بھٹو، شریف، خان اور لیفٹ رائٹ کا پاکستان


ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے سیاسی جماعت بنائی تو پاکستان ( مغربی حصے کی حد تک ) میں سیاسی خلا تھا۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی مسلم لیگ کئی ٹکڑوں ( کنونشن، قیوم، کونسل ) میں بٹنے کے بعد آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ قوم جنرل ایوب خان جیسے آمر کے ہاتھوں زچ ہونے کے بعد پہلی مرتبہ براہ راست انتخابات کے ذریعے جمہوریت کی متلاشی اور اپنے ہاتھوں منتخب ہو ئے نمائندوں کی راہ تک رہی تھی۔ گویا کوئی مقابل نہیں دور دور تک کے مصداق بھٹو صاحب کے لئے میدان خالی تھا۔ انہوں نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔ روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگایا، بائیں بازو کی قوتوں کو ساتھ ملایا، عام آدمی کے حق کی بات کی اوراپنا ایک ووٹ بینک بنا لیا، جو آج بھی کسی حد تک قائم ہے۔

میاں نواز شریف نے سیاسی جماعت بنائی تو ایک ردعمل میں۔ ان کی سیاسی جماعت، پیپلز پارٹی کی مخالفت میں بنی۔ تبھی آج تک ان کی سیاست پرو ایکٹو نہیں، ری ایکٹو ہے۔ پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے سے کیسے روکا جائے۔ یہ سوچ تھی کارفرما ان ذہنوں میں جن کے ذہنوں سے میاں صاحب سوچتے رہے۔ یوں پیپلز پارٹی کا مخالف ووٹ بینک اکٹھا کیا، دائیں بازو کی قوتوں کو ساتھ ملایا، کاروباری طبقے کو ساتھ لے کر چلے اور اپنا ایک ووٹ بینک بنا لیا جو اب بھی قائم ہے۔

یوں ستر، اسی اور پھر نوے کی دہائی میں پاکستان میں سیاست پرو پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی کے دائرے میں گھومتی رہی۔ پیپلز پارٹی کو بھٹو کے ووٹ بینک پر ناز تھا تو نوازشریف انٹی بھٹو ووٹ کے وارث۔ (یہ کریڈٹ بہرحال دینا ہوگا کہ بعد میں میاں صاحب نے اپنا ایک الگ ووٹ بینک بنا لیا۔ )

عمران خان کا معاملہ، ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں کے معاملوں سے مخلتف ہے۔ خان صاحب نے سیاسی جماعت بنائی تو ملک میں بھٹو اور شریف کا اپنا اپنا ووٹ بینک موجود تھا۔ ایسے میں ایک تیسری سیاسی جماعت کا، پاکستان کے میدان سیاست میں اپنے لئے جگہ بنانا اور وہ بھی ایک ایسی سیاسی جماعت کا جس کے بانی نے ابھی تک حکومت کا مزہ نہ چکھا ہو ( ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف دونوں سیاسی جماعت بنانے سے پہلے حکومت میں رہ چکے تھے )، جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ یوں 1996 میں بننے والی تحریک انصاف 1997 کے انتخابات میں بری طرح ناکام ہوئی، 2002 کے انتخابات میں صرف ایک سیٹ حاصل کرسکی، 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جبکہ 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 32 سیٹیں جیتیں اور ووٹ بینک کے لحاظ سے ( 70 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے ) ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔

لمحہ موجود میں پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے ان کے بانیوں کی صورت میں تین سیاسی رہنماؤں کے نام سامنے آتے ہیں۔ یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کے جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم، پاکستان مسلم لیگ ن کے جناب نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے جناب عمران خان۔ تینوں پر ایک نظر ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف میں ایک مماثلت یہ ہے کہ دونوں محترم سیاست دانوں نے پہلے فوجی جرنیلوں کے زیر سایہ اقتدار کا مزہ چکھا، سیاسی گر سیکھے اور پھر اپنی سیاسی جماعت بنائی۔

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں برسوں، مختلف شعبوں کے وزیروں کی حیثیت سے شامل رہے اور پھر ایوب خان کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولتے دیکھ کر بروقت سیاسی فیصلہ کر کے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے بنائی۔ اکتوبر 1958 میں جب ملک کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان خان کی اولین کابینہ میں بطور وفاقی وزیر شامل تھے۔ جنوری فروری 1960 میں ایوب خان کی آمریت کو مضبوط کرنے والے بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کا اہم کردار رہا۔ جنوری 1965 کے صدراتی انتخابات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، آمر ایوب خان کے مقابلہ میں تھیں مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت بھی ایوب خان کا ساتھ دیا۔ وہ نہ صرف ایوب خان کی بنائی گئی سرکاری جماعت، کنونشن مسلم لیگ کے روح رواں تھے بلکہ محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں صدر ایوب خان کے متبادل امیدوار اور ان کی انتخابی مہم کے انچارج بھی تھے۔ یوں ذوالفقار علی بھٹو 1958 سے لے کر 1966 تک پورے 8 برس ایک فوجی آمر کی حمایت پر کمر بستہ رہے اور اس کے زیر سایہ اپنی سیاست کی۔

یہاں تک کہ 1967 آن پہنچا، بھٹو کے ایوب خان سے اختلافات پیدا ہو ئے اور بالآخر انہوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی سیاسی زندگی کے پہلے عام انتخابات میں حصہ لینے سے قبل وہ اقتدار کا مزہ چکھ چکے تھے اور پاکستانی سیاست کی تمام تر حرکیات سے خوب واقف تھے۔ اپنے اس تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے پیپلز پارٹی نے پہلی بار 1970 کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ پورے پاکستان کی 300 نشستوں میں سے 160 عوامی لیگ کے حصے میں آئیں اور 80 نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ جمہوریت کا سیدھا فارمولا یہی تھا کہ اقتدار، سادہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کے حوالے کیا جائے مگر نام نہاد دانشوروں نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے نام سے مینڈیٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ادھر تمہاری اکثریت ادھر ہماری اکثریت کی باتیں ہوئیں، ملک دو لخت ہوا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی 80 نشستیں، بچے کھچے پاکستان میں اکثریت بن گئیں، یوں ذوالفقار علی بھٹو حکومت میں آگئے۔ حقیقت یہی ہے کہ بھٹو صاحب کی سیاسی جماعت نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز حکومت سے کیا اور اس طرح بطور سیاست دان بھی بھٹو صاحب نے پہلے حکومت کا مزہ چکھا اور پھر سیاسی جماعت بنائی۔ اپنی اسی سیاسی مگر نسبتا غیر جمہوری تجربے کی وجہ سے انہیں ہمارے سیاسی تجزیہ کار بظاہر زیادہ کامیاب گردانتے ہیں۔

جناب میاں نواز شریف نے پاکستان پر سب سے لمبے عرصے تک برسر اقتدار رہنے والے آمر مطلق جنرل ضیا الحق کے زیر سایہ، جنرل جیلانی کی گورنر شپ میں اپنی سیاست کا اغاز کیا۔ اس دوران 1981 میں وہ پنجاب کے صوبائی وزیر خزانہ اور 1985 میں پنجاب کے وزیر اعلی بھی رہے۔ 1988 میں جنرل ضیا کی موت کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں وہ فوجی اسٹیبلشمنت کے زیر سایہ بنائے گئے اسلامی جمہوری اتحا دکے پلیٹ فارم سے سیاست کرتے رہے۔ 1990 کے عام انتخابات میں بھی میاں صاحب نے اسی پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا۔ انہوں نے 1981 سے 1993 تک پورے 12 برس فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے مشن سے وابستگی برقرار رکھی۔ یہاں تک کہ 1993 کا سورج طلوع ہوا اور انہوں نے اس برس ہونےو الے عام انتخابات میں اپنی بنائی گئی نئی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا۔ حقیت یہی ہے کہ میاں صاحب نے 1980 سے 1988 تک 8 برس سابق آمر صدر ضیا الحق سے وفاداری نبھائی اور پھر 1988 سے 1992 تک فوجی اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر رہے۔ یوں میاں صاحب کا کیس بھی ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی طرح ہی رہا۔ انہوں نے بھی پہلے اقتدار کا مزہ چکھا۔ سیاست کے گر سیکھے اور پھر بدلتے حالات کا رخ دیکھ کر اپنی سیاسی جماعت بنائی اور حاصلکیے ہو ئے سیاسی مگر مکمل غیر جمہوری تجربے کی روشنی میں ملک کے اعلی ترین عہدوں پر پہنچے۔

ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کے سیاسی سفر کا یہ تقابل ظاہر کرتا ہے کہ دونوں نے اپنی سیاست کا آغاز، فوجی چھتری کی نیچے باقاعدہ اپنے سیاسی آقاوں