انتخابات ء2018


گزشتہ دس برس میں تیسری مرتبہ پاکستانی عوام انتخابات کے عمل کا حصہ بننے جا رہے ہیں اور رائے عامہ کے ذریعے 25 جولائی 2018ءکو عوامی فیصلہ کے ذریعہ ا علیٰ ایوانوں میں عوامی نمائندے منتخب کریں گے اور اپنے مستقبل کے پانچ سال ان کے ہاتھوں میں سونپ دیں گے۔

اِس سے قبل اس امر کا جائزہ لینا بھی ازحدضروری ہے کہ چند سیاسی جماعتیں انتخابات کے انقعاد پر شدیدتحفظات کا اظہار کرچکی ہیں جِن میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلمینٹرین شامل ہیں۔ اِن جماعتوں کے قائدین کا کہنا ہے کہ انتخابات کو انتخاب بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عوامی رائے پر کسی اور کی رائے کو مسلط کیا جا رہا ہے۔ عام انتخابات کے انقعاد سے قبل ہی اسے متنازع بنا دیا گیا ہے۔ گوکہ اس وقت یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اِن جماعتوں کے تحفظات کو دور کرے کیونکہ جمہوری عمل کی بقاءکے لئے صاف اور شفاف انتخابات بہرحال ناگزیر ہیں اور اس وقت اگر ملکی حالات پرطائرانہ نظرڈالی جائے تو خاصی کشیدگی نظرآئے گی چنانچہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو دس اور سات سال قید۔ پھر حنیف عباسی کو عمر قید اور اب جسٹس شوقت عزیز صدیقی کی جانب سے گزشتہ شب قومی اداروں پر غیر منصفانہ فیصلوں کا الزام نہایت تشویش کا باعث ہے۔

قطع نظر مذکورہ جملہ معاملات کے اگر توجہ صرف انتخابات پر مرکوز کی جائے تو سیاسی اکھاڑے میں تمام جماعتیں بھر پور انداز میں اپنی اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں تاکہ ایک بار پھر عوام کی خوشنودی حاصل کی جاسکے اور ایوانِ اقتدار تک راہ ہموار ہو سکے کیونکہ بظاہر تمام سیاسی جماعتوں کے لئے کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنا ایک کٹھن عمل ہوگا۔ کیونکہ اگر کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو گذشتہ پانچ سالوں میں مسلم لیگ (نواز )کی جانب سے وفاق اور صوبائی حکومت میں آنے سے پہلے جو وعدے عوام سے کیے گئے وہ آج بھی وفا کے منتظر ہیں اور غریب عوام کے مسائل بھی جوں کے توں ہیں۔

خواہ آپ صحت کی بات کریں یا پھر تعلیم کی تو گزشتہ پانچ سالوں میں ان شعبوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اور معاشی طور پر ملک مزید پستی کی جانب گامزن ہے لیکن چائنہ پاکستان اکنا مک کوری ڈور (سی پیک) اور بجلی کی بندش سے کسی حدتک نجات اس قوم کے لئے آئندہ آنے والے وقت میں ایک راحت ثابت ہوگی۔ تو دوسری طرف نئے پاکستان کی حامی تحریک انصاف گزشتہ پانچ سالوں میں خیبر پختونخوا کو مثالی صوبہ بنانے میں ناکام رہی ہے اور پیپلز پارٹی نے بھی گزشتہ پانچ سالوں میں عوام کو مایوسی کے سواء کچھ نہیں دیا۔ لیکن آفریں ہے میرے ملک کے بہادر لوگوں پر جوگزشتہ وعدے بھول کر ایک بار پھر نئے وعدوں پر یقیں کرنے کے لئے تیار ہیں اور انہی جماعتوں کو اقتدار میں لانے کے لئے بے تاب ہیں۔

اب اگراس تناظرمیں انتخابی عمل کا جائزہ لیا جائے تو 2018 کے عام انتخابات میں مجموعی طور پر 12000 امیدوار 849 صوبائی اور قومی نشستوں کے لئے انتخابی میدان میں زور آزماء ہیں اور قومی اسمبلی میں 170 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ہی وفاق میں حکومت بنانے کی اہل ہوگی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق عام انتخابات میں کوئی بھی جماعت دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے گی جس کے چلتے دو یا دو سے زائدسیاسی جماعتوں کو باہمی اتحادکے ذریعہ حکومت تشکیل دینی ہوگی اور اس صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مبصرین کے مطابق مرکزی سیاسی جماعتوں میں تین طریق پر ممکنہ اتحاد بننے کی اُمید کی جا سکتی ہے :

٭ پاکستان مسلم لیگ (ن)۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور آزاد امیدوار۔
٭ پاکستان تحریک انصاف۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور آزاد امیدوار۔
٭ پاکستان تحریک انصاف۔ متحدہ مجلس عمل اور آزاد امیدوار۔

آئندہ آنے والی حکومت کسی بھی جماعت کی ہو۔ اُسے درپیش مسائل کے حل کے واسطے سنجیدہ اور غیر جانبدار ہو کر کام کرنا پڑے گا کیونکہ اس وقت پاکستان میں وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں۔ اس ملک میں دہشت گردی اور انتہاپسندی جیسے مسائل معاشرے میں جڑ پکڑ رہے ہیں اور پاکستان کی گرتی معیشت سب سے بڑا مسئلہ ہے جو کہ آئندہ آنے والی حکومت کے لئے سب سے بڑامتحان ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).