برازیل کا سیاسی بحران …. صدر معطل


\"edit\"جمعہ کے روز پاناما لیکس پر وزیراعظم قومی اسمبلی میں وضاحتی بیان دیں گے تو اپوزیشن کا رویہ ملک میں مستقبل کے سیاسی حالات کا تعین کرے گا۔ اس دوران آج صبح برازیل میں سینیٹ نے ملک کی منتخب صدر ڈیلما روسیف کو معطل کرنے اور ان کا مواخذہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹ کے 81 ارکان میں سے 22 نے صدر کا مواخذہ کرنے کی تجویز کی مخالفت کی جبکہ 55 نے اس کی حمایت میں ووٹ دیا۔ اس طرح پاکستان جتنی آبادی کے ہی ایک دور دراز ملک میں سیاسی مقاصد کے لئے نہ صرف صدر کو علیحدہ کر دیا گیا بلکہ مواخذہ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ان سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلہ کے بعد ملک کے نائب صدر مائیکل ٹیمر نے عبوری صدر کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ سیاسی مبصرین کو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ معزول صدر روسیف اپنے عہدے پر بحال نہیں ہوسکیں گی کیونکہ ملک کی 81 رکنی سینیٹ میں ان کے مخالفین کو آسانی سے دو تہائی اکثریت حاصل ہے جو مواخذہ کی تحریک منظور کرنے کے لئے ضروری ہے۔

اس کے باوجود قانون کا تقاضہ پورا کرنے اور آئین کے مطابق ملک کی پہلی خاتون صدر کو عہدے سے علیحدہ کرنے کے لئے مواخذہ کی کارروائی شروع کی گئی ہے۔ یہ سیاسی اقدام ملک میں طویل اقتصادی بحران ، بیروزگاری ، بدنظمی اور سب سے بڑھ کر کساد بازاری کی وجہ سے سامنے آیا ہے۔ ملک کا امیر اور بااثر طبقہ ملکی معاشی صورتحال سے مطمئن نہیں ہے۔ اقتصادی ماہرین کا بھی خیال ہے کہ برازیل کو متعدد سماجی فوائد میں کمی کرنا ہو گی تا کہ ملک کے بجٹ کا خسارہ پورا کیا جا سکے اور معیشت کو صحت مند بنیادوں پر استوار کیا جا سکے۔ تاہم یہ کام آسان نہیں ہو گا۔ اگرچہ صدر ڈیلما روسیف اس وقت ملک کے لوگوں میں خاص مقبول نہیں ہیں اور سینیٹ میں بھی ان کے مخالفین قابل ذکر سیاسی قوت کا مظاہرہ کر چکے ہیں لیکن اس دوران ڈیلما روسیف اپنی سیاسی بقا کے لئے اپنے حامیوں کو مشتعل کر کے ملک میں ایسے حالات پیدا کر سکتی ہیں جو سیاسی اور معاشی بحران کو شدید کر سکتے ہیں۔ آج سینیٹ کے فیصلہ کے بعد صدارتی محل کے باہر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اس فیصلہ کو نہیں مانتیں کیونکہ یہ ملک کی منتخب صدر کے خلاف ”بغاوت“ کے مترادف ہے۔ ماضی میں ملک کی فوجی حکومت اور اس دور میں اپنی سیاسی جدوجہد کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ مجھے ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا کہ زندگی میں ایک بار پھر جمہوریت کو بچانے کے لئے جمہوریت کے نام پر قائم اداروں کے خلاف برسر پیکار ہونا پڑے گا۔

ان باتوں سے معزول صدر ڈیلما روسیف کے عزم اور سیاسی حوصلے کا تو پتہ چلتا ہے لیکن یہ بیان ملک میں سیاسی تقسیم اور انتشار کی خبر بھی دے رہا ہے۔ ڈیلما روسیف ملک کی بائیں بازو کی تحریک سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کی ورکرز پارٹی نے لوگوں کو فلاحی سہولتیں دینے اور معاشرے میں انصاف کی فراہمی کے لئے گزشتہ پندرہ برس میں متعدد اقدام کئے ہیں۔ لیکن بڑی آبادی کے ملک میں مکمل معاشی بحالی سے پہلے ہی کساد بازاری کا دور شروع ہو گیا۔ اگرچہ ڈیلما روسیف ماہر معاشیات ہیں اور وہ ملک کی آئل کمپنی پیٹرو براس PETRO BRAS کی کئی برس تک سربراہ بھی رہی ہیں لیکن وہ ایک اچھی منتظم ثابت نہیں ہو سکیں۔2011 میں ملک کی صدر بننے سے پہلے ان کے دور میں پیٹرو براس میں بدعنوانی کے کئی معاملات سامنے آئے تھے اور خطیر کمیشن وصول کرنے کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ اگرچہ ڈیلما روسیف پر براہ راست مالی بدعنوانی کا الزام عائد نہیں ہوا تھا لیکن یہ سارا کام ان کے زیر انتظام ادارے میں ہوتا رہا تھا۔ اس لئے ان کی شہرت بھی ان اسکینڈلز کی وجہ سے داغدار ہوئی تھی۔ پھر بھی وہ 2011 میں بھاری اکثریت سے ملک کی پہلی خاتون صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔

تاہم وہ یہ مقبولیت برقرار نہ رکھ سکیں ۔ ایک طرف ان کے ووٹرز اور حامی زیادہ سہولتوں اور بہتر حالات کار کی توقع کر رہے تھے تو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے طاقتور گروہ صدر ڈیلما روسیف کی سوشلسٹ پالیسیوں سے عاجز تھے اور ہر مرحلے پر ان کے لئے رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے۔ 2015 کے انتخاب سے پہلے روسیف کی مقبولیت میں قابل ذکر کمی آ چکی تھی۔ اب ان پر جو الزامات عائد کئے گئے ہیں، ان کا تعلق بھی 2014 میں پیش کئے گئے بجٹ سے ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اعداد و شمار کا ہیر پھیر کر کے اور بینکوں سے قرض لے کر بجٹ کے خسارے کو محدود دکھایا اور یہ ظاہر کیا کہ ملک کی معاشی حالت بہت بہتر ہے۔ اس الزام کے تحت یہ کام 2015 کا انتخاب جیتنے کے لئے فراخدلی سے سرکاری فنڈز صرف کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ انہوں نے 2015 کا انتخاب بصد مشکل جیت لیا تھا لیکن اب ان پر یہ انتخاب جیتنے کے لئے بجٹ میں جعل سازی کا الزام لگا کر مواخذہ کرنے کی تجویز منظور کی گئی ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ سینیٹ میں ان کے مخالف ارکان نے ڈیلما روسیف کو برطرف کرنے کے لئے محض عذر تراشا ہے۔ برازیلی سیاست کے ماہر مڈل سیکس یونیورسٹی، برطانیہ کے پروفیسر فرانسیزو ڈمینگنر کا کہنا ہے کہ یہی ارکان ماضی میں مختلف حکومتوں کے ادوار میں بجٹ میں ایسے ہیر پھیر کا خود حصہ بنتے رہے ہیں اور اس قسم کے جعلی اعداد و شمار سے سجائے گئے بجٹ منظور کرتے رہے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ ڈیلما روسییف نے یہ اقدام کر کے کوئی قانون شکنی کی ہے، صریحاً جھوٹ اور غلط بیانی ہے۔ تاہم مخالفین کو چونکہ اس وقت سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے اس لئے صدر ڈیلما روسیف اپنے موقف میں حق بجانب ہونے کے باوجود عہدہ برقرار نہیں رکھ سکیں گی۔

صدر ڈیلما روسیف کے خلاف مواخذہ کی کارروائی کا آغاز برازیل کے ایوان زیریں کانگریس میں گزشتہ برس دسمبر میں کیا گیا تھا۔ طویل آئینی مراحل سے گزرتے ہوئے یہ تجویز سینیٹ میں بحث کے لئے پہنچی۔ بدھ سے لے کر جمعرات کی صبح تک 81 رکنی سینیٹ نے اس تجویز پر 20 گھنٹے تک بحث کی۔ اس بحث میں 71 ارکان نے حصہ لیا اور اکثر نے مقررہ دس منٹ کی پروا کئے بغیر مخالفت یا حمایت میں تقریروں کا سلسلہ جاری رکھا۔ مواخذہ کی تحریک پر بحث کا آغاز ہونے سے پہلے منگل کو ملک کے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے اس تحریک کو روکنے کی استدعا کی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس جمہوری اور پارلیمانی عمل میں رکاوٹ ڈالنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد سینیٹرز کے لئے کارروائی مکمل کرنا آسان ہو گیا تھا۔ جمعرات کی صبح ہونے والی ووٹنگ میں 55 ارکان نے اس کی حمایت میں جبکہ 22 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 4 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

طریقہ کار کے مطابق صدر ڈیلما روسیف کو معطل کر کے نائب صدر کو عبوری صدر بنا دیا گیا ہے۔ روسیف کے ساتھ ہی ان کی کابینہ بھی مستعفی ہو گئی ہے۔ نئے صدر مائیکل ٹریمر نے نئی کابینہ بنانی شروع کر دی ہے اور معطل صدر کی پالیسیوں کو فوری طور سے تبدیل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس دوران سینیٹ کی ایک خصوصی کمیٹی معطل صدر کے خلاف چارج شیٹ تیار کرے گی۔ ڈیلما روسیف کو ان الزامات کا جواب دینے کے لئے 20 روز کا وقت دیا جائے گا۔ اس کے بعد کمیٹی اس تحریک پر رائے دے گی۔ اکثریتی ارکان نے اگر ڈیلما روسیف کا موقف مسترد کر کے تحریک سینیٹ میں بھیج دی تو سینیٹ دو تہائی اکثریت سے مواخذہ کی تحریک منظور کر کے انہیں صدر کے عہدے سے برطرف کر سکتی ہے۔ مخالفین نے آج ڈیلما روسیف کے خلاف اپنی عددی قوت کا مظاہرہ کر دیا ہے، اس لئے مبصرین کو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مواخذہ کی تحریک منظور ہو جائے گی۔ 1990 میں ملک کے نئے جمہوری آئین کے تحت منتخب ہونے والے صدر فرنانڈو کولر کو بھی 1992 میں اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان پر بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے تھے لیکن انہوں نے مواخذہ کی کارروائی کا سامنا کرنے کی بجائے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ آنے والے دنوں میں ڈیلما روسیف بھی یہ فیصلہ کر سکتی ہیں تا کہ انہیں مزید سیاسی ہزیمت اور ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن اس صورت میں وہ 8 سال کے لئے کسی بھی سیاسی عہدہ کے لئے نااہل ہو جائیں گی۔

برازیل میں سیاسی کشمکش سے پاکستان کے سیاستدان بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ نہ تو وزیراعظم نواز شریف ، ڈیلما روسیف کی طرح کمزور ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کو ایوان میں عددی برتری حاصل ہے۔ اس کے باوجود ملک ایک سیاسی طوفان کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں الزام تراشی سے گریز کر کے کوئی ایسا راستہ ضرور نکالا جا سکتا ہے کہ جمہوریت بھی کام کرتی رہے اور بدعنوانی کے حوالے سے ادارے اور قوانین بھی مضبوط کئے جائیں۔ تاہم اس مقصد کے لئے سیاستدانوں کو پارٹی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali