نواز شریف! انصاف ہو گا، ضرور ہو گا!


کچھ اور لکھ رہا تھا اچانک خبریں دیکھنے لگا تو پرانے واقعات کی فلم دماغ میں چلنے لگی۔ پچھلے سال ان دنوں میں ابا ایک لمبے ٹور کا پروگرام بنا رہے تھے۔ جس دن فلائٹ لینا تھی اس سے ایک روز پہلے انہیں ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ ملتان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا، شام تک میں بھی ملتان پہنچ چکا تھا۔ اگلے دو تین روز تو بہت ہی زیادہ پریشانی میں گزرے کہ پہلے بہتر گھنٹے بہرحال دل کے دورے میں اہم ترین ہوتے ہیں، اس کے بعد آہستہ آہستہ ان کی طبیعت بہتر ہونے لگی۔ اس دوران مختلف ٹیسٹوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ بندہ تھوڑی بہت انگریزی جانتا ہو اور انٹرنیٹ کے استعمال سے واقفیت بھی ہو تو نیم حکیم باآسانی بن سکتا ہے، وہ فقیر بن چکا تھا۔

اب جو بھی رپورٹس آتیں انہیں پہلے خود دیکھا جاتا پھر دھڑکتے دل کے ساتھ ڈاکٹروں کو دکھا کر ان کے تاثرات پوچھے جاتے۔ ظاہری بات ہے دل کا دورہ تھا تو کچھ چیزیں نارمل تھیں اور کچھ رزلٹ ٹھیک نہیں بھی آتے تھے۔ ہارٹ اٹیک کے بعد مین چیز دل کا ایجیکشن فریکشن ریٹ دیکھا جاتا ہے یعنی دل کتنے پرسنٹ کام کر رہا ہے اور کتنے پرسنٹ دل کے مسلز دورے کے بعد متاثر ہوئے ہیں، پھر انجیوگرافی کی جاتی ہے، اس میں اگر کوئی والو کام نہ کر رہا ہو تو اس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے، پھر سٹنٹ ڈل جاتے ہیں۔ اگر کوئی بھی آپشن نہ ہو تو پیس میکر، اوپن ہارٹ سرجری یا کسی اور ٹریٹمنٹ کا نمبر آتا ہے۔ خدا کا شکر ہے سٹنٹ ڈل گئے اور ابا ٹھیک ہو کے آ گئے۔ اب جو چیز نارمل نہیں تھی وہ ان کا کریٹانن لیول تھا۔

کریٹانن لیول بولے تو گردوں کے ٹھیک کام کرنے کا ٹیسٹ، آپ کا جسم پانی کی کمی کا شکار نہیں ہے، بلڈ پریشر کے مسائل نہیں ہیں، شوگر نہیں ہے، دل خون ٹھیک پمپ کر رہا ہے گردوں کی طرف تمیز سے بھیج رہا ہے تو اس کا مطلب سب او کے ہے۔ جدھر گڑبڑ ہو گی تو سب سے اہم انڈیکیٹر یہی ٹیسٹ ہو گا۔ ہارٹ اٹیک کے بعد بھی یہی ہوتا ہے۔ گردے خون کم ملنے کی وجہ سے اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کر رہے ہوتے، اوپر سے مریض کبھی کبھی پانی بھی کم پی رہا ہوتا ہے تو کل ملا کے کریٹانن اور یوریا کو سنبھالنا ڈاکٹروں کے لیے ایک امتحان اور مریض کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ یہ لیول اگر بڑھتا جائے گا تو گردے خراب ہوتے جائیں گے، زیادہ بڑھ جائے گا تو خدانخواستہ گردے فیل بھی ہو سکتے ہیں، مستقل بڑھا رہے گا تو دل کا علاج بھی مشکل ہوتا جائے گا۔ ابا پانی پہلے بھی کم ہی پیتے تھے، بہرحال ترلے منتیں کر کے اتنا ہو گیا کہ اب شاید ان کا کریٹانن لیول نارمل رینج کے اندر ہے۔

