کیا عمران خان کھوٹے سکوں سے نیا پاکستان بنا سکتے ہیں؟


عمران خان کا دعوی ہے کہ وہ بے اصول سیاست کی گرد سے دھندلائے ہوئے مفاد پرست چہروں کی مدد سے اس ملک میں تبدیلی لے آئیں گی۔
ایسا کیسے ہو گا؟

تحریک انصاف کے چیئرمین کی کرشماتی شخصیت کے سحر میں گرفتار کسی بھی نوجوان سے یہ سوال پوچھیں تو جواب آتا ہے کہ ملکی سیاست کی حقیقتوں کے پیش نظر ان روایتی سیاستدانوں کو ساتھ ملانا ضروری تھا لیکن خان چونکہ خود ایماندار اور راست باز انسان ہے لہذا وہ انہی ”آزمائے ہوئے بازوؤں“ کے ساتھ ملک و قوم کی تقدیر بدل دے گا۔

لیکن ایمان داری اور راست بازی میں قائد اعظم محمد علی جناح کسی سے کم تھے کیا؟ اگر ان جیسا عظیم مدبر سیاست دان اپنی جیب کے ”کھوٹے سکوں” کے آگے خود کو بےبس محسوس کرسکتا ہے تو عمران خان کس کھیت کی مولی ہیں۔

اس دلیل کے بعد یا تو ”اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور“ والی صورتحال ہوتی ہے یا پھر دلیل دینے والے کو کرپٹ نظام کا حمایتی قرار دے دیا جاتا ہے۔

بہت سے غیر جانبدارافراد کا خیال ہے کہ عمران خان تحریک انصاف کے ابتدائی دنوں میں جس سوچ کا اظہار کیا کرتے تھے اس پر اب تک وہ اتنے سمجھوتے کر چکے ہیں کہ اب اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہو بھی گئے تو اس سے جو تبدیلی آئے گی وہ دونوں پیروں کے گندے موزوں کی آپس میں تبدیلی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہو گی۔

ایک ہی شخص کو مسیحا مان کر اسی سے تمام کرشموں کی توقع رکھنا حماقت نہیں تو سادگی کی انتہا ضرور ہے۔ اور اگر عمران خان بھی صدق دل سے ایسا ہی سوچتے ہیں کہ وہ اپنے نظریاتی کارکنوں کو پس پشت ڈال کر اس مفاد پرست ٹولے کی مدد سے ملک میں کوئی مثبت تبدیلی لے آئیں گے تو یہ ان کی بھی خام خیالی ہے۔ آپ گندگی کے ڈھیر پر خوشنما قالین بچھا کر ماحول میں بہتری لانے کا دعوی نہیں کرسکتے۔

ہمارے ملک پر مسلط ہونے والا ہر آمربھی ہمیشہ یہی سوچ لے کر آتا رہا ہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کردے گا۔ قومی تاریخ کے بارے میں آگہی کے فروغ کے بعد اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ان سب نے معاشرے کو کتنا ٹھیک اور کتنا تار تار کیا۔ پانی میں کڑواہٹ گھول کر فرحت بخش مشروب نہیں بنایا جا سکتا۔

جمہوریت کے وہ ثمرات جو ترقی یافتہ ممالک نے پائے ہیں وہ ایک بتدریج عمل کا نتیجہ ہیں۔ وہاں غیر جمہوری اور بدعنوان عناصر کے مقابلے میں نظریاتی سیاستدانوں نے جمہوری اقدار پر سمجھوتہ کیے بغیر طویل جدوجہد کا راستہ اپنایا اورعوامی سطح پر قبولیت کی سند پائی۔ بعض صورتوں میں تو ایسے سیاسی اکابرین کبھی اقتدار کی منزل ہی حاصل نہ کر پائے لیکن ان کی فراہم کی گئی مضبوط بنیادوں پر آنے والے دنوں میں بہترین کارکردگی کی حامل ایسی حکومتیں قائم ہوئیں جنھوں نے ان معاشروں کو استحکام بخشنے کے ساتھ ساتھ ترقی کی شاندار راہوں پر گامزن کر دیا۔ ان نکات کو کتابی باتیں قرار دینے والوں کو برطانیہ کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

اگر عمران خان الیکٹیبلز اور اسٹیبلشمنٹ کے سہاروں کی بجائےاپنے نظریاتی کارکنوں کی مدد سے جدوجہد جاری رکھتے تو بتدریج وہ اس قوم کو ایسی پختہ اور بے داغ قیادت کا تحفہ دے جاتے جو بالآخر ملک میں حقیقی اور بامقصد تبدیلی کا باعث بنتی۔

لیکن عمران نے اس ارتقائی عمل کو جاری رکھنے کی بجائے تبدیلی لانے کے لیے ہر ممکن ذریعے سے اقتدار پانے کا جو فیصلہ کیاہے اس کے نتائج جمہوری نظام پر نوجوان نسل کے اعتبار کو ناقابل تلافی ٹھیس پہنچا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملک و قوم کے مستقبل کے لیے ہرگز خوش آئند نہ ہوگا۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa