عام انتخابات اور کراچی کی خلائی مخلوق


دن کے تین بجنے کو تھے۔ سخت گرمی اور دھوپ نے برا حال کردیا تھا۔ ایئرکنڈیشنڈ گاڑی کے اندر تو مزے لگے ہوئے تھے مگر گاڑی سے جوں ہی باہر قدم رکھتے سر چکرانے لگ جاتا مگر دفتر کو پل پل کی خبر سے آگاہ رکھنا مجبوری جو ٹھہری سو یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی تھا۔

ساتھی کیمرا مین کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ہم نے گاڑی ایک سرکاری اسکول کے سامنے رکوائی اور اتر کر فورا مرکزی دروازے سے گزر کر احاطے میں پہنچے۔ اسکول کے کمروں کے درمیان واقع گراؤنڈ میں اس وقت کتے کھیل رہے تھے۔ جی ہاں سچ مچ کے کتے۔

ہم میدان سے گزر کر کمروں کی جانب بڑھنے لگے تو ایک بزرگ تیز قدموں سے برآمد ے سے نمودار ہوئے اور سخت غصے کی حالت میں خود کلامی میں مصروف تھے۔ ” ان لوگوں کو ذرا برابر بھی شرم نہیں آتی، ہر بار یہی کرتے ہیں ” بزرگوار یہ کہتے ہوئے ہمارے قریب سے گزرے۔

بابا جی کیا ہوا، آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں؟ ساتھی کیمرا مین نے ان سے سوال کیا۔
”جی کیا کہا؟ “ بزرگ شخص یہ کہہ کر رکھ گیا۔ چاروں اطراف کا جائزہ لینے کے بعد رازدارانہ انداز میں پوچھا، ” آپ لوگ کو ن ہیں اور مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟ “

جی ہم میڈیا والے ہیں، الیکشن کی کوریج کے لیے آئے ہیں، مگر یہاں تو نہ بندہ ہے اور نہ بندے کی ذات، کیا اس حلقے میں الیکشن نہیں ہورہے؟ جواب کے ساتھ ہی ہم نے سوال کرڈالا۔

”بیٹا لگتا ہے آپ لوگ کسی دوسرے شہر سے آئے ہیں ہا پہلی بار الیکشن کی کوریج کررہے ہیں۔ “ بزرگوار سے طنزیہ انداز میں کہا۔
”جی ہم سمجھے نہیں، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ ” ساتھی کیمرا مین کہا۔

جواب دینے سے قبل بزرگ نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا اور کہا ” کیمرا بند رکھنا۔ میں بتاتا ہوں۔ “ بزرگ گویا ہوا۔
”بیٹا یہ غالبا پانچویں بار ہوا کہ جب بھی میں ووٹ ڈالنے آتا ہوں مجھے کہا جاتا ہے آپ نے کیوں تکلیف کی آپ کا ووٹ ٹو ڈل چکا ہے۔ “ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا۔
”ہر انتخاب سے قبل ہمیں بتادیا جاتا ہے علاقے کے جوان اور کچھ خواتین وقفے وقفے سے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کریں، بزرگ گھروں پر آرام کریں۔

”میں آج بھی ووٹ ڈالنے پہنچا تھا اور اس بار وہی ہوا تو ہوتا آیا ہے۔ “
” پولنگ اسٹیشن پر لوگ اس لیے نظر نہیں آرہے انہیں پہلے ہی آنے سے منع کردیا گیا ہے۔ “
”میرا خیال ہے کہ اتنا کافی ہے۔ اب میں چلتا ہوں۔ بیٹا اس بات کا ذکر کسی نے مت کرنا۔ “

یہ کہہ کر بابا جی تیز تیز قدم اٹھاکر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ میں اور ساتھی کیمرا مین ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیے۔ ہمیں ہمارے سوال کا جواب مل چکا تھا۔

بابا جی کی باتیں سن کر ہم آگے بڑھے اور پولنگ بوتھ میں داخل ہونے لگے تو دروازے پر موجود بھائی لوگوں نے ہمیں روک کر کہا کہ بھائی آپ پہلے اس طرف آئیے۔ کچھ چائے پانی ہوجائے۔ کوریج تو ہوتی رہے گی۔

آدھے گھنٹے تک خاطر تواضع اور غیر متوقع طور پر پولنگ کی کوریج سے دور رکھنے کے بعد ہمیں کہا گیا کہ آپ لوگوں کے دفتر بات ہوگئی ہے۔ پولنگ اسٹیشن میں پولنگ خوش اسلوبی سے سرانجام پا رہا ہے اور ہاں جو کہا جارہا ہے وہی رپورٹ کرنا۔ یہ کہہ کر بھائی لوگ ہمیں اسکول کے دروازے تک چھوڑ آئے۔

یاد رہے کہ اس پورے دورانیے میں غالبا ایک آدھ شخص ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن پہنچا۔
باہر نکل کر ہم نے دفتر رابطہ کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا اور پھر اگلے پولنگ اسٹیشن کی راہ لی۔ حلقے کے دیگر پولنگ اسٹیشنوں میں بھی صورتحال کوئی خاص مختلف نہیں تھی۔

پولنگ کا وقت ختم ہونے پر ہم ایک پولنگ اسٹیشن پر رکھے رہے اور ووٹوں کی گنتی کا عمل ریکارڈ اور پھر اس کی رپورٹ کرکے متعلقہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر پہنچے اور موصول ہونے والے نتائج سے دفتر کو آگاہ کرتے رہے۔ یہ سلسلہ صبح تک جاری رہا۔

جس حلقے کی ہم گذشتہ شام کوریج کرکے آئے تھے اس حلقے کے نوے فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد اس وقت کی اطلاعات اور موصولہ غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے عزیز میمن کو ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار پر بڑے مارجن سے برتری حاصل تھی اور صرف انہی حلقوں کے نتائج کا انتظار تھا کہ جن کے اکثریت کی ہم سہہ پہر تین بجے سے پولنگ کے اختتام تک کوریج کرکے آئے تھے۔

قومی اسمبلی کے اس حلقے کے نتائج کا اعلان کافی تاخیر سے ہوا۔ اس دوران عزیز میمن کے حامی اپنے امیدوار کی کامیابی کا اعلان سننے کے لیے بے تاب تھے۔ دوسری جانب نتائج میں ردوبدل کی افوائیں بھی سننے کو مل رہی تھیں۔ اور پھر ڈاکٹر فاروق ستار ایک لاکھ سے زائد ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔

25 جولائی کو ملک میں ایک بار پھر انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں۔ محکمہ زراعت اور خلائی مخلوق کے غائبانہ کردار کا ذکر زور و شور سے سننے کو مل رہا ہے۔ مگر کہیں سے بھی کراچی کے خلائی مخلوق المعروف نامعلوم افراد کی شنید نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہیں قابو کرلیا گیا ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح میڈیا سمیت سب نے چپ سادھ لی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).