھا ، اسے کس طرح ذاتی دشمنی اور تصادم   کا شاخسانہ بنا لیا گیا ہے۔ یہ خود کشی ملک میں افراد اور گروہوں کے درمیان سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر موجود وسیع تر تصادم کی بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔ سیاسی لیڈر ذاتی حملوں میں مصروف رہے ہیں اور ان کے ماننے والوں نے  اس قسم کے مؤقف کی وجہ سے دشمنی دوستی کے رشتے استوار کرلئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا  اور تحریری تبصروں میں  مخالفین کے خلاف نفرت اور عناد کی کیفیت کو بدرجہ اتم محسوس کیا جاسکتا ہے۔  جمہوریت لوگوں کو تقسیم کرنے اور لڑوانے کا طریقہ نہیں ہے۔ اس کے ذریعے مختلف  سیاسی پروگرام کے لئے لوگوں کی حمایت طلب کی جاتی ہے اور انتخاب کے بعد کامیاب ہونے والی پارٹیاں مل جل کر اپنے اپنے منشور کے مطابق فیصلے کروانے کی پارلیمانی جد و جہد میں حصہ لیتی ہیں۔ لیکن مخالفین کو نازیبا الفاظ اور بے بنیاد الزامات سے نواز نےاورا لزام کو ثابت شدہ حقیقت کے طور پر پیش کرکے مخالفین کی کردار کشی کا طریقہ اپنانے سے جمہوری عمل کی ساکھ اور وقار متاثر ہو نا لازمی ہے۔  پاکستان کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران یہ صورت حال سنگین  ہو چکی ہے۔ انتخاب کے  بعد سب سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو اس رویہ کو بدلنے اور سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے اور سیاسی اختلاف کے باوجود احترام  کا تعلق و رشتہ استور رکھنے کے لئے کام کرنا  ہو گا۔

انتخابی عمل کے حوالے سے نگران حکومتوں  اور  الیکشن کمیشن کی  جانبداری پر سینیٹ میں اٹھائے گئے سوالات نے بھی فضا کو مکدر کیا ہے۔  لیکن اس کے علاوہ اسٹبلشمنٹ کے کردار اور عدالتوں  کے فیصلوں سے جانبداری کے تاثر نے بھی انتخابی نتائج  کو پہلے سے ہی مشکوک کردیا ہے۔    عام طور سے تسلیم کیا جارہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ انتخابات سے من مانے نتائج نکالنے کی خواہشمند ہے اور عدالتوں نے بھی مقدور بھر اس کام میں اس کا ہاتھ بٹایا ہے۔ گزشتہ دنوں  اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات سے شبہات کی دھند مزید گہری ہوئی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اگر ان الزامات کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ اختیاراتی خود مختار عدالتی کمیشن نہ بنایا اور تمام حقائق کو سامنے لانے کی کوشش نہ کی  گئی تو عدلیہ کی خود مختاری  کو ناقابل  تلافی نقصان پہنچے گا۔

تصویر کے ان افسوسناک پہلوؤں کے علاوہ  یہ بات خوش آئیند ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے دہشت گرد حملوں،  الزامات کی مہم جوئی،  اسٹبلشمنٹ اور عدالتوں سے شکایات کے باوجود سیاسی عمل سے علیحدہ ہونے کا انتہائی اقدام نہیں کیا۔ سیاسی قوتوں کی یہ بالغ النظری اس یقین کی آئینہ دار ہے کہ  جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے سیاسی عمل کا جاری رہنا ضروری ہے۔ تاہم اس میں اصلاح کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ اس سیاسی تندہی اور استقامت سے مستقبل میں جمہوری عمل کے بہتر  اور شفاف  ہونے کی امید وابستہ کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے  جیل کی سزا کے باوجود لندن سے وطن واپس آکر اور جیل کی کوٹھری کو قبول کرکے  ملک کے نظام اور قانون پر یقین کا اظہار کیا ہے۔ یہ رویہ  بھی ملک میں  جمہوری  عمل کے اصول کے لئے قابل قدر ہے۔ جمہوریت قانونی نظام پر ہی استوار ہو سکتی ہے۔  گو کہ  اس راستہ میں ان دونوں کو مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا ہے لیکن انہوں نے جمہوریت کی جد و جہد میں ذاتی سہولت سے گریز کرکے ایک  روشن مثال قائم کی ہے۔  سیاسی اختلاف سے قطع نظر  نواز شریف کے اس اقدام کی توصیف ہونی چاہئے۔ الزامات اور عدالتی فیصلوں کی صحت کے بارے میں فیصلے عدالتوں اور سیاسی لیڈروں  کے مؤقف کے بارے میں فیصلہ پولنگ میں ہی ہو سکتا ہے۔  عدالتوں اور قانون سے فرار حاصل کرنے والے لیڈر قابل اعتبار نہیں ہو سکتے۔

ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے کم عمری اور ناتجربہ کاری کے باوجود شفاف اور الزامات سے پاک انتخابی مہم چلا کر ایک روشن  مثال قائم کی ہے جو بلاشبہ  ملک میں جمہوریت کے مستقبل  کے لئے اہم ہے۔ اسی طرح مریم نواز نے اپنے والد کے ساتھ  گرفتاری دے کر ’ووٹ کو عزت  دو‘ کے سلوگن کو نئے معنی عطا کئے ہیں۔ ملک کے  ان دونوں نوجوان لیڈروں سے  عوام  خوشگوار توقعات وابستہ کرسکتے ہیں۔   بلاول بھٹو زرداری نے   سیاسی منشور کی بنیاد پر ووٹ مانگنے اور الزام تراشی سے گریز کرنے کے علاوہ  انتخابات کے بعد سیاسی مفاہمت و مصالحت کی بات  کی ہے۔   یہ رویہ ملک کے موجودہ  کشیدہ سیاسی ماحول میں امید کی کرن کی حیثیت رکھتی ہے۔  انتخابات شبہ، ضد اور بےیقنی کے ماحول میں منعقد ہورہے ہیں۔ لیکن  عوام  گالی اور الزام کی بجائے اپنی صوابدید کے مطابق   سیاسی پروگرام کے لئے ووٹ دے کر اس ماحول کو  تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہ انتخاب ان طاقتوں کے لئے بھی پیغام بن سکتا ہے جو انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے دیرینہ کھیل میں  مصروف رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali