کون بنے گا وزیراعظم شہباز یا عمران ؟


الیکشن کمپین کا وقت ختم ہوچکا ہے، کچھ گھنٹوں کے بعد الیکشن ڈے شروع ہوجائے گا۔ اب ہر طرف سے ایک ہی سوال کیا جارہا ہے کہ وفاق میں صوبوں میں کس کی حکومت بن رہی ہے؟ کیا عمران خان وزیر اعظم بننے جارہے ہیں؟ کیا شہباز شریف پاکستان کے نئے وزیراعظم ہوں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان وزیراعظم بننے کی بجائے اپوزیشن لیڈر بن جائیں اور شہباز شریف ایک مرتبہ پھر چیف منستڑ آف پنجاب لگا دیے جائیں؟

الیکشن مہم کے بعد اب اس طرح کی باتیں زیر بحث ہیں۔ پاکستانی سیاست کے ماہرین اور مبصرین اس بارے میں مختلف رائے دیتے نظر آرہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار حامد میر کے مطابق اس وقت شہبازشریف پر اعتماد ہیں اور عمران خان ٹینشن کا شکار ہیں۔ دوسری طرف انتخابی سیاست کے ماہر سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان 25 جولائی کے بعد پاکستان میں کولیشن گورنمنٹ میں وزیر اعظم ہوں گے۔ ان کے مطابق مسلم لیگ ن کو وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب کی وزارت عظمی بھی نہیں ملے گی۔

سہیل وڑائچ کے مطابق 25 جولائی کے بعد سیاست کا جو نیا منظر نامہ وجود میں آئے گا اس میں مسلم لیگ ن کے لئے بہت مشکلات ہیں۔ پنجاب میں ن نے اکثریت حاصل کر بھی لی تب بھی وہ پنجاب میں حکومت نہیں بنا سکے گی۔ مسلم لیگ ن کے اندر پچیس جولائی کے بعد ایک بہت بڑا فارورڈ بلاک بننے جارہا ہے جو سیاست کا رخ بدل دے گا۔ سہیل وڑائچ کے مطابق شہباز شریف کسی صورت وفاق میں لیڈر آف دی اپوزیشن نہیں بنیں گے، اپوزیشن لیڈر بننا ان کا مزاج ہیں نہیں، وہ اس وقت صرف پنجاب کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ حامد میر کے مطابق اگر عمران خان کسی کے لاڈلے ہیں تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہباز شریف بھی لاڈلہ ہے جن کی اب تک نو ملاقاتیں مقتدر قوتوں کے اعلی حکام سے ہوچکی ہیں۔ اس لئے شہباز شریف بھی وفاق میں آسکتے ہیں۔

حامد میر کے مطابق اسٹیبشلمنٹ کے اندر شہباز شریف کے لئے بھی اس وقت سافٹ کارنر موجود ہے اور یہی وہ بات ہے جس سے عمران خان ٹینشن میں ہیں۔ کچھ مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن نے ایک مرتبہ حکومت کر لی ہے۔ اب آنے والے پانچ سالوں میں ان کی حکومت نہیں آئے گی۔ مبصرین کے مطابق پچیس جولائی کے دن بیس فیصد سوئنگ ووٹرز کا کردار بڑا اہم ہوگا۔ نوازشریف کا بیانیہ اور ہمدردی کا ووٹ مسلم لیگ ن کے لئے وائلڈ کارڈ ثابت ہوسکتا ہے جس کے کچھ امکانات موجود ہیں۔ پاکستان میں اکثریتی مبصرین کے مطابق جو ہوا چل رہی ہے اس سے یہی لگ رہا ہے کہ معلق حکومت بننے جارہی ہے جو بہت ہی کمزور ہوگی اور جس کے وزیراعظم عمران خان ہوسکتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق اگر پچیس جولائی کو بہت بڑی تعداد میں لوگ باہر نکل آئے، کسی قسم کی گڑ بڑ نہ ہوئی۔ ووٹ کی شرح اچھی رہی اور کسی ایک پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی تو اس سے سیاسی استحکام آئے گا ورنہ یہ الیکشن سیاسی استحکام کی بجائے سیاسی انتشار پیدا کرنے کا سبب بن جائیں گے۔ کچھ مبصرین کے مطابق اس بات کا خدشہ ہے کہ پچیس جولائی کے انتخابات کا نتیجہ انیس سو ستر جیسے انتخابات کی طرح کا ہوگا جو پاکستان میں سیاسی انتشار پیدا کرسکتا ہے۔

مبصرین کی رائے میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ پہلا الیکشن ہے جس کی وجہ سے قوم کے ساتھ ساتھ سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ سب ٹینشن میں ہیں۔ تمام قوتیں خوف کا شکار ہیں، سب کو یہ خدشہ ہے کہ انتشار پیدا ہوسکتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی تاریخ کے یہ متنازعہ ترین الیکشن ہوں گے۔ یہ واحد الیکشن ہیں جو ابھی ہوئے نہیں اور متنازعہ ہو گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق عمران خان کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر جیپ کا زیادہ تڑکا لگ گیا تو اس سے ان کی خود مختاری ڈسٹرب ہو سکتی ہے۔

اسی وجہ سے عمران خان ووٹرز کو کہہ رہے ہیں کہ وہ معلق پارلیمنٹ نہ بننے دیں۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کو خدشہ ہے کہ ان کے ساتھ آخر میں دھوکہ ہوسکتا ہے، کچھ کی رائے میں عمران خان حد سے زیادہ پراعتماد ہیں، وہ صرف اب یہ چاہتے ہیں کہ ان کے سپورٹرز باہر نکلیں اور ہنگ پارلیمنٹ نہ بننے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).