جوگندر ناتھ منڈل نے پاکستان چھوڑتے ہوئے کیا کہا؟  (2)


پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

1945 میں جب لارڈ ویول نے آل انڈیا مسلم لیگ کو ہندوستان کی مرکزی کابینہ میں شامل کیا تو اس کابینہ میں مسلم لیگ نے ایک غیر مسلم شخص جوگندر ناتھ منڈل کو بھی نامزد کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کی مجلس قانون ساز کے پہلے اجلاس کی صدارت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کی پہلی کابینہ مین وزیر قانون کا قلمدان دیا گیا۔  قرار داد مقاصد کی منظوری کے بعد جوگندر ناتھ منڈل خود کو پاکستان میں غیر مطمعئن محسوس کرنے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس قرار داد کے ذریعے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پامال ہوئے ہیں۔ چنانچہ 1950 میں وہ پاکستان کی شہریت ترک کر کے ہندوستان منتقل ہو گئے جہاں سے آٹھ اکتوبر 1950 کو انہوں نے اپنا استعفیٰ بھجوا دیا جو 15 اکتوبر 1950 کو منظور ہوا۔ جوگندر ناتھ منڈل نے اپنی بقیہ زندگی کلکتہ ہی میں گزاری اور 5 اکتوبر 1968 کو وفات پائی۔

آئیے دیکھتے ہیں جوگندر ناتھ منڈل نے اپنے استعفیٰ میں کیا لکھا تھا۔ دوسرا حصہ ملاحظہ فرمائیں

معاہدہ دہلی کے نفاذ کی سنجیدہ خواہش کا نہ ہونا:

(23)بنگال سے ہندوﺅں کا وسیع پیمانے پر انخلاء مارچ کے اخیر میں شروع ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں تمام ہندو انڈیا ہجرت کرجائیں گے۔ بھارت میں جنگی نعرہ بندہ ہورہا تھا۔ صورتحال خاصی نازک ہو چلی تھی۔ ایک قومی آفت ناگزیر نظر آتی تھی۔ تاہم متوقع تباہی 8 اپریل کے دہلی سمجھوتہ سے ٹل گئی۔ دہشت زدہ ہندوﺅں کے پہلے سے ہارے حوصلوں کی بحالی کے مطمع نظر سے میں نے مشرقی بنگال کا ایک بھرپور دورہ کیا۔ میں نے ڈھاکہ، باریسال، فرید پور، کھلنا اور جیسور اضلاع میں متعدد علاقوں کا دورہ کیا۔ میں نے درجنوں بڑے اجتماعات سے خطاب کیا اور ہندوﺅں سے کہا کہ حوصلہ قائم رکھیں اور اپنے پرکھوں کے گھر بار چھوڑ کر نہ جائیں مجھے یہ توقع تھی کہ حکومت مشرقی بنگال اور مسلم لیگی لیڈران معاہدہ دہلی کی شرائط پر عمل درآمد کریں گے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مجھے احساس ہونے لگا کہ نہ تو حکومت مشرقی بنگال اور نہ ہی مسلم لیگی قائدین معاہدہ دہلی پر عمل درآمد کرنے کے معاملہ میں حقیقی طور پر سنجیدہ ہیں۔ مشرقی بنگال کی حکومت نہ صرف یہ کہ دہلی سمجھوتہ میں قیاس کردہ مشینری کی تشکیل پر تیار نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے لئے موثر اقدامات کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔ بہت سے ہندوؤں کو، جو دہلی سمجھوتہ کے فوراً بعد اپنے آبائی قصبوں کو لوٹ آئے، ان کے گھروں اور زمینوں جن پر اس دوران مسلمان قابض ہوچکے تھے کا قبضہ نہیں دیا گیا۔

مولانا اکرم خان کی اشتعال انگیزی:

