واردات – مختصر کہانیاں



(کتاب پیدائش و اموات کا ایک باب)

تیسری عالم گیر برفابی کے پانچ لاکھ سال بعد، جب سورج دوبارہ نمودار ہوا، اور زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بحال ہوئی تو تباہی کے اسباب جاننے کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا گیا، جس کا سربراہ ٹی ریکس نامی ایک سپر روبورٹ تھا۔ کمیشن نے تمام طبعی اور واقعاتی شواہد کا معائنہ کر نے کے بعد انکشاف کیا کہ آج سے چھہ لاکھ سال پہلے کرۂ ارض پر انسان نامی ایک سفاک درندے کا راج تھا جو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے جنون میں دیگر جانوروں کا خاتمہ کرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ کائناتی توازن بگڑا اور نظامِ شمسی کی موت واقع ہو گئی۔

کمیشن نے تجویز پیش کی کہ بندروں کی تمام انواع کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے تاکہ کل کو وہ انسانوں میں تبدیل ہو کر دوبارہ یہی خونی کھیل نہ دہرا پائیں۔

معاملہ چوں کہ نہایت حساس نوعیت کا تھا لہٰذا بین الانواعی سلامتی کونسل کا ایک خصوصی اجلاس بلایا گیا، جس کے تمام ممبران نے خاصے بحث مباحثے کے بعد بوزنا کشی کی منظوری دے دی۔

ٹی ریکس ڈاکٹرائن پر عمل درآمد شروع ہوا۔
پہلی فرصت میں دنیا کے تمام جنگلوں کے گرد باڑیں لگا دی گئیں تا کہ کوئی ایک بندر بھی فرار نہ ہونے پائے۔
شمسی توانائی سے چلنے والے روبوٹس کی فوج نے زمین کا چپہ چپہ چھان مارا۔

جونھی انھیں کوئی بندر، یا بندر نما مخلوق دکھائی دیتی، وہ اُسے برقی شعاعوں سے بھون ڈالتے۔
کہا جاتا ہے آخری بندر کی موت کے محض دس ہزار سال بعد آخری کاکروچ اور نوے ہزار سال بعد آخری روبوٹ کی موت واقع ہو گئی!

(ترقی)

ہمارے پاس ہبل نامی ایک عظیم الشان دور بین تھی۔
ہم اِس پر زحل کے دائرے اور مشتری کے چاند دیکھتے تھے۔
ایک روز، ہم نے اِسی معیار کی خورد بین بنانے کا فیصلہ کیا۔
پندرہ سال لگے!
چالیس ارب ڈالرزکی لاگت سے یہ منصوبہ مکمل ہوا۔
اب ہم افریقی قحط زدہ بچوں کے جینیاتی گچھے بھی دیکھ سکتے ہیں۔

(میرٹ)

معروف صحافی، ماہرِ تعلیم اور محقق، ’’بشارت نویس“ نے ایک مقالہ تحریر کیا جس کے تحت وزیرِ تعلیم، ”میاں مسور کی دال“، اکیسویں صدی کے سقراط قرار پائے۔
تمام کیفی اور مقداری پیمانوں پر نتائج بالکل درست پائے گئے، یہی وجہ تھی ایک سیون اسٹار ریسرچ جرنل نے محض دو ہزار پونڈ ز کے عوض اُن کا مقالہ چھاپ دیا۔
وہ خود ،بہ نفس نفیس ، اپنی بغل میں جرنل دابے، وزیر موصوف کے روبرو پیش ہوئے۔
ٓآخری اطلاعات آنے تک وہ دولے شاہ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں بطور ڈین خدمات سر انجام دے رہے تھے۔
سنا ہے! وہ میرٹ پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتے۔

(واردات)

بھیڑیوں کا ایک گروہ گوشت خوری کی مذمت میں پریس کانفرنس کر رہا تھا۔
معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ایک رپورٹر بکری ابھی تک اپنے گھر نہیں پہنچی۔
پولیس کو یقین ہے اِس واردات کے پیچھے خرگوشوں کا ہاتھ ہے۔

(ثقافتی تسلط)

سونیا لاہور کی سکونتی تھی۔
سمیر دہلی میں رہتا تھا۔
2001ء میں سارک کے زیر اہتمام ایک تقریری مقابلہ منعقد ہوا جس میں سونیا اور سمیر نے بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی۔

تقسیم انعامات کے موقع پر ان کے مابین خوش گوار جملوں کا تبادلہ ہوا اور دونوں قلمی دوست بن گئے۔
دشمن ملکوں کے باسی تھے لہذا دوستی کی نیت سے لکھے گئے خطوط کا زیادہ متن، ثقافتی جنگ کی نذر ہو جاتا۔
سونیا کا خیال تھا پی ٹی وی کے ڈرامے معیارمیں یکتا اور پیش کش میں لاجواب ہیں؛ سمیر کو یقین تھا دور درشن اور زی ٹی وی دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینل ہیں۔

سونیا عید اور بسنت کو سب سے حسین تہوار مانتی تھی؛ سمیر ہولی کے رنگوں اور دیوالی کے پٹاخوں کا مداح تھا۔
2006ء میں دونوں کے پاس انٹرنیٹ کنکشن آ گیا اور خطوط کی جگہ یاہو اور فیس بک نے لے لی۔
وہ آج بھی کشمیر اور بلوچستان کو لے کر لمبی لمبی بحثیں کرتے ہیں تاہم ثقافتی محاذ پر گولا باری بند ہو چکی ہے۔
اب وہ ہالووین اور ویلنٹائن ڈے کو سب سے عمدہ تہوار قرار دیتے ہیں اور امریکی سیزینز کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے۔

(انصاف)

امتناعِ منشیات آرڈینینس 1979ء کی دفعہ گیارہ کے تحت سب انسپکٹر راشد علی نے ملزم اللہ وسایا کو مجسٹریٹ درجہ اؤل کے روبرو پیش کیا جس نے ڈاکٹری رپورٹ کا معائنہ کرنے کے بعد ملزم کو چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل بجھوانے کا حکم دیا؛ فیصلہ ڈکٹیٹ کرواتے ہوئے مجسٹریٹ صاحب کی زبان، کثرتِ شراب نوشی کے باعث، تین مرتبہ لڑکھڑائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).