جمہوری بازار اور ایف آئی آر


عام طور سے ہلکی پھلکی رہنے والی جیب آج اسے خاصی بھاری محسوس ہورہی تھی۔ اس خوشی اور غیر یقینی کی صورتحال میں اس نے جھٹ سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو مایوسی ہوئی۔ یہ بھار پیسوں کا نہیں تھا۔ وہ بھنا اٹھا۔ مدتوں بعد جیب بھاری ہوئی بھی تو ووٹ کے بھار سے ہوں! خیر کرنے کو کچھ نہ تھا۔ وہ مدتوں سے بیروزگار تھا تو لیا اپنا ووٹ ہاتھ میں اور نکل پڑا جمہوری بازار کے بھاؤ تاؤ معلوم کرنے۔ وہ پانچ سال بعد اس بازار میں آیا تھا۔ حالات مگر ویسے کے ویسے ہی تھے۔ وہی تنگ سا پرہجوم بازار۔ وہی بازار کے درمیان سے گزرتی ریل کی پٹڑی اور دونوں جانب قائم دکانیں۔ اسے پٹری پار کرنے میں ہمیشہ دشواری ہوتی تھی اور سوچتا تھا اے کاش یا تو بازار کہیں منتقل ہوجائے یا پھر پٹڑی۔

خیر ابھی وہ بازار میں داخل ہی ہوا تھا کہ ایک جگہ پرجوش ہجوم پایا۔ حیران کن طور پر اس ہجوم میں صرف مرد حضرات تھے اور زیادہ تر نے شلوار قمیض زیب تن کررکھی تھی۔ کاندھے پر رومال تھا، اور سر پر ٹوپی۔ بڑی مشکل سے اس نے ہجوم میں اپنے جگہ بنائی اور جو آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو معلوم ہوا۔ کشمیر کی آزادی، ملک میں اسلامی حکومت کا قیام، امریکا کی بربادی، فحاشی کا توڑ وغیرہ برائے فروخت ہیں۔ یہ شاید فضل الرحمان کا اسٹال تھا۔ فحاشی بند ہوگئی تو میرا کیا ہوگا؟ یہ خیال ذہن میں آتے ہی وہ کھسک لیا۔

ابھی اپنی سوچوں میں گم چند قدم ہی چلا تھا کہ ایک نوجون اور قدرے نسوانی آواز نے اس کی توجہ کھینچ لی، یہ شخص اردو بھی ڈھنگ سے بول نہیں پارہا تھا۔ جتنا وہ سن سکا۔ کوئی شخص عوام کو اپنے نانا اور ماں کے کارنامے گنوا رہا تھا۔ جمہوریت کے فروغ کا چورن، روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی چیزیں فراہم کرنے کا وعدہ کررہا تھا۔ ایک لمحے کو اس نے سوچا یہی میری ضرورت ہے کیوں نہ اپنا ووٹ یہیں دے دوں۔ ابھی وہ اس ہی کشمکش میں تھا کہ بازار میں بھگدڑ مچ گئی۔ گردو غبار کا ایک طوفان اٹھا۔ لوگ یہاں وہاں بھاگنے لگے وہ پٹری جو اسے برسوں سے سنسان محسوس ہوتی تھی پر سے فراٹے بھرتی ریل گاڑی گزری۔

ریل گزر چکی، طوفان تھم چکا تو دیکھا کئی دکاندار زخمی تھے اور عوام جو خریداری کرنے نکلے تھے ان زخمی دکانداروں کی مدد کو دوڑ رہے تھے۔ کچھ ہی دہر میں معلوم ہوا۔ نوازشریف، مریم نواز، حنیف عباسی۔ کیپٹن(ر) صفدر وغیرہ وغیرہ زخمی ہوگئے ہیں۔ دماغ پر تھوڑا زور دیا تو اندازہ ہوا یہ سب تو ایک ہی جماعت کے رہنما ہیں۔ اس ہی ہبڑ تبڑ میں اس نے اپنے ساتھ کھڑے شخص کو جھنجوڑا۔ یہ ابھی کون سی ٹرین گزری تھی؟ تمہیں نہیں معلوم؟ یہ اسٹیبلشمنٹ ایکسپریس تھی۔ ہر پانچ برس بعد گزرتی ہے اور کسی نا کسی انتخابی امیدوار کو برباد کردیتی ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ معمول پر آگیا۔ اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور آگے چل پڑا۔ چند قدم ہی دھرے تھے کہ شدید شور شرابے اور ناچ گانے نے اس پر جادو کردیا۔ مست کردینے والی دھن پر وہ بھی جھومنے لگا۔ تبدیلی آئی رے تبدیلی آئی رے۔ ابھی وہ جھومنے میں ہی مگن تھا کہ اچانک آواز آئی۔ اوئے نواز شریف! وہ سمجھ گیا یہ عمران خان ہے اور وہ تحریک انصاف کے اسٹال پر کھڑا ہے۔ جلد ہی بوریت محسوس ہوئی تو آگے بڑھ گیا۔ کیا دیکھتا ہے ایک شخص انگلی ہلا ہلا کر اس کے شہر کو پیرس بنانے کے دعوے کررہا ہے۔ وہ مسکرادیا۔ صاحب پیرس کیوں بناتے ہو۔ اسے پاکستان کیوں نہیں بنادیتے وہ ہمکلام ہوا۔ اور اگلے اسٹال کی جانب لپکا۔

یہاں کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص ہجوم کے درمیان خاموش کھڑا ہے اور عوام چلا رہے ہیں۔ گالی دو، گالی دو، لعنت دو لعنت دو۔ خاصہ حیران ہوا پاس کھڑے شخص سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے۔ ارے یہ جبران ناصر ہے۔ را کا ایجنٹ غدار۔ دیکھو سب قادیانی کو گالی دینے کا کہہ رہے ہیں مگر یہ اپنا ایمان تازہ نہیں کر پارہا۔ کافر کا بچہ۔ وہ اس ساری صورتحال سے لطف اندوز ہو ہی رہا تھا کہ دیکھتا ہے اگلے اسٹال پر ایک بچہ کسی کا منتظر ہے۔ یہاں کوئی نعرے بازی، کوئی وعدہ کوئی دعوی نہیں تھا۔ اس نے بڑی شفقت سے پوچھا بیٹے کیا ہوا؟

انکل ابھی اسٹیبلشمنٹ ایکسپریس گزری تھی۔ اس کے بعد سے میرے والد جو الیکشن لڑ رہے تھے لا پتہ ہیں۔ بیٹے آپ کے والد کس کے مقابلے پر امیدوار تھے۔ چوہدری نثار کے! بچے نے معصومیت سے جواب دیا تو اس کا دل پگھل گیا۔ اس نے ووٹ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ شاید ہمیشہ سے جذبات میں بہہ کر ہی ووٹ دیتا آیا تھا۔ اس نے جھٹ سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو چونک گیا۔ جیب خالی تھی! اس کا ووٹ کوئی چرا چکا تھا۔ بچہ صورتحال کو بھانپ گیا اور گویا ہوا۔ انکل یہاں ووٹ چوری ہونا عام سی بات ہے آپ کو حفاظت کرنا چاہیے تھی۔ خیر اب تھانے جاکر ایف آئی آر درج کروالیں۔ وہ انتہائی غصے کی حالت میں تھانے پہنچا تو دیکھتا ہے ایک بزرگ تھانے دار سے الجھا ہوا ہے۔

تھانیدار نے انگڑائی لی اور پوچھا ہاں میاں تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ صاحب میرا ووٹ چوری ہوگیا ہے۔ تھانیدار نے قہقہ لگایا۔ تو اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ ان بزرگ گا تو پورا الیکشن چوری ہوگیا ہے۔ آپ کون ہیں؟ اس نے بزرگ سے پوچھا تو ایک ضعیف سے آواز سماعت سے ٹکرائی۔ میں پاکستان ہوں اور بیٹے میرا الیکشن ایک بار پھر چوری ہوگیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).