لینڈ مافیا سے تعلق رکھنے والے امیدوار نئی قومی قیادت ہیں


اگرچہ 1970 کے انتخابات کو کئی دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن قیام پاکستان کے بعد منعقد ہونے والے پہلے براہ راست انتخابات میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے شہری علاقوں سے درمیانے طبقے کی بھرپور نمائندگی تھی۔
پیپلز پارٹی کے لاہور راولپنڈی جہلم فیصل آباد ملتان کراچی وغیرہ سے امیدواروں میں ڈاکٹر مبشر حسن شیخ محمد رشید حنیف رامے ملک معراج خالد لاہور سے اور فیصل آباد سے مزدور راہنما مختار رانا میاں عطا اللّٰہ راولپنڈی سے خورشید حسن میر ملک جعفر ایڈوکیٹ جہلم سے ڈاکٹر غلام حسین کراچی سے کمال اظفر حفیظ پیر زادہ اور نور العارفین نے پارٹی ٹکٹ پر بطور امیدوار حصہ لیا۔
دوسری طرف دائیں بازو کی مذہبی اور دیگر جماعتوں کے امیدواران میں جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد پروفیسر غفور ملک غلام جیلانی اور ڈاکٹر نذیر وغیرہ شامل تھے۔

جے یو پی کے شاہ احمد نورانی مولانا مصطفی الازہری مولانا شفیع اوکاڑوی کراچی سے امیدوار تھے مولانا مفتی محمود ڈیرہ اسماعیل خان سے اور قوم پرست جماعتوں کے راہنما ڈاکٹر عبد الحی بلوچ غوث بخش بزنجو سردار خیر بخش مری اور عبدالولی خان نے بھی ان انتخابات میں حصہ لیا۔ سیاسی تفریق کے باوجود مختلف سیاسی جماعتوں کے ان امیدواروں کا پس منظر درمیانے طبقے سے اور تعلیمی و پیشہ وارانہ پس منظر متاثر کن تھا۔

آج تقریبا نصف صدی ہونے کو ہے اور 2018 کے انتخابات میں شہری حلقوں سے مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواران براہ راست یا با الوسطہ زمینوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے بیشتر پر لینڈ مافیا الزامات زمینوں پر قبضے ہاوسنگ سوسائٹی فراڈ اور زمین کے کاغذات پر ردوبدل کے مقدمات بھی درج ہیں۔ کاغذات نامزدگی میں دیے گئے گوشواروں کے مطابق یہ لوگ کروڑوں اربوں کے اثاثوں کے مالک ہیں لیکن ان کا تعلیمی پس منظر انتہائی کمزور ہے۔

اگر شہری حلقوں پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو اسلام آباد سے ن لیگ کے امیدوار انجم عقیل خان پر ہاوسنگ سوسائٹی فراڈ کے الزامات پر نیب مقدمہ درج ہوا پولیس فاؤنڈیشن سوسائٹی فراڈ میں ملوث ہونے کے باعث انہوں نے چار ارب روپے نیب کو پلی بارگین میں واپس کیے۔ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار راجہ عمران اشرف سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے بھائی ہیں اور وہ بھی زمینوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

اسلام آباد کے دوسرے حلقے میں مسلم لیگ کے امیدوار طارق فضل پیپلز پارٹی کے افضل کھوکھر اور تحریک انصاف کے خرم نواز تینوں کا پیشہ پراپرٹی کی خریدوفروخت ہے۔ راولپنڈی سے ن لیگ کے امیدوار چوھدری تنویر کے برخوردار دانیال چوھدری شہر کے مشہور پراپرٹی ڈویلپر ہیں۔ راولپنڈی سےھی تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار جاجی امجد محمود بحریہ ٹاؤن کے نائب صدر ہیں ان کے اربوں کے اثاثے ہیں مگر تعلیمی قابلیت انڈر میڑک ہے ان پر زمینوں پر قبضے اور اقدام قتل کی متعددایف آئی آر درج ہیں۔

اسی طرح راولپنڈی سے چوھدری نثار کے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار غلام سرور اور ن لیگ کے امیدوار ملک ابرار بھی زمینوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ فیصل آباد سے عابد شیر علی اور تحریک انصاف کے راجہ ریاض لاہور سے تحریک انصاف کے علیم خان جن کے خلاف زمینوں کے فراڈ کے بہت سے مقدمات درج ہیں ن لیگ کے لاہور سے امیدوار افضل کھوکھر اور رانا مبشر وغیرہ بھی زمینوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

کویٹہ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار علی مدد جتک جن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے وہ بھی پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہیں ۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر و ترقی بھی لینڈ مافیا سے محفوظ نہ رہ سکی اور بہت سے سیاستدان ادارے اس میں ملوث ہوگئے۔ پشاور سے آفتاب شیرپاؤ مولانا فضل الرحمان کے رشتے دار حاجی غلام علی وغیرہ نہ صرف زمین کی خرید وفروخت میں ملوث رھے بلکہ اس حوالے سے ان پر بہت سے مقدمات بھی درج ہیں۔

کراچی شہر میں بھی کچھ امیدوار لینڈ مافیا کے نمائندے ہیں کراچی کے سابق مئیر مصطفیٰ کمال مئیر بننے کے بعد بحریہ ٹاؤن میں ملازم ہوگئے کراچی کے بہت سے امیدواروں کی انتخابی مہم کے اخراجات پس پشت لینڈ مافیا برداشت کرتا ہے۔

لینڈ مافیا سیاست اور مافیا کے گٹھ جوڑ پر مشتمل ہوتا ہے اس گٹھ جوڑ میں سیاستدان، افسران اور کاروباری اشرافیہ کے لوگ شامل ہیں۔ آج اگر پاکستان میں درمیانے طبقے کی نمائندگی مفتود ہوچکی ہے تو اس کی بڑی وجہ بلدیاتی اداروں کا عدم تسلسل اور کمزور ہونا طلبہ یونین مزدور یونین پر جنرل ضیا الحق دور میں پابندی لگنا ہیں۔

غیر جماعتی انتخابات نے ذات برادری اور پیسے کی سیاست کو فروغ دیا۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات وقت پر نہ ہوئے اگر ہوئے تو ان کو اختیارات منتقل نہ کیے گئے۔ امریتوں نے مصنوعی قیادتوں کو پروان چڑھایا۔ اور یوں آج درمیانے طبقے کی ہمارے انتخابی نظام میں نمائندگی مفتود ہوگئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).