انتخابات کے بارے میں ملکی و غیر ملکی تاثر


میرے کچھ انتہائی محترم دوست اور اساتذہ اکثر مجھے مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ آپ سیاست پر طبع آزمائی کم سے کم کریں اور ادبی و سماجی مسائل پر لکھیں۔ میں اپنے ان خیرخواہوں کا بے حد ممنون ہوں کہ وہ مجھے مشورہ دینے کے قابل سمجھتے ہیں۔ میں اس امر کو اپنی سعادت مندی گردانتا ہوں۔ یہ ایک عام سی بات ہے، انسان مشورہ اسی کو دیتا ہے جس پر اعتماد کرتا ہو، جس پرمان ہو اور جس کی بہتری کا خواہاں ہو۔ان دوستوں کی نصیحت کا بھرم رکھتے ہوئے میں نے عہدِ مصمم کیا تھاکہ اب سیاست کو اسکے حال پر چھوڑ دینا ہے۔ اپنی ناکافی صلاحیتوں کو سیاست کے گرداب سے نکالنا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں خود اس مشورہ پر عمل کرتا میں نے یہی مشورہ اپنے پیارے دوست حسیب اعجاز عاشر کو دے ڈالا۔

حسیب اعجاز عاشر انتہائی منکسرالمزاج ہیں۔ ادبی، سیاسی، مذہبی، سماجی اور معاشی مسائل پر عقابی نظر رکھتے ہیں۔ حسیب نے جواب میں کہا، ” بھائی جو کچھ ہو رہا ہے کیا ٹھیک ہو رہا ہے؟” میرا جواب تھا بالکل نہیں۔ تو کہنے لگے! ” میں ایک لکھاری ہوں، صحافی ہوں، اگر اس پرآشوب دور میں حق بات لکھنا چھوڑ دوں، غلط کو غلط نہ کہوں، اپنی زبان اور ذہن کے دریچوں پر تالے لگالوں، اپنے ضمیر کو نظریہ ضرورت کی گہرائیوں میں دفن کر دوں تو چند برسوں بعد جب سبھی لوگ شہادت دے رہے ہوں گے کہ 2018 میں جو ہوا بہت غلط ہوا۔

ہو سکتا ہے میرے بچے مجھ سے پوچھیں کہ ابا جان آپ کے ہاتھ میں قلم تھا، آپ کے پاس کیمرہ تھا اور بولنے کے لئے زبان تھی، آپ نے حق کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ تب میرے پاس کچھ تو ہو اپنے بچوں کو بتانے کے لئے کہ بیٹا میں نے اپنے قلم اور اپنی زبان سے حق کا ساتھ دیا تھا”۔حسیب کے جواب نے میرے پختہ ارادوں کی مضبوط دیواروں میں بڑی بڑی دراڑیں ڈال دیں۔

دوسری طرف ہمارے ملک کی سیاست کے رنگ ہر لمحہ بدلتے ہیں۔ ہر روز اک نیا ڈرامہ ، اک نیا مسئلہ ، اک نئی ہلچل، اک نئی بحث چھڑ جاتی ہے اور چار و ناچار تخیل کا آزاد پرندہ سیاست کی منڈیر پر آ بیٹھتا ہے۔غالب نے کیا خوب کہا تھا۔
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

حسیب اعجازکا جواب اور غالب کا یہ شعر، دونوں جب سوچ کے تالاب میں تیرنے لگے تو مصمم ارادوں کی دیواریں دیکھتے ہی دیکھتے دھڑن تختہ ہو گئیں۔ ضمیر نے کہا کہ الطاف احمد قلم اٹھا اور حق لکھ۔ تا کہ تو بھی اپنی آئندہ نسل کو یہ بتا سکے کہ تم نے بھی کوئی کاوش کی تھی۔یقیناًاس میں ذاتی انا کا خصارہ ہے، دوستوں کے طنز کے تیر اور مخالفین کی گالیاں بھی سننا پڑتی ہیں۔لیکن جب آپ اپنے ضمیر سے مطمیئن ہوں کہ آپ حق کے ساتھ کھڑے ہیں تو گالیاں کیا چیز ہیں، انسان گولی بھی خوشی سے کھا لیتا ہے۔

یقیناًجس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے اس تاریخ ساز روز پاکستان بھر میں تیرھویں ”آم” انتخابات ہو رہے ہوں گے اور امکان ہے کہ ان کے نتیجہ میں پاکستان کی پندرھویں قانون ساز اسمبلی معروضِ وجود میں آ جائے گی۔ آپ شاید سمجھ رہے ہوں کہ میری املاء کمزور ہے۔ ایسا بھی ہے لیکن جناب میرے ”آم” کو آپ عام مت سمجھیں بلکہ اس کا پنجابی میں ترجمہ کر لیں تو آپ سمجھ جائیں گے۔

آج ہونے والے انتخابات کی ساکھ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مجروح ہو چکی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلے انگ فیلڈ نہیں ملی۔ آج ہونے والے الیکشن بارے ہمارے دوست اور قابل فخر ہمسائے چین کا اخبار” ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ” 22 جولائی کو ”طوم حسین” کا ایک آرٹیکل شائع کرتا ہے جس کا عنوان ہے ”کوئی بھی جیتے! پاکستان کا نیا باس اسی طرح ماتحت ہو گا جس طرح اس سے پہلے والا تھا”۔ اخبار لکھتا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی تقسیم اور فتح والی ہے اور اس پالیسی سے چین جیسا معاشی پارٹنر بھی شدید تذبذب کا شکار ہے۔

انڈین ٹیلی گراف آرٹیکل لکھتا ہے کہ ”ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے زیر انتطام ایک گندہ الیکشن ہونے جا رہا ہے اورپہلے ہی دیکھا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو کپتان کا تاج پہنا دیا گیا ہے”۔ اخبار اس کے ساتھ عمران خان کی ایک تصویر شائع کرتا ہے جس میں ان کے سر پر چیف آف آرمی سٹاف کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے۔

یو۔کے ٹائمز لکھتا ہے کہ ”پاکستانی فوج عمران خان کی راہِ اقتدار ہموار کرنے کا خطرہ مول لے رہی ہے” مزید لکھتا ہے ”31 سال میں پہلی دفعہ ان کے رپورٹر کو فوج نے عمران خان کی مخالف جماعت کی کوریج سے روکا”۔اس کے علاوہ واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز اور دوسرے بین الاقوامی اخبارات میں بھی بہت کچھ چھپ رہا ہے۔

ہم غیروں کی گواہی کیوں لیں جب اپنے ہی گواہی دے رہے ہیں۔ جناب جسٹس شوکت صدیقی کے انکشافات کیا کسی ایٹمی دھماکہ سے کم ہیں؟ نواز شریف کے خلاف مقدمات کی شروعات سے ہی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کہا جا رہا تھا کہ سکرپٹ لکھا جا چکا ہے، اب یہ ہو گا، وہ ہوگا۔ سب ویسے ہی ہوا۔ ایک جماعت پر عدلیہ، نیب، الیکشن کمشن اور نادیدہ قوتوں کا گھیرہ اتنا تنگ کردینا کہ وہ سانس لینے کو ترسیں کبھی بھی انصاف نہیں کہلائے گا۔اس لئے میرے بھائیوں اور بہنو، دوستو اور بزرگو۔۔! ابھی تک انتخابات سے پہلے جو کچھ ہو چکا ہے اس سے میرے نزدیک یہ عام انتخابات نہیں رہے بلکہ ”آم انتخابات”ہو گئے ہیں۔لیکن چاہے عام ہوں یا ”آم” آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیں۔ کیوں کہ آخر کار ووٹ ہی بدلے گا آپ کی قسمت۔

ساتھ ساتھ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میں ایک محب وطن پاکستانی ہوں۔ افواجِ پاکستان اور قومی اداروں کی بے انتہا عزت کرتا ہوں۔ انہی پاسبانوں کی بدولت ملک کی سرحدیں محفوظ ہیں۔ مجھے راولپنڈی میں قومی ادارے کے خلاف لگنے والوں نعروں کا شدید رنج ہے۔ جس سے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو بھی پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ملا۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ پنجاب کی عوام میں قومی ادارے کے وقار اور کردار بارے شدید شکوک شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ لوگ سرعام افواجِ پاکستان پر تنقید کر رہے ہیں اور گلی محلوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ جو کروا رہی ہے فوج کروا رہی ہے۔ یہ صورتِ حال ہر گز ہرگز پیدا نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اب جب صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے تو افواجِ پاکستان کو ردِ عمل کی بجائے اس تاثر کو زائل کرنا ہو گا۔ غیرجانبداری دکھانی ہو گی اور سیاسی معاملات سے کنارہ کش ہونا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).