(24)لیگی لیڈران کے ارادوں کے بارے میں میرے شکوک اس وقت یقین میں بدل گئے جب میں نے مولانا اکرم خان، صوبائی مسلم لیگ کے صدر کا ایڈیٹوریل تبصرہ ”محمدی“ نامی ایک جریدے کے بیساکھ ایشو میں پڑھا، ڈاکٹر اے ایم مالک، پاکستان کے اقلیتی معاملات کے وزیر کے پہلے ریڈیو خطاب، جس میں انہوں نے کہا تھا ”حضرت محمدﷺ نے بھی حتیٰ کہ عرب میں یہودیوں کو مذہبی آزادی دی“ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا اکرم خان نے کہا”ڈاکٹر مالک نے بھی کیا ہی اچھا کیا ہوتا، اگر انہوں نے اپنی تقریر میں عرب کے یہودیوں کے بارے میں کوئی حوالہ نہ دیا ہوتا۔“ یہ سچ ہے کہ حضرت محمدﷺ نے عرب میں یہودیوں کو مذہبی آزادی مرحمت فرمائی، لیکن یہ تاریخ کا پہلا باب تھا، آخری باب میں حضرت محمدﷺ نے قطعی ہدایات دیں جو کچھ یوں ہیں:”تمام یہودیوں کو عرب سے نکال باہر کرو۔“ ایک ایسا شخص جو مسلم کمیونٹی کی سیاسی، سماجی اور روحانی زندگی میں بہت اعلیٰ رتبہ رکھتا ہو کے اس ایڈیٹوریل تبصرے کے باوجود بھی میں نے کچھ توقعات وابستہ رکھیں کہ نورالامین وزارت اتنی غیر مخلص نہیں ہوگی۔ لیکن میری یہ توقعات اس وقت مکمل طور پر بکھر گئیں جب مسٹر نورالامین نے دہلی سمجھوتہ کے حوالے سے جو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اقلیتوں کے دل میں اعتماد بحال کرنے کے لئے ان کے نمائندوں میں سے ایک کو حکومت مشرقی ومغربی بنگال کی وزارت میں لیا جائے گا، ڈی این براری کو اقلیتوں کی نمائندگی کے لئے بطور وزیر چنا۔

نورالامین حکومت کی ریاکاری:

(25)میں نے اپنے ایک سرکاری بیان میں اس نقطہ نظر کا اظہار کیا کہ ڈی این براری کا بطور اقلیتوں کے نمائندہ وزیر کے تقرر نہ صرف یہ کہ اعتماد کی بحالی میں کوئی مدد نہیں کرے گا بلکہ اس کے برعکس التباسی توقعات اگر کوئی اقلیتوں کے ذہن میں نورالامین حکومت کے خلوص کے بارے میں ہیں تو انہوں خاک میں ملا دے گا۔ میرا ذاتی ردعمل یہ تھا کہ مسٹر نورالامین کی حکومت نہ صرف غیر مخلص تھی بلکہ دہلی سمجھوتہ کے حقیقی مقاصد کو ناکام کرنا چاہتی تھی۔ میں دوبارہ کہتا چلوں کہ ڈی این براری ماسوائے اپنی ذات کے کسی اور کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ کانگریس کے ٹکٹ اور کانگریس کے مال وانتظام کے ساتھ کامیاب ہوکر بنگال قانون ساز اسمبلی میں پہنچے۔ انہوں نے اچھوت ذات فیڈریشن کے امیدواروں کی مخالفت کی۔ چناﺅ کے کچھ عرصہ بعد وہ کانگریس سے دغا کر کے فیڈریشن کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ جب ان کا تقرر بطور وزیر کے ہوا تو وہ فیڈریشن کے ممبر بھی نہ رہے۔ میں جانتا ہوں کہ مشرقی بنگال کے ہندو مجھ سے متفق ہوں گے کہ وہ ازروئے جد، کردار اور کسب فہم براری عہدہ وزارت رکھنے کی شرائط پر پورا نہیں اترتے، جیسا کہ دہلی سمجھوتہ میں مقصود کیا گیا ہے۔

(26)میں نے اس منصب کے لئے مسٹر نورالامین کو تین نام تجویز کئے۔ ایک شخص جس کا نام میں نے تجویز کیا، ڈھاکہ ہائی کورٹ کا ایم اے، ایل ایل بی وکیل تھا۔ وہ بنگال میں فضل الحق کی پہلی وزارت میں چار سال سے زائدعرصہ وزیر رہ چکا تھا۔ وہ تقریباً چھ سال تک کوئلہ کان ذخیرہ بورڈ کلکتہ (coal Mines stowing Board) کا چیئرمین رہا۔ وہ اچھوت ذات فیڈریشن کا سنیئرنائب صدر تھا۔ میرا دوسرا نامزد ایک بی اے، ایل ایل بی تھا۔ وہ قبل از اصلاحات دور حکومت میں قانون ساز کونسل کا سات سال تک ممبر رہا۔ میں جاننا چاہوں گا کہ مسٹر نورالامین کے لئے ایسی وہ کونسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی منتخب نہ کیا اور ان کی بجائے ایک ایسے شخص کو مقرر کیا جس کی بطور وزیر تقرری کی میں نے بہت مناسب سوچ بچار کی بنا پر بڑی شدت سے مخالفت کی تھی۔ بغیر کسی مخالفت کے خوف کے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مسٹر نورالامین کا براری کو دہلی سمجھوتہ کی بنیاد پر بطور وزیر منتخب کرنے کا فعل، قطعی ثبوت تھا کہ حکومت مشرقی بنگال دہلی سمجھوتہ کی شرائط کے بارے میں اپنے عہد پر سنجیدہ ہے اور نہ ہی مخلص، جس کا بنیادی مقصد ایسے حالات بہم پہنچانا تھا جو ہندوﺅں کو ان کی زندگی، جائیداد، عزت اور مذہب کے تحفظ کے احساس کے ساتھ مشرقی بنگال میں اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے قابل بنائیں۔

ہندوﺅں کو کچلنے کا حکومتی منصوبہ:

(27)اس سلسلے میں میں اپنے یقین محکم کی یاد دہانی کروانا چاہوں گا کہ حکومت مشرقی بنگال کے ہندوﺅں کو صوبے سے نکال باہر کرنے کی سوچی سمجھی پالیسی پر ابھی بھی عمل پیرا تھی۔ آپ کے ساتھ میری گفتگو میں ایک سے زیادہ مرتبہ میں نے اپنے اس نقطہ نظر کا اظہار کیا۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہندوﺅں کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کی یہ پالیسی مغربی پاکستان میں مکمل طور پر کامیاب ہوچکی ہے اور مشرقی پاکستان میں بھی تکمیل کے قریب ہے ڈی این براری کا بطور وزیر تقرر اور حکومت مشرقی بنگال کا اس سلسلے میں میری سفارشات پر غیر رسمی اعتراض صحیح معنوں میں اس نام سے مطابقت رکھتا ہے جسے یہ اسلامی ریاست کہتے ہیں۔ پاکستان ہندوﺅں کو کامل طمانیت وتحفظ کا مکمل احساس بہم نہیں پہنچا سکا۔ یہ اب ہندو دانشوروں سے نجات چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کسی بھی طرح ان سے متاثر نہ ہو سکے۔

مخلوط طرز انتخاب کو سردخانے میں ڈالنے کی حیلہ جو چالیں:

(28) میں یہ سمجھنے میں ناکام ہوچکا ہوں کہ طرز انتخاب کے سلسلہ کا ابھی تک فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا۔ اقلیتوں کی ذیلی کمیٹی کا تقرر کئے اب تین سال ہوگئے ہیں۔ مخلوط یا جداگانہ طرز انتخاب کا سوال گذشتہ دسمبر میں منعقدہ ایک کمیٹی کی میٹنگ میں غوروخوص کے لئے پیش ہوا، جب پاکستان کی مسلمہ اقلیتوں کے تمام نمائندگان نے مخلوط طرز انتخاب کے ساتھ پسماندہ اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کی حمایت کا اظہار کیا۔ ہم نے اچھوت ذاتوں کی جانب سے مخلوط طرز انتخاب کے ساتھ اچھوت ذاتوں کے لئے مخصوص نشستوں کا مطالبہ کیا۔ یہ معاملہ دوبارہ گذشتہ اگست میں منعقدہ ایک میٹنگ میں غور و خوض کے لئے پیش ہوا۔ اس معاملہ پر بغیر مباحثہ کئے میٹنگ غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ پاکستانی حکمرانوں  کی طرف سے ایسے اہم معاملے پر ایسی مائل بہ گریز قسم کی چالیں چلنے کے پیچھے کیا محرک ہے۔

ہندوﺅں کے لئے تاریک مستقبل:

(29)اب آئیے موجودہ صورتحال اور مشرقی بنگال میں دہلی سمجھوتہ کے نتیجہ میں بننے والے ہندوﺅں کے مستقبل کی جانب، مجھے کہنا چاہئے کہ موجودہ صورتحال نہ صرف غیر اطمینان بخش ہے بلکہ قطعاً مایوسانہ ہے اور یہ کہ مستقبل مکمل طور پر تاریک اور ہولناک ہے۔ مشرقی بنگال میں ہندوﺅں کا اعتماد ذرا سا بھی بحال نہیں ہوا۔ حکومت مشرقی بنگال اور مسلم لیگ نے یکساں طور پر معاہدہ کے ساتھ محض ردی کے کاغذ کا برتاﺅ کیا ہے۔ خاص بڑی تعداد میں ہندو تارکین وطن، زیادہ تر اچھوت ذات کاشت کارروں کی مشرقی بنگال میں واپسی اس بات کی علامت نہیں کہ اعتماد بحال ہوچکا۔ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا قیام اور بحالی مغربی بنگال یا انڈین یونین میں کہیں اور ممکن نہیں۔ پناہ گزین زندگی کی صعوبتیں انہیں اپنے گھروں کو لوٹنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر منقولہ اشیا اٹھانے اور غیر منقولہ جائیداد کو نبیڑنے یا بیچنے کے لئے لوٹ رہے ہیں۔ مشرقی بنگال میں اگر حالیہ کوئی سنگین فرقہ وارانہ فساد رونما نہیں ہوا تو اسے دہلی سمجھوتہ سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی سمجھوتہ یا معاہدہ نہ بھی ہوا ہوتا تو بھی یہ بالکل جاری نہیں رہتا۔

(30)یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ دہلی معاہدہ فی نفسہ ماحصل نہیں تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان متعدد تنازعات اور کشمکش کے حل میں موثر طور پر معاون ہوسکیں۔ لیکن سمجھوتے کے بعد چھ ماہ کے اس عرصہ کے دوران کوئی تنازع یا کشمکش حقیقتاً حل نہیں ہوسکی۔ اس کے برعکس پاکستان کی طرف سے اندرون اور بیرون ملک فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ اور ہندوستان دشمن پروپیگنڈہ زور وشور سے جاری ہے۔ مسلم لیگ کی طرف سے پاکستان بھر میں یوم کشمیر منانا پاکستانی فرقہ وارانہ ہند دشمن (Anti India)پروپیگنڈہ کا واضح ثبوت ہے۔ گورنر پنجاب (پاک) کا حالیہ تقریر میں یہ کہنا کہ پاکستان کو ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ کے لئے ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے، نے پاکستان کے انڈیا کی طرف حقیقی رویے کا بھانڈا پھوڑ ڈالا ہے۔ یہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تناﺅ بڑھائے گا۔

مشرقی بنگال میں آج کیا ہو رہا ہے:

(31) مشرقی بنگال میں آج کیا حالات ہیں؟ دیش کے بٹوارے سے اب تک تقریباً پچاس لاکھ ہندو چھوڑ چھاڑ کر جا چکے ہیں۔ گذشتہ فروری کے فسادات کے علاوہ ہندوﺅں کی وسیع پیمانے پر نقل مکانی کی کئی اور وجوہات ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے ہندو وکلا، طبیبوں، دکانداروں، تاجروں اور بیوپاریوں کے بائیکاٹ نے ہندوﺅں کو اپنے ذریعہ معاش کی تلاش کے لئے مغربی بنگال کی جانب نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ہندو مکانات پر بڑی تعداد میں قبضہ وہ بھی بغیر کسی قانونی طریقے پر عمل کئے اور مالکان کو کرایہ کی عدم ادائیگی، جو بھی کہہ لیں، نے انہیں ہندوستانی پناہ ڈھونڈنے پر مجبور کیا۔ ہندو مالکان کو کرایہ کی ادائیگی بہت پہلے ہی بند ہوچکی تھی مزید برآں انصار جن کے خلاف مجھے ہر طرف سے شکایات موصول ہوئیں، ہندوﺅں کے تحفظ اور سکیورٹی کے لئے دائمی خطرہ تھے۔ تعلیمی معاملات اور تعلیمی اتھارٹی کے اختیار کردہ طریقہ ہائے کار سے استنباط نے سیکنڈری سکولوں اور کالجوں کے تدریسی عملہ کو اپنے پرانے شناسا گردوپیش سے باہر نکلنے کے تصور نے خوفزدہ کر دیا۔ وہ مشرقی بنگال چھوڑ گئے۔ اس کے نتیجہ میں زیادہ تر تعلیمی ادارے بند ہو گئے۔

مجھے یہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ کچھ عرصہ پہلے تعلیمی مقتدرہ نے سیکنڈری سکولوں میں تمام اساتذہ اور طلباء کے لئے سکول کا کام شروع ہونے سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت میں لازمی شرکت کے حکم نامہ کا مراسلہ جاری کیا تھا۔ ایک اور مراسلہ سکول ہیڈ ماسٹروں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بلڈنگ کے مختلف حصوں(Blacks)کو بارہ ممتاز مسلمانوں کی توقیر میں، جیسے کہ جناح، اقبال، لیاقت علی اور ناظم الدین وغیرہ کے نام سے پکاریں۔ ڈھاکہ میں ابھی پچھلے دنوں منعقدہ تعلیمی کانفرنس میں، صدر نے یہ منکشف کیا کہ مشرقی بنگال میں پندرہ سو(1500)انگلش ہائی سکولوں میں سے صرف پانچ سو (500) کام کر رہے ہیں۔

طبی معالجین کی نقل مکانی کے سبب، بمشکل ہی مریضوں کے مناسب علاج کا کوئی طریقہ رہ گیا ہے۔ تقریباً تمام پنڈت جو ہندو گھروں میں گھریلو دیوتاﺅں (Household Deities) کی پوجا کیا کرتے تھے چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ پوجا کے اہم استھان تج دئیے گئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مشرقی بنگال کے ہندوﺅں کے پاس بمشکل ہی وہ اسباب ہیں جن سے وہ اپنے مذہبی فرائض اور شعائر کی پیروی اور سماجی تقریبات کی بجا آوری کرسکیں، جیسا کہ شادی جہاں پنڈت کی خدمات ضروری ہیں۔ صناع جو دیوی دیوتاﺅں کے بت بناتے تھے بھی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ یونین بورڈز کے ہندو صدور کا مقام جبری اقدامات کے ساتھ ساتھ پولیس اور سرکل آفیسرز کی عملی مدد اور چشم پوشی کے ذریعے مسلمانوں کو دے دیا گیا ہے۔ سکولوں کے ہندو ہیڈماسٹروں اور سیکرٹریوں کی جگہ مسلمانوں کو دی جا چکی ہے۔ چند ہندوسرکاری ملازمین کی زندگی اس درجہ بدحال بنا دی گئی ہے کہ ان میں سے بہت سوں کو یا تو ان کے مسلمان جونیئرز نے کچلا ہوا ہے یا پھر بغیر کسی مناسب یا کسی بھی وجہ کے ملازمت سے برطرف کیا جاچکا ہے۔ ابھی حال ہی میں چٹاگانگ کے ایک ہندو پبلک پراسیکیوٹر کو آمرانہ طو رپر ملازمت سے ہٹادیا گیا ہے جیسا کہ سری جکتا نیلائی سین گپتا (Srijukta Nellie Sengupta) کے دیے گئے بیان سے واضح ہوچکا ہے جن کے خلاف مسلم دشمنی ، تنگ نظری، تعصب یا بغض کا کوئی الزام نہیں۔

ہندو درحقیقت راندہ درگاہ:

 (32) چوریوں اور ڈکیتیوں کا حتیٰ کہ قتل کا ارتکاب پہلے کی طرح جاری تھا۔ ہندوﺅں کی طرف سے کی گئی آدھی شکایات کا اندراج بھی تھانوں میں شاید ہی کیا گیا۔ الغرض ہندو لڑکیوں کے اغوا اور ریپ کو اس درجہ گھٹا دیا جاتا، جس کی واحد وجہ یہ لگتی کہ مشرقی بنگال میں آج کل بارہ سے تیس سال کی ہندو جاتی کی کوئی لڑکی نہیں رہتی۔ دیہاتی علاقوں میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے والی نچلے طبقے کی لڑکیوں کو بھی مسلمان غنڈوں نے نہیں بخشا۔ مجھے مسلمانوں کے اچھوت ذات لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے متعدد واقعات کی اطلاعات مل چکی ہیں۔ منڈی میں ہندوﺅں کی فروخت کردہ پٹ سن اور دیگر زرعی اجناس کی قیمت کی مکمل ادائیگی مسلمان خریدار شاذونادر ہی کرتے ہیں۔ درحقیقت جہاں تک ہندوﺅں کا تعلق ہے، پاکستان میں قانون، انصاف اور عدل کی عمل داری نہیں۔

مغربی پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب:

(33)مشرقی پاکستان کے مسئلہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اب مجھے مغربی پاکستان خاص طور پر سندھ کا حوالہ دینے دیجئے۔ بٹوارے کے بعد مغربی پنجاب میں تقریباً ایک لاکھ اچھوت ذات لوگ تھے۔ شاید یہ نوٹ کیا گیا ہو کہ ان کی خاصی بڑی تعداد کو اسلام قبول کرا لیا گیا۔ صاحبان اقتدار کو بار بار کی عذرداشت (Petitions)  کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی اغواء کردہ ایک درجن اچھوت ذات لڑکیوں میں سے صرف چار کو بازیاب کرایا جا سکا ہے۔ ان لڑکیوں کے ناموں کے ساتھ ان کے اغوا کنندگان کے نام بھی حکومت کو دیے جاچکے ہیں۔ مغویان لڑکیوں کی بازیابی کے انچارج افیسر کی طرف سے دیے گئے حالیہ آخری جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ”اس کا کام ہندو لڑکیوں کی بازیابی تھا اور”اچھوت“ (Scheduled Castes)ہندو نہیں۔“ ہندوﺅں کی محدود تعداد کی حالت زار جو ابھی تک سندھ اور کراچی، پاکستان کے درالخلافہ میں رہ رہی ہے، انتہائی تاسف انگیز ہے۔ مجھے کراچی اور سندھ کے 363 ایسے ہندو مندروں اور گردواروں کی ایک فہرست (جوہرگز مکمل نہیں ہے) موصول ہو چکی ہے جو ابھی تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں۔ کچھ سندر چمارکی دوکانوں، مذبح خانوں اور ہوٹلوں میں تبدیل کئے جا چکے ہیں۔ کسی ہندو کو واپس نہیں ملے۔ ان کی ارضی املاک کا قبضہ بغیر کسی نوٹس کے ان سے چھین کر مہاجر اور مقامی مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ دو سو سے تین سو ہندوﺅں کو تحویل داروں نے کچھ عرصہ پہلے ہی غیر تارک وطن قرار دے دیا تھا۔ لیکن تاحال ان میں سے کسی کو بھی جائیدادیں واپس نہیں کی گئیں۔ حتیٰ کہ کراچی پنجرپول (Pinjivpale) کا قبضہ اس کے متولیوں (Trustees) کو واپس نہیں کیا گیا۔ ہر چند کہ اسے کچھ عرصہ پہلے غیر تارکِ وطن پراپرٹی قرار دیا گیا تھا۔ کراچی میں مجھے بہت سے بدقسمت ہندو باپوں اور خاوندوں کی طرف سے ہندو لڑکیوں زیادہ تر اچھوت ذاتوں کے اغوا کی عرضیاں موصول ہوئیں۔ میں نے صوبائی حکومت سندھ کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی۔ لیکن نتیجہ کچھ نہیں یا بہت کم تھا۔ میں نے انتہائی دکھ کے ساتھ یہ اطلاعات موصول کیں کہ اچھوت ذاتوں کی ایک خاصی بڑی تعداد جو ابھی تک سندھ میں رہائش پذیر ہے کو جبراً مسلمان بنا لیا گیا ہے۔

پاکستان ہندوﺅں کے لئے نحوست زدہ:

(34)جہاں تک ہندوﺅں کا معاملہ ہے، پاکستان کی عمومی تصویر کی اب تلخیص کرتے ہوئے، میں یہ کہنے میں غلط نہیں ہوں گا کہ پاکستان کے ہندوﺅں کو ان کے اپنے گھروں میں تمام مضمرات کے ساتھ بے وطن(Stateless)کردیا گیا ہے۔ ان کا اس کے علاوہ اور کوئی قصور نہیں کہ وہ ہندو مذہب کے پیروکار ہیں۔ مسلم لیگی قائدین کی طرف سے بار بار ایسے اعلانات کرنا کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے اور ہوگی۔ اسلام کو تمام دنیوی برائیوں کے لئے بطور اکسیر علاج  کے تجویز کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری اور سوشلزم کی بے موازنہ جدلیات میں، آپ نشاط آور اسلامی مساوات اور بھائی چارے کا جمہوری امتزاج پیش کرتے ہیں۔ شریعت کے اس پرشکوہ بندوبست میں، مسلمان اکیلے ہی حکمران ہوں گے جبکہ ہندو اور دوسری اقلیتیں ذمی، جو کہ قیمتاً تحفظ کی حقدار ہوں گی، اور جناب وزیراعظم آپ دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں کہ وہ قیمت کیا ہے۔ ایک متوحش اور طویل جدوجہد کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان ہندوﺅں کے رہنے کی جگہ نہیں اور یہ کہ ان کا مستقبل تبدیلی مذہب اور کاروبار کی بیخ کنی کی پرچھائیوں سے تاریک ہوچکا ہے۔ اعلیٰ طبقہ کے ہندوﺅں اور سیاسی طو رپر باشعور اچھوت ذاتوں کی بڑی تعداد مشرقی بنگال چھوڑ کر جا چکی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ ہندو جو پاکستان میں مطعون ٹھہرائے جاتے رہیں گے تو تدریجی مراحل اور منصوبہ بند طریقوں سے یا تو مسلمان کر لیا جائے گا یا مکمل طور پر نابود، یہ واقعی حیران کن ہے کہ آپ جیسا تعلیم یافتہ اور تجربہ کار انسان ایک ایسے نظریہ کا شارح بن چکا ہے جو انسانیت کے لئے بہت بڑے خطرے سے معمور اور مساوات اور فہم عامہ کو پائمال کرنے والا ہے۔ میں شاید آپ اور آپ کے رفقائے کار کو بتا سکوں کہ چاہے جو بھی برتاﺅ یا بہکاوا ہو، ہندو خود کو پیش نہیں کریں گے کہ ان کی جنم بھومی میں ان کے ساتھ ذمیوں کا سا سلوک روارکھا جائے۔ آج وہ شاید، جیسا کہ یقینا ان میں سے بہت سے پہلے ہی کر چکے، غم لیکن درحقیقت خوف میں اپنا گھر بار ترک کردیں۔ کل وہ زندگی کی اقتصادیات میں اپنی صحیح جگہ کے لئے جدوجہد کریں گے۔ کون جانتا ہے کہ آنے والے پل کی پیش گوئی کیا ہے؟ جب میں قائل ہوگیا کہ پاکستان کی مرکزی حکومت میں میرے اقتدار کا تسلسل ہندوﺅں کے لئے کسی طور معاون نہیں، پاکستان کے ہندوﺅں اور غیر ممالک کے عوام کے ذہنوں میں یہ غلط تاثر پیدا کرکے کہ ہندو یہاں اپنی زندگی، جائیداد اور مذہب کے حوالے سے عزت اور احساس تحفظ کے ساتھ رہ سکتے ہیں، میں اپنا ضمیر مطمئن نہیں رکھ سکتا۔ یہ رہا ہندوﺅں کے بارے میں۔

مسلمانوں کے لئے بھی کوئی شہری آزادی نہیں:

(35) اور ان مسلمانوں بارے میں کیا کہوں جو مسلم لیگ حکمرانوں اور ان کی کرپٹ اور نااہل بیوروکریسی کے دلکش حلقے سے باہر ہیں۔ پاکستان میں ایسی کوئی شے مشکل سے ہی ہے جسے شہری آزادی کہا جا سکے۔ مثال کے طور پر، خان عبدالغفار خان، جس سے زیادہ پارسا کسی مسلمان نے کئی برسوں سے اس زمین پر قدم نہیں رکھا اور ان کے جواں مرد محب وطن بھائی ڈاکٹر خان صاحب کا مقدر، قبل ازیں پاکستان کی شمال مغربی اور مشرقی پٹی کے لیگی لیڈران کی ایک بڑی تعداد کو بھی بغیر کسی مقدمہ کے حراست میں رکھا گیا۔ حسین شہید سہروردی جو بنگال میں لیگ کی بڑے پیمانے پر فتح کے حقدار ہیں، عملی طور پر پاکستانی قیدی ہیں، جنہیں اجازت سے نقل وحرکت کرنی پڑتی ہے اور احکامات کے تابع لب کشائی۔ مسٹر فضل الحق جن کی بنگال کے بڑے بوڑھے کے طور پر دل وجان سے تکریم کی جاتی ہے، جو اس وقت مشہور قرار داد لاہور کے مصنف ہیں، نظام عدل کے ڈھاکہ ہائی کورٹ کی حدود میں اپنی تنہا لائن Furrow میں ہل چلا رہے ہیں اور نام نہاد اسلامی منصوبہ بندی اتنی ہی بے رحم ہے جتنی کہ کامل مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے بارے عمومی طور پر جتنا کم کہا جائے اتنا بہتر ہے ان کے ساتھ آزاد ریاست کی خود مختار ومقتدر اکائیوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس انہیں ملا کیا؟ مشرقی بنگال پاکستان کے مغربی حصے کی کالونی میں بدل گیا، حالانکہ اس کی مشمولہ آبادی پاکستان کے تمام یونٹوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ تھی۔ یہ کراچی کا ایک کمزور وغیر موثر ماتحت تھا جو آخر الذکر کے ارشادات کی تعمیل اور احکامات کی بجا آوری کررہا تھا۔ مشرقی بنگال کے مسلمان اپنی ولولہ انگیزی میں، رزق چاہتے تھے اس کے برعکس انہیں اسلامی ریاست اور شریعت کے پراسرار عمل سے سندھ اور پنجاب کے بنجر ریگستانوں سے پتھر ملے۔

میرا اپنا المناک اور تلخ تجربہ:

(36) پاکستان کی عمومی حالت زار اور دوسروں کے ساتھ روا رکھی گئی بہیمانہ و ظالمانہ ناانصافی کو ایک طرف رکھتے ہوئے، میرا اپنا تجربہ کم افسوسناک، تلخ اور قابل دید نہیں۔ آپ نے وزیراعظم اور پارلیمانی پارٹی کے قائد کی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے مجھے ایک بیان جاری کرنے کو کہا، جو میں نے گذشتہ 8 ستمبر کو کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ میں غلط بیانیوں اور آدھی سچائیوں پر مشتمل کوئی بیان جاری کرنے پر رضامند نہ تھا، جو کہ غلط بیانیوں سے زیادہ بدتر تھے۔ میرے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ میں آپ کی درخواست رد کرتا جب تک کہ میں آپ کے ساتھ، آپ کی قیادت میں بطور وزیر کام کررہا تھا۔ لیکن میں مزید اپنے ضمیر پر جھوٹے ڈھونگ اور غلط بیانی کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ اور میں نے آپ کی وزارت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو میں یہیں آپ کے حوالے کر رہا ہوں، مجھے اُمید ہے آپ بغیر کسی تاخیر کے منظور کر لیں گے۔ یقینا آپ اس منصب کو اُس طرح جیسے آپ اپنی اسلامی ریاست کے مقاصد کے لئے مناسب اور مؤثر طور پر موزوں ہو، تقسیم یا ختم کرنے کے مجاز ہیں۔

آپ کا مخلص

جے این منڈل

8 اکتوبر 1950

پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

جوگندر ناتھ منڈل کے استعفیٰ کے انگریزی متن کا اردو ترجمہ “ہم سب” کے موقر ساتھی عابد محمود نے کیا ہے۔ انگریزی متن ذیل کے لنک پر دستیاب ہے

https://en.wikisource.org/wiki/Resignation_letter_of_Jogendra_Nath_Mandal


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).