گھر یا عقوبت خانے؟ اولڈ ہاؤسز یا پناہ گاہیں؟


”اس بڑھیا کو جانے کب موت آئے گی؟ یہ مرے تو میں بھی اپنی زندگی جی لوں میری زندگی تو اس کی مرگ سے مشروط ہو چکی ہے“۔

یہ اس بہو کے الفاظ تھے جسے بڑے چاؤ سے حلیمہ بی بی بیاہ کر لائی تھیں۔ بیٹے نے اپنی کلاس فیلو لڑکی پسند کی ہوئی تھی دوران تعلیم لیکن انھوں نے رو دھو کر اور اپنی ممتا کے واسطے دے کر بیٹے کو آخر منا ہی لیا کہ وہ اپنے غریب ماموں کی عام سی شکل صورت والی بیٹی سے شادی کر لے بقول ان کے:
”ایک تو میرا بھائی سفید پوشی کا بھرم ہی رکھے ہوئے ہے دوسرا چار جوان بیٹیاں اور وہ بھی کم صورت کم پڑھی لکھیں کون آئے گا انہیں بیاہنے؟“

بیٹے نے کہا:
”اماں میرا قصور کیا ہے کہ مجھ سے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق چھینا جا رہا ہے؟“

تب انھوں نے بھتیجی کو بہو بنانے کے بہت سے فوائد گنوائے تھے، جن میں سر فہرست تو وہی کہ اپنا مارے گا بھی تو چھاؤں میں پھینکے گا۔ پھوپھی کی خدمت کرے گی ساری عمر اور احسان مند بھی رہے گی کہ اپنے خوب صورت بیٹے کی دُلھن بنایا اسے“۔

اب شادی کے دس سال بعد تین بچوں کے ساتھ وہ بہو رات دن پھوپھی کو چارپائی پر تیار کھانا نہیں دے سکتی تھی، اسی لیے ہر نماز کے بعد یہ دعا یا بدعا ضرور اس کے لبوں پہ مچلتی کہ ”خدایا اس بڑھیا کو اٹھا لے“۔

”بہو روٹی بہت سخت ہے ذرا سا خمیر ڈال کر آٹا نرم کر لیا کرو میرے دانت نہیں تو چبا نہیں سکتی“۔
ان کا یہ کہنا قیامت ہوگیا بہو ان پر یوں چلانے لگی کہ کوئی نوکر پر بھی نہیں چلاتا اس ڈر سے کہ وہ کام چھوڑ کر بھاگ نہ جائے۔

دوسرے دن منہ میں نوالہ رکھتے ہی انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے سخت روٹی پر احتجاج کر کے اپنے ساتھ برا کیا ہے، کیوں کہ غصے اور انتقام کی ماری بہو نے آج آٹا بالکل کھٹا کر کے روٹی پکائی تھی۔
”اب ہوگیا شوق پورا خمیر آٹے کی روٹی کھانے کا “؟ وہ طنزیہ انداز میں بولی۔

یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ہمارے گھروں کی یقین جانیے، اس سے بہت زیادہ برا ہو رہا ہے اس معاشرے میں جسے ہم بڑے فخر سے اسلامی معاشرہ کہہ کر اتراتے ہیں اور منہ بنا بنا کر انگریزوں کے اولڈ ہاؤسز کو برا بھلا کہتے ہیں۔

ہمارے گھر تو ان اولڈ ہاؤسز سے بہت زیادہ برے ہیں، جن گھروں میں بوڑھے والدین بچوں کی آوازیں سننے کے لیے ترس جاتے ہیں۔ جن گھروں میں اچھے پکوان اور پھلوں کی خوش بو ہی والدین تک پہنچتی ہے، جن گھروں میں پرہیز کے نام پر کھانے کی ہر اچھی چیز ان پر بند کر دی جاتی ہے۔ جہاں اپنے بچوں کے لیے اور اپنے لیے تو پھل آتے ہیں، مٹھائیاں کھائی جاتی ہے پیزا اور برگر منگوائے جاتے ہیں اور ان والدین کے لیے جو ساری عمر اپنے منہ کا نوالہ اپنے بچوں کے منہ میں ڈالتے رہنے کے عادی ہوتے ہیں؛ کبھی بڑے گوشت کی یخنی اور کبھی فارمی مرغی کی یخنی کی اک کٹوری یا پھر وہ دال جو پورا پورا ہفتہ انہیں کھانی پڑتی ہے۔ کیوں کہ گھر کا دوسرا کوئی فرد وہ دال نہیں کھاتا اس لیے ایک دفعہ پک جاتی تو ختم ہی نہیں ہوتی تھی۔

اور یخنی کے نام پر آپ یہ سوچ کر خوش نہ ہوں کہ ہمارے یہاں بزرگوں کے لیے الگ سے محنت کر کے پرہیزی کھانا بنایا جاتا ہے اور یہ ہی ہماری قابل فخر اقدار ہیں؛ اگر آپ یہ سوچ کر خوش ہو رہے ہیں تو یہ لیں بہت بجھے ہوئے دل کے ساتھ میں اس یخنی کی ترکیب شیئر کر رہی ہوں، جو ہمارے بزرگ مسلسل مہینوں تک سوکھی روٹی ڈبو ڈبو کر کھانے پر مجبور ہیں۔

اس یخنی کی ترکیب کچھ یوں ہوتی ہے کہ بہو بیگم آدھا کلو گوشت کو ابال کر پانی سے نکال کر اپنے اور شوہر بچوں کے لیے کڑاھی گوشت بنا لیتی ہے، اور اس شوربے میں بوقت ضرورت مزید پانی ملاتی رہتی ہے؛ کبھی وقت ہو تو نیا پانی ڈال کر اک جوش بھی دے دیتی ہے لیکن اسے اور بھی بہت سے ضروری کام ہوتے ہیں، مثلاً اپنی اماں سے بھابھی کی رپورٹ لینا سہیلیوں کے ساتھ مل کر اپنے اپنے شوہروں کی برائیاں کرنا اور نت نئی سیلز کی معلومات رکھنا۔

سو یہ کبھی کچا کبھی پکا پانی ان بے چاروں کی خوراک بنتا رہتا ہے، یاد رہے کہ یہ وہ مائیں ہوتی ہیں جو صبح اٹھتے ہی اس کوشش میں لگ جاتی تھیں کہ بچوں کا پسندیدہ کھانا بنائیں اور بچے سو سو نخرے کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں سے یوں نوالے کھاتے تھے؛ جیسے ماؤں پر احسان کر رہے ہوں اور مائیں بچوں کو کھاتا دیکھ کر شاداں و فرحاں سی آڑی آڑی پھرتی تھیں کہ لعلوں نے چند نوالے شوق سے کھا لیے ہیں۔ وہی بیٹا جب مسلسل پندرھویں دن بھی ماں کو یخنی روٹی کھاتے دیکھتا ہے تو بیگم کو فخریہ انداز میں دیکھ کر سوچتا ہے کہ ”یہ عورت تو جنتی ہے جو اتنی محنت کر کے میری ماں کے لیے روزانہ تازہ یخنی بناتی ہے“۔ اے کاش کسی دن وہ اک نوالہ ماں کی کٹوری سے کھا کر یہ جان پائے کہ ماں پانی میں بھگو کر روٹی کھا رہی ہے۔

گھر کے بزرگوں کو بات بات پر بے عزت کرنا۔ کھانسنے پر ٹھڈے دینا ہر وقت لعنت ملامت۔ یہاں تک کہ بولنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی سب گھر نہ سہی لیکن وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تسلیم کریں کہ اکثریت ایسے ہی گھروں کی ہے جہاں گھر جنت تو ہیں لیکن بہوؤں بیٹوں اور پوتے پوتیوں کے لیے جب کہ وہی گھر دوزخ بنے ہوئے ہیں، بزرگوں کے لیے وہ پناہ گاہوں کو عقوبت خانوں میں بدلتے دیکھ کر بھی زندہ رہتے ہیں کہ موت اپنے اختیار میں کب ہوتی ہے؟ دوسری طرف اولڈ ہاؤسز ان کے لیے امید کی اک کرن ہیں۔

میں نے ایک خاتون سے جو ایک فلاحی ادارے میں نئی نئی آئی تھیں پوچھا ”اماں گھر یاد نہیں آتا“؟ وہ سسکنے والے انداز میں ہنستے ہوئے بولی ”کون سا گھر؟ وہ گھر تو بہو کا ہے ان کے بچوں کا ہے“۔
میں نے پوچھا، ”بچے تو یاد آتے ہوں گے“؟ وہ پھر سسک پڑیں۔ ”بچے تو کب سے دور ہیں؛ پہلے یہ دوری رلاتی تھی اب سوچتی ہوں اچھا ہے کہ برسوں سے ان کے بغیر رہنے کی عادت پڑ گئی ہے“۔

میں نے دکھی دل سے یہ منظر دیکھا کہ سب ہم عمر بزرگ خواتین اکٹھی بیٹھی ہیں کچھ آنسوؤں کی زبانی اور کچھ آہوں اور سسکیوں کی آوازوں میں ایک دوسرے سے اپنے دکھ شیئر کر رہی تھیں، یہاں سب دکھ شریک تھیں مشترکہ غموں کا ماتم کر رہی تھیں میں نے دیکھا زنداں سے نکلے ہوئے یہ کچھ زندہ کچھ نیم مردہ جسم اس مقام پر آ کر خود کو واپس انسان سمجھنے لگے تھے۔

اب کوئی یہاں انہیں ڈانٹ کر پنکھا بند نہیں کرتا اب وہ پاس پڑے اگل دان میں بلا خوف و جھجھک سینے پر پتھر کی طرح دھرے بلغم کو تھوک سکتی ہیں۔
اب پھل بھی گوہر نایاب نہیں لگتے۔
اب میلے کپڑے مہینا بھر نہیں پہننے پڑتے۔
اب سر میں جوؤں کی دوائی ڈال کر کنگھی بھی کر دی جاتی ہے۔
اب پاخانے اور پیشاب کے طعنے نہیں سننے پڑتے، یہاں تو غسل خانوں کو تالے بھی نہیں لگے ہوئے۔
یہاں تنہائی کا عذاب نہیں ہے اکیلے پن کا کرب نہیں جھیلنا پڑتا۔

میری بہنو! میں نے جب پہلی بار جون جولائی کی گرمی میں ایک بوڑھی اور کم زور خاتون کو گھپ اندھیرے اور بغیر پنکھے کے تنور جیسے کمرے میں جلتے ہوئے دیکھا تو کمرے میں لگے بٹن کو دبا کر بلب جلانا چاہا اس وقت انکشاف ہوا کہ کمرے میں سے بلب اتارا ہوا ہے ان کے بچوں نے۔

وجہ پوچھی تو اے سی والے کمرے سے نکلے ہوئے بیٹے نے کہا، ”اماں رات بھر بلب لگا کر سوتی ہے اور پنکھا بھی بنا ضرورت لگا رہتا تھا، اس لیے دونوں چیزوں کو ہٹا دیا ہے“۔
میں نے صدمے کی کیفیت میں پوچھا۔
”اس قدر گرمی ہے پنکھے کے بغیر گزارا کہاں ہوتا ہے“؟
موصوف بولے، ”بوڑھی ہڈیاں ہیں ان کی۔ پنکھے کی ہوا سے درد کرتی ہیں“۔

اللہ ہمیں معاف فرمائے ہم جانے ان جانے میں انسانیت کی اور رشتوں کی بھی تذلیل کر رہے ہیں، بے شک شوہر کی ماں سمجھ کر آپ اس عورت سے محبت نہیں کر سکتیں جو آپ کے رحم و کرم پر ہے تو کم ازکم انسانیت کی تذلیل بھی تو نہ کریں۔ اپنے شوہروں کو ان کی جنتوں سے دور کریں گی تو کل کو مکافات عمل کی صورت میں بھی تو قدرت نے سزا و جزا کا نظام رکھا ہوا ہے۔
میری مانیں تو اور کچھ نہ بھی کریں لیکن ایک بار دن میں یہ سوچ لیا کریں کہ ایک دن بوڑھے تو سبھی ہوں گے۔
شاید یہ بڑھاپے کا خوف ہی کچھ لوگوں کے ساتھ بھلا کرنے کا سبب بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).