کانٹے والا


چارلس ڈکنز 7 فروری 1812ء کو لینڈ پورٹ برطانیہ میں پیدا ہوا۔ بچپن میں نامساعد حالات سے گزرا۔ جس کی جھلک اس کے ناول اولیور ٹوسٹ اور ڈیوڈ کاپر فیلڈ میں ملتی ہے۔ عملی زندگی کا آغاز ایک وکیل کے منشی کی حیثیت سے کیا۔ بعد ازاں شارٹ ہینڈ سیکھ لی اور ایک اخبار کا رپورٹر ہو گیا۔ ان دونوں ملازمتوں میں ڈکنز کو وہ سب مواد دستیاب ہوا جو بعد میں اس نے اپنے ناولوں میں استعمال کیا۔ 1836ء میں ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ چارلس ڈکنز وکٹورین عہد کے بہترین انگریزی فکشن نگاروں میں  شمار ہوتا ہے۔ 8 جون 1870ء کو وفات پائی۔ ذیل میں ڈکنز کے ایک افسانے کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ترجمہ شاہد اختر نے کیا ہے۔

٭٭٭    ٭٭٭

چارلس ڈکنز

’کون ہے ادھر، کون ہے نیچے؟ ‘

وہ سگنل خانے کے باہر لال جھنڈی لئے کھڑا تھا۔ عجیب بات تھی کہ اسے اندازہ نہیں ہوا کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔

وہ ایک تجسس سے دور کسی چیز کو دیکھ رہا تھا۔

’کون ہے نیچے کون ہے ادھر؟ ‘ میں نے دوبارہ کہا

وہ میری آواز سن کر چونکا اور اوپر دیکھا جہاں میں اس چھوٹے سے ٹیلے پر کھڑا ہوا تھا۔

یہاں کوئی راستہ ہے نیچے آنے کا؟ اچانک مجھے لگا جیسے زمین ہلنے لگی ہے اور پھر ایک گرجدار سی گڑگھڑاہٹ ہوئی۔ دھویں کا ایک بادل سےنیچے سے اٹھا اور مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا، دھواں جیسے ہی چھٹا میں نے پھر نیچے دیکھا تو وہ اپنی جھنڈی کو لپیٹ رہا تھا۔ اس نے اشارہ کیا جہاں سے میں نیچے اتر سکتا تھا۔

ٹھیک ہے۔

ایک ٹیڑھی میڑھی سی پگڈنڈی نیچے کی طرف جا رہی تھی

ڈھلوان نہایت گہری تھی۔ یہ راستہ چٹان کو کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ پتھر نہ صرف نوکیلے تھے بلکہ گیلے بھی تھے۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اس نے مجھے راستہ بہت جھجھکتے ہویے بتایا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کیا یہ صرف ہچکاہٹ تھی یا کوئی مجبوری۔

جب میں آہستہ آہستہ نیچے اترکر اس کے قریب پہنچا تو اس کا چہرہ دیکھا جو یرقان زدہ لگ رہا تھا۔ سیاہ داڑھی اورموٹی بھوؤں نے اسے خاصا ڈراونا بنا دیا تھا۔

کانٹا گھر ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں تھا جس کے دونوں طرف نوکیلے پتھروں کی سیلی اونچی دیواریں تھیں۔ اس تاریک، اداس، وحشت انگیز جگہ کو دیکھ کر پرانے زمانے کے قید خانوں کا تصور دماغ میں آتا تھا۔

اس نے بہت معنی خیز نظروں سے سرنگ کے باہر لگی سرخ بتی کی طرف میری توجہ دلائی اور ایسے دیکھا جیسے کوئی ایسی چیز ڈھونڈھ رہا ہے جو اپنی جگہ پرموجود نہیں ہے۔

تم اس لال بتی کے انچارج ہو؟ میں سوال کئے بغیر رہ نہ سکا۔

ہاں۔ اس نے بھاری آواز میں جواب دیا

یہاں میرے ذہن میں خوف نے سر ابھارا، کہیں یہ کو ئی جن بھوت تو نہیں؟ یا کہیں کسی پاگل خانے سے بھاگا ہوا کو ئی پاگل تو نہیں؟

لیکن میں نے اس کی آنکھوں میں خوف کی ایک ایسی جھلک دیکھی جیسے وہ الٹا مجھ سے ڈر رہا ہے،

تم تو مجھے ایسے دیکھ رہے ہو جیسے مجھ سے خوف زدہ ہو۔ میں نےمصنوعی مسکراہٹ اپنے اوپر طاری کر کے کہا۔

۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔ اس نے کریدتی نظروں سے میرا جائزہ لیتے ہوئے جواب دیا۔

کہاں؟ میں نے پوچھا

اس نے لال بتی کی طرف اشارہ کیا

ادھر؟ میں نے پھر پوچھا

میری طرف بہت غور سے دیکھتے ہوے اس نے ’ہاں‘ میں سر ہلایا لیکن منہ سے کچھ نہیں بولا۔

میں پہلے یہاں کھبی نہیں آیا۔ اطمینان رکھو۔

اور وہ واقعی مطمٔن ہو گیا

’چلو ٹھیک ہے، آپ کہتے ہیں توپھر ٹھیک ہے‘

وہ مجھے کوٹھڑی کے اندر لے گیا جو اس کا دفتر تھا۔ ایک چھوٹی سی انگیٹھی میں آگ جل رہی تھی۔ ایک ڈسک پرقلم دوات اورایک بڑا سا رجسٹر کھلا رکھا تھا۔ ایک کونے میں ٹیلیگراف مشین تھی اور دوسرے میں ایک گھنٹی لٹک رہی تھی

وہ کبھی میری طرف اور کبھی انگیٹھی میں جلتی آگ کی طرف دیکھتا۔

کئی مرتبہ ٹیلیگراف مشین پر پیغام آئے جن کا اس نے فوری جواب دیا، چھوٹی گھنٹی بھی بجی۔ ایک مرتبہ دروازے سے باہر نکل کر اس نے جھنڈی بھی لہرا ئی اور ریل کے ڈرایور سے مختصر بات بھی کی۔

مجھے یہ آدمی ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے بہت موزوں لگا۔ لیکن میرا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب میں نے اسے عجیب نظروں سے گھنٹی کی طرف ایسے دیکھتا پایا جیسے پوچھ رہا ہو کہ یہ ابھی تک بجی کیوں نہیں۔ یا پھر جب وہ دو تین مرتبہ دروازہ کھول کر باہر نکلا اور لال بتی کو دیکھ کر ایسے واپس لوٹا جیسے کسی بات سے مایوس ہوا ہو۔

اس عجیب سے احساس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا لیکن بات بڑھانے کے لیے میں نے ایسی ہی کہ دیا کہ میاں لگتا ہے تمھاری زندگی یہاں بہت آرام سے گزر رہی ہے۔

ہاں کسی زمانے میں آرام سے گزرتی تھی۔ ’لیکن اب، اب تو زندگی ایک عذاب بن گئی ہے

جیسے ہی یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلے مجھے یوں لگا کہ اگر اس کا بس چلتا تو وہ ان الفاظ کو واپس لے لیتا۔ لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا، میں نے اسے اتنی مہلت ہی نہ دی اور فورأ سوال داغ دیا

کیسا عذاب؟

’جناب اس وقت تو میں کچھ بھی نہیں کہ سکتا۔ لیکن آپ اگر دوبارہ میرے پاس آیے تو ضرور کوشش کروں گا کہ۔۔۔‘

’میں ضرور آوں گا۔ کب آؤں؟ میں نے نامناسب عجلت سے کہا

میں کل رات دس بجے دوبارہ ڈہوٹی پر واپس آؤں گا۔

ٹھیک ہے، میں گیارہ بجے آجاؤں گا

اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور مجھے دروازے تک چھوڑنے آیا

جس پراسرار طریقے سے وہ میری طرف دیکھ رہا تھا اس سے میرے پورے جسم میں شدید سردی کی ایک لہر سی دوڑ گیٔ۔ لیکن میں سوائے ’ٹھیک ہے‘ کے اور کچھ نہ کہ سکا

’اور ہاں، کل جب آپ آئیں ٔں تو کو ئی آواز نہ دیں، بلکل خاموشی سے آ جائیں۔ بس ایک آخری سوال آپ کے جانے سے پہلے

’کیا، پوچھو۔ میں نے کہا

آپ نے ’کون ہے نیچے‘ کون ہے ادھر‘ کی آواز کیوں لگائی تھی؟

مجھے اپنے الفاظ یاد آگیئے ’ہاں کہا تو تھا ‘اس لیے کہ تم نیچے تھے‘

’یہی وجہ تھی، کو ئی اور تو نہیں؟

اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

آپ کو ایسا تو محسوس نہٰیں ہوا جیسے کسی اور قوت نے آپ سے یہ الٖفاظ کہلایے ہوں

’نہیں‘

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3