پاکستان بچانا ہے تو خلائی مخلوق کو ہرانا ہے!


سنہ 2005 میں، میں محترمی شاہد پرویز گیلانی، جو تب جماعت اسلامی میں تھےکی میزبانی میں، اسلام آباد کے اک مشہور ریسٹورنٹ، پاپا سالِس میں جناب لیاقت بلوچ صاحب سے ملا۔ گپ شپ کے دوران بات جماعت کی پرویز مشرف صاحب کے لیے حمایت، اور پھر اک شارٹ کٹ کے ذریعے سے فوجی آمروں کی حمایت کرتے ہوئے، دیوبندی۔ اسلام کے نفاذ کی کوششوں کی طرف جا نکلی اور محفل کا مزاج تھوڑا بگڑ گیا۔ تلخی نہ ہوئی، مگر تناؤ کی سی کیفیت آ گئی۔ خادم تب 32 سال کی بالی عمر میں تھا تو اک لہر میں آتے ہوئے کہا کہ ”جناب بلوچ صاحب، میرا اک ووٹ ہے، میں ووٹر ہوں اور آپ کو میری رائے کو وزن دینا ہو گا، وگرنہ میرا ووٹ، جو آپ کا ہو سکتا ہے، نہیں ہو گا۔ “ بلوچ صاحب، جو تب بھی زندگی کے سینکڑوں گرم سرد دیکھ چکے تھے، مسکرائے اور میری طرف دیکھ کر بولے ”جناب، آپ اپنا ووٹ اپنے پاس رکھیں، ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ “

اس بات نے ماحول کے تناؤ کو کچھ کم کیا، مگر میں بہت دیر بعد میں بھی اس بات کی حقیقت پر سوچتا رہا۔

لامتناہی کہکشاؤں کی اس کائنات میں زمین دیکھنے پر کہیں نظر بھی نہیں آتی، اور اس زمین پر ساڑھے سات ارب کی آبادی میں سے ہر فرد، بشمول میرے، اپنے بارہ مربع فیٹ کے پرسنل۔ سپیس میں خود کو اس کائنات کا اہم ترین شخص سجمھے پھر رہا ہوتا ہے۔ جبکہ ہم سپرم اور ایگ کے اک کیمیائی حادثے سے اک سفر کا آغاز کرتے ہیں، اور چند دہائیاں گزار کر مٹی میں جا ملتے ہیں۔ آنکھیں بند ہو جانے کے بعد ہم کہاں جاتے ہیں، کسی سائنسدان کے پاس جواب نہیں۔ اور میرا ماننا ہے کہ آنکھیں بند ہوتے ہی، ہمارا خود ساخت کردہ اپنی اہمیت کا باب بھی بند ہو جاتا ہے۔ ہم چند دن اِدھر اُدھر گفتگو کا موضوع رہتے ہیں، اور پھر کائنات کے اس چھوٹے سے گولے پر زندگی اپنے سفر پر آگے بڑھ جاتی ہے۔

پاکستان نامی کائنات میں اک خلائی مخلوق نے ستر سال راج کیا ہے، ابھی بھی کر رہی ہے، اور اوپر لکھے گئے پیراگراف کی اصل معنویت کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہے۔ زندگی کے پیشہ وارانہ تجربات اور ڈیڑھ دو کتب کے مطالعہ اور مشاہدات نے یہ سمجھایا ہے کہ پاکستان کی کائنات میں تین محکمے اور تین طبقات امر ہیں، اور اپنی آنکھیں کھلی رکھنے پر بہت شدت سے اصرار کیے ہوتے ہیں تاکہ ان کی اہمیت بھی قائم رہے۔ ان محکموں میں خلائی مخلوق، چیف انجنئیر ڈیمز اور بابو لوگ شامل ہیں، جب کہ طبقات میں ان تین محکموں کے کاسہ لیس سیاستدان، صحافیوں کی خوفناک اکثریت اور کاروباری حضرات شامل ہیں۔ ان تین محکمہ جات میں کام کرنے والے اور تین طبقات میں شامل خواتین و حضرات اپنی کہانی بنائے رکھنے کے لیے اک دوسرے کی آنکھیں بند نہیں ہونے دیتے، اور پاکستانی تاریخ کے ہر دور میں انہوں نے اک دوسرے کو لانگ ٹرم تزویراتی سہارے بھی فراہم کیے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

تین اور تین، یعنی چھ کے اس گٹھ جوڑ میں، مجھ اور آپ جیسے عام انسان، جو پاکستان کے عوام نہیں، شہری بن کر جینا چاہتے ہیں، مسلسل نقصان میں رہتے ہیں۔ خلائی مخلوق والے آسٹریلیا، دبئی وغیرہ جا بستے ہیں، چیف انجنیر ڈیمز والوں کے بچے مونٹی کارلو جا کر مستیاں کرتے ہیں اور بابو لوگ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں، بیسویں صدی میں ہی متروک ہو جانے والی شارٹ ویو ریڈیو ٹیکنالوجی اک عرب ملک میں پاکستانی خرچے پر انسٹال کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد انفرمیشن کے عمومی غلط استعمال کی تراکیب، طاقت کے مراکز کو سمجھاتے ہیں۔

سیاستدان، وردی میں دس بار منتخب کروانے کی بات کرتے ہیں، صحافی گلشنِ جناح میں لمبا عرصہ قیام کرتے ہیں اور پھر گیلانی دور میں سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ لے کر جاتے ہیں کہ وہ چونکہ سینئر صحافی ہیں، اس لیے انہیں جی تھرٹین اور جی فورٹین میں بڑے سائز کے پلاٹس دیے جائیں۔ کاروباری اک جماعت اسلامی کے اک پرانے کارکن کے لاہوری میڈیا چینل پر بیٹھ کر بخاری خاتون اور لقمان صاحب کا خوشامدی تماشہ دیکھتے ہوئے مسکراتے چلے جاتے ہیں۔

یہ چوہا دوڑ میری پیدائش سے پہلے کی جاری ہے۔ ابھی بھی ہے، اور مجھے دلی خوف ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی میرے وطن میں جاری رہے گی۔

میرے آدرش اور خواب، جو جمہوریت کی بیناد پر کھڑے اک شاندار معاشی پاکستان سے وابستہ تھے، قریبا مر چکے ہیں اور میری طاقت کا اک بڑا حصہ روزانہ خود کو ردعمل کے دائروں سے باہر رکھنے میں صرف ہوتا ہے۔ میں خود کو اس پاکستان سے بہتر پاکستان میں دیکھنا چاہتا تھا کہ جو میرے والد صاحب، جناب محمد اکرم بٹ صاحب کو ملا، اور کچھ ایسی ہی خواہش اپنی مستقبل کی نسلوں کے بارے میں بھی تھی۔ میرے آدرش، خواب اور حب الوطنی کی رومانویت پر اتنی چوٹیں اور زخم لگ چکے ہیں کہ یا تو ان کے اب بھرنے کی امید نہیں، یا وہ بھرتے ہوئے اک بہت لمبا عرصہ لیں گے۔

ووٹ، سیاست، معاشرت اور عوام (شہری نہیں) کی بےتوقیری ہے، جو دل توڑے دیتی ہے، اور پاکستان کی ناخدا خلائی مخلوق ہے جو کہ اک ”جیپِ بےمہار“ کے مانند مسلسل ٹکریں مارنے پر آمادہ ہے۔ ان ٹکروں میں اگر کوئی مثبت بات ہوتی، تو صاحبو، آج بنگلہ دیش کے تقریبا تمام سیاسی و معاشی اشارے، میرے زخم زخم دیس، پاکستان سے بہتر نہ ہوتے۔ ہم کہ جو اس خطے کی تقدیر کے وارث ہو سکتے تھے، لاشیں اٹھا رہے ہیں، اور ہمارے سابقہ مشرقی پاکستانی بھائی بہن ہمارے حالات دیکھ کر شاید دانت نکوستے ہوں گے۔

خلائی مخلوق، چیف انجنئیر ڈیمز اور بابو لوگوں نے میرے دیس کی تاریخ میں پُتلیاں کھڑی کیں۔ کچھ پُتلیاں ارتقاء کر کے انسان بن گئیں تو ان تین محکموں کے جادوگروں کو یہ ناگوار گزرا تو انہیں بارہ مربع فیٹ کی جگہ سے محروم کر دیا گیا اور اس قبر میں سیاستدانوں، صحافیوں اور کارباریوں نے اپنے اپنے حصے کی اینٹیں لگائیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس چوہا دوڑ کے دائرے کی جمع تفریق کیا پاکستان کے حق میں بہتر نکلی؟

اگر ستر برس میں یہ بہتر نہیں نکلی، تو کیا آئندہ کے ستر برس میں یہی فارمولا کوئی نیا آب حیات تخلیق کر پائے گا؟ آئن سٹائن کا اک قول یہ ہے کہ احمقانہ پن یہ ہوتا ہے کہ کسی تجربہ کے اجزاء اور ترکیب ہر مرتبہ وہی ہو، مگر سائنسدان ہر مرتبہ مختلف نتیجہ کی توقع رکھے۔ اللہ میرے ملک کی حفاظت کرے کہ اس مرتبہ کی انقلابی پُتلی کے تو شوق بھی نرالے ہیں، اور تصاویر کے علاوہ، ہِل جُل کرتے ہوئے مناظر بھی ہیں۔ ان کو لانے والے ان کے دیوانے گویا قریب المرگ آدرش اور خواب تو کنویں کی قبر میں دھکیلنے پر مُصر ہیں۔

پاکستان کے ووٹرو: اس ملک، تمھارا اور تمھاری نسلوں کا مستقبل تمھاری پرچی سے وابستہ ہے۔ 25 جولائی کو نکلو۔ دھوپ، بارش، حبس کو سہو۔ الیکشن کے دن کی دھاندلی متوقع ہے، مگر تم اپنا کردار خدارا ادا کرو۔ خدا کے بعد، تم سے ہی امید ہے۔ پُتلی کو اس کے پُتلے ووٹ دیں، ان کا حق ہے۔ تم اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دو جو بہت گرم سرد سہہ چکی ہیں۔ یہ نقل سے شروع ہو کر اصل بن جانے والی سیاسی جماعتوں کے پھل دینے کا وقت ہے۔ ان درختوں کو اپنے ووٹوں کا پانی اور کھاد دو۔

انتخاب بہت سادہ ہے یارو کہ بابا جناح کے پاکستان کو اگر بچانا ہے، تو خلائی مخلوق کو ہرانا ہے۔ اگر نہیں، تو چوہا دوڑ کے دائرے میں، ہم سب چوہے ہی رہ جائیں گے۔

پاکستان زندہ باد
جمہوریت زندہ باد
پاکستانی ووٹر زندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).