نارمل رینج 0.6 سے 1.2 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ہو سکتی ہے۔ اس میں اگر آپ ہائر سائیڈ پہ ہیں یعنی 1.1 یا 1.2 پہ ہیں تو بھی یہ چیز بتاتی ہے کہ بھئی گردے کچھ نہ کچھ پرابلم میں آئے ہوئے ہیں۔ ملک کے سابق وزیر اعظم کو دس برس قید ہوتی ہے۔ وہ جیل جاتے ہیں۔ آج ان کا میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے اور اس میں دکھایا جاتا ہے کہ ان کا کریٹانن لیول 1.4 تک پہنچ چکا ہے۔ بلڈ یوریا 84 پہ ہے جو نارمل طور پہ سات سے بیس ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ہونا چاہئیے، مطلب ڈبل سے بھی زیادہ خطرناک سطح پہ پہنچ چکا ہے۔ سوال یہ ہے جب انہیں قید کیا گیا تھا کیا اس وقت یہ ٹیسٹ نہیں ہوئے تھے؟ جواب ہے کہ ہوئے تھے، اس وقت بھی رپورٹوں کے مطابق دونوں چیزیں نارمل رینج سے اوپر تھیں اور اچھی خاصی اوپر تھیں، تو اس وقت کیوں نہیں دھیان رکھا گیا؟

ظاہری بات ہے بندہ ہر سوال کا جواب ایکسپیکٹ کر بھی نہیں سکتا ہاں اتنا معلوم ہے کہ جیل حکام سے مسلسل طبی سہولیات مہیا کرنے کی درخواست کی جاتی رہی ہے۔ یہ ظلم نہیں ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف جب یہ کہے کہ میرا ڈاکٹر مجھے ساتھ لے جانے دو تو بھی اجازت نہ ملے، جب وہ گرمی کی شکایت کرے تو بھی کوئی سدباب نہ ہو، اور جب بالاخر وہ بیمار پڑ جائے تو کہنا شروع کر دیا جائے کہ جیل کی سختیاں نہیں سہہ سکے؟ قاسم جلالی کا کے ایک ڈرامے کا ڈائیلاگ یاد رہا ہے، انصاف ہو گا، ضرور ہو گا، اور وہ مسکراہٹ جو اس کردار میں مرحوم بادشاہ کے منہ پہ ہوتی تھی وہ خواہ مخواہ یاد آ رہی ہے۔ آداب دربار ملحوظ ہیں، آگے چلتے ہیں۔

قصہ یوں تھا کہ 22 جولائی کو ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے سابق وزیر اعظم کا جیل میں معائنہ کیا۔ ایک ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ نواز شریف کے جسم میں پانی کی شدید کمی ہو چکی ہے۔ شوگر خطرناک حدوں پر ہے، صورت حال کو میڈیکل ایمرجنسی قرار دیا نیز میاں نواز شریف کی زندگی کو خطرہ لاحق ہونے کی بات کی۔ دوسرے ڈاکٹر نے کہا کہ ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے ان کا یوریا اور کریٹانن لیول بہت بڑھ گیا ہے۔

گرم موسم، شوگر کے مسائل، ڈی ہائیڈریشن، زیادہ پسینہ، نیند کم آنا یہ سب چیزیں بہت تیزی سے انہیں کسی بھی ایسے مرض کی طرف لے جا رہی ہیں جس کا انجام دل کا ایک اور دورہ یا گردوں کا بالکل فیل ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ اس پہ انہیں فوری طور پر راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں منتقل کرنے کا مشورہ دیا گیا، آخری خبریں آنے تک نواز شریف نے ہسپتال جانے سے انکار کر دیا اور ٹھیک کیا! انہوں نے کہا کہ ادھر جیل میں مطلوبہ طبی سہولیات مہیا کی جائیں، بات سمجھ میں آتی ہے۔

اپنے باپ کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے میں یہ ساری سائنس سمجھ گیا، مریم نواز بھی سمجھتی ہوں گی، خود نواز شریف بھی سمجھتے ہیں۔ اہم بات یہی ہے کہ جب آپ ایک ستر سال کے بندے کو جیل میں ڈال رہے ہیں جو اس ملک کا منتخب وزیر اعظم رہ چکا ہے، جس کی اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے، جو اپنی بیوی کی صحت کے بارے میں پہلے ہی شدید پریشان ہے، جس کا کریٹانن اور یوریا لیول 15 جولائی کو بھی بگڑا ہوا تھا، جس کے فیصلے پر اعتراضات آن دی ریکارڈ موجود ہیں اور خود فیصلہ سازوں میں سے بھی آوازیں آنا شروع ہو چکی ہیں تو کیا اس شخص کو اتنا حق نہیں تھا کہ وہ مطلوبہ طبی سہولیات ساتھ رکھ سکتا؟ اسے جیل میں ذاتی معالج کی خدمات حاصل رہتیں؟

نگران وفاقی وزیر اطلاعات بیرسٹر علی ظفر سے جب ایک صحافی نے پوچھا کہ اپنی رائے دیجیے تو انہوں نے فرمایا، ”ایسا کوئی قانون نہیں کہ آپ وزیر اعظم رہے ہوں یا کوئی اہم شخص ہوں تو آپ کو بہتر کیٹیگری ملے گی۔ اگر آپ سزایافتہ ہیں تو پھر آپ کو باقی قیدیوں سے مختلف ٹریٹمنٹ نہیں مل سکتی، پھر آپ کو آپ کے حق کے مطابق اور جیل مینول کے مطابق ہی ملے گا“۔ پوچھا جانا چاہئیے کہ جب مقدمات کے فیصلے ترجیحی بنیادوں پہ ہو سکتے ہیں، ٹریٹمنٹس مختلف ہو سکتے ہیں، تو جیلوں میں بنیادی طبی سہولیات کیوں معمول سے ہٹ کے نہیں دی جا سکتیں؟

کون کہتا ہے بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہوئی؟ جمہوریت بس اتنی مضبوط ہے جتنا آج ملک کا سابق منتخب وزیر اعظم مضبوط ہے۔ نواز شریف نے اگر ہسپتال جا کے لیٹنا ہوتا یا طبی بنیادوں پہ رعائتیں مانگنی ہوتیں تو وہ بھی کمر یا دل پکڑ کے لندن میں بیٹھ جاتے، ووٹوں سے منتخب ہو کے آنے اور دیواریں پھلانگ کے یا دوسروں کے کندھوں پہ چڑھ کے آنے میں یہ بنیادی فرق ہوتا ہے۔ جسے معلوم ہوتا ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں وہ سو سو بار سزا پانے کو تیار ہوتا ہے، جسے علم ہو کہ اس کی فالونگ فیس بک تک ہی ہے وہ کبھی واپس آنے کی جرات نہیں کرتا، اس کے بس اعلانات سننے والے ہوتے ہیں۔ یہی جمہوریت کی کسوٹی ہے۔

قصہ مختصر سو باتوں کی ایک بات لکھ لیجیے۔ قید نواز شریف آزاد نواز شریف سے زیادہ باشعور عوام کی ہمدردیاں رکھتا ہے اور بیمار نواز شریف قید نواز شریف سے زیادہ عوام میں مقبول ہے۔ کسی بھی شدید طبی ایمرجنسی کی صورت میں جو کچھ ہو گا اس کے بعد نواز شریف رہے نہ رہے اس کا بیانیہ لوگوں کے دلوں سے مٹانا ممکن نہیں ہو گا۔ معاملہ الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد کا نہیں ہے، معاملہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے، معاملہ بنیادی جمہوری حقوق کا ہے، معاملہ انصاف کا ہے اور معاملہ ووٹ کو عزت دینے کا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain