گھبرو اور دلیر پنجاب


یہ پنجاب ہی تھا جسے ایک طویل عرصے تک چھوٹے صوبے جابرانہ ایسٹبلیشمینٹ کے ساتھی اور سیاسی سپورٹر ہونے کا طعنہ دیتے رھے بلکہ شیخ مجیبُ الرحمٰن کو یہاں کی سڑکوں سے پٹ سن کی بُو تک آنے لگی تھی، لیکن وقت کبھی کبھی ایک سفاکانہ بے رحمی کے ساتھ نہ صرف آنکھیں پھیر لیتا ہے بلکہ ماضی کے ساتھ تمام رشتے ناطے توڑ بھی دیتا ہے، اور وقت کا وہ خود سر ”گھبرو“ اِس وقت پنجاب کے میدانوں میں سینہ تانے اور گریبان کھولے ایک شانِ بے نیازی کے ساتھ پھر رہا ہے۔

اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب اپنے قدیم نفسیاتی اور سماجی استعارے گھبرو کی مجسّم تصویر بنا ہوا ہے۔ بس اتنا ہوا کہ اب کے بار یہ گھبرو ( پنجاب ) اپنی توہین برداشت نہ کر سکا اور اپنے گریبان کو پرچم بنا ڈالا پھر کون سا حرصِ کرم اور کہاں کا خوفِ خمیازہ۔

یہ 13 جولائی کی سانس روکتی ہوئی شام تھی کہ ایک جہاز لندن سے اُڑتا ہوا لاہور ائیر پورٹ پر اُترتا ہے جس سے معزول کیا گیا اور سزا یافتہ سابق وزیرِاعظم نواز شریف اپنی بیٹی سمیت اُترتا ہے اور ایک گھبرو لیکن باغیانہ بانکپن کے ساتھ جیل کی کال کوٹھڑی کی طرف بڑھتا ہے۔ اسی شام لاہور سے ایک پرانے دوست کا فون آیا تو اس کی آواز جذبات سے مغلوب اور معمول سے قدرے بلند ہے۔
حماد بھائی آپ پختون لوگ بہت غیرت مند ہو لیکن بات خواتین تک پہنچے تو ہم اس سلسلے میں آپ سے بھی کہین ذیادہ سرکش ہو جاتے ہیں (اشارہ مریم کی گرفتاری کی طرف تھا ) اس کی آواز بھر آئی اور لمحہ بھر کو خاموشی چھا گئی، میں ابھی تسّلی اور ہم دردی کے لئے الفاظ ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ اس کی آواز پھر سے گونجی کہ آج کریک ڈاؤن نہ ہوتا تو لاہور میں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ نکل آئے تھے۔ میں اپنے دوست کو تسّلی دینے کے لئے کہتا ہوں کہ کوئی بات نہیں بعض اوقات سیاسی فضا کی حدّت اور شدّت میں اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن رفتہ رفتہ تمام سٹیک ہولڈرز اپنی اپنی ذمہ داریوں اور حقائق کا اِدراک کر لیتے ہیں اس لئے اللّہ نے اچھا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور فون بند کر دیتا ہوں۔

لیکن اس وقت میرا مدعا سیاست پر لکھنا ہرگز نہیں کہ یہ جنگ کون جیتے گا اور بار کس کے حصّے میں آئے گی؟
یا ظلم کی فصیل پر کون ایستادہ ہے اور مظلومیت کے حصار میں کون ہے؟
بات بن جائے گی یا مزید بگڑ جائے گی؟

فی الحال میں سیاسی آلودگی سے دور رہ کر گھبرو پنجاب سے رومانس کر رہا ہوں کیونکہ ہم دیہاتی لوگوں کی اُٹھان ایک ایسی فضا میں ہوتی ہے جہاں مائیں دلیر بہادر اور گھبرو جوانوں کی کہانیاں سناکر بچوں کو سلا دیتی ہیں اور ان کہانیوں سے تخلیق ہوتے نفسیات زندگی بھر ہمارے ساتھ رہتے ہیں، سو میرے جیسے رومان پرست کے لئے اس وقت پنجاب ایک رومانی کہانی سے کم ہرگز نہیں اور کہانی یوں ہے کہ پنجابی نواز شریف جب جی ٹی روڈ پر نکلا تو اس نے کہا میں ڈرتا نہیں پھر واقعی اپنی بات ثابت بھی کر دی کیونکہ وہ بھاگا نہیں بلکہ پلٹ کر میدان کار زار کی طرف لوٹا۔ اب جیل کی کسی تاریک کوٹھڑی میں پڑا ہے لیکن پھر بھی ڈٹا ہوا ہے۔

بیٹی ایک باپ کی کمزوری ہوتی ہے لیکن دونوں باپ بیٹی مردانہ وار جیل کاٹ رہے ہیں۔ پارٹی رہنماء اور کارکن لمحہ بھر کو کسی کمزوری اور تذبذب کا شکار نہیں ہوئے اسی طرح ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ دلیر اور سر بلند۔ سترہ ہزار پارٹی کارکن قید خانوں میں پڑے ہیں لیکن بہادری اور گھبرو پن پر ہلکی سی خراش تک دکھائی نہیں دیتی۔

دُشمنوں تک سے خراج لیتا اور حریفوں سے داد سمیٹتا گھبرو اور دلیر پنجاب جس نے مشکل وقت میں اپنی پگ کو سنبھالا بھی اور اسے داغدار ہونے سے بچایا بھی۔
ایک شاعر تو ہمیشہ رومانویت کا متلاشی ہوتا ہے اور پنجاب اس وقت دلیر پن کے رومانویت کا ایک تابندہ استعارہ ہے۔

باوجود اس کے کہ میں ذاتی طور پر پختونوں کے قابلِ فخر حریت پسند روحانی رہنماء اور روشن فکر عالم دین مولانا محمّد طاھر پنج پیر(مرحوم ) کا چھوٹا بیٹا ہوں جنھوں نے انگریز دور میں قیدوبند کی نطویل صعوبتیں کاٹنے کے علاوہ اپنی جائیداد تک نیلام کروابیٹھا لیکن اس قابل فخر پسِ منظر کے باوجود بھی دل میں کبھی کبھی ایک خواہش سی جاگ اُٹھتی ہے ( گو کہ یہ خاندان کے دیگر افراد کی سیاسی سوچ اور رائے سے متضاد ہے ) کہ کاش میں ایک پنجابی ہوتا، اگرایک پختون لکھاری بھی یہ بات کر رہا ہے توابتلا اور آزمائش کے ناسازگار موسموں میں پنجاب واقعی ایک دلیر سیاسی تاریخ رقم کرتا ہوگا، جدوجہد اور بہادری سے بھر پور تاریخ۔ اور رھے مشکلات اور آزمائشوں سے بھر پور روزوشب تو اس سے گبھرانا کیا کہ یہ تو سیاسی منطقوں کے موسم ہیں جو بدلتے رھتے ہیں لیکن یہ کیا کم ہے کہ پنجاب کو ایک قابل فخر اور شاندار سیاسی جدوجہد کی تاریخ ہاتھ آ ر ہا ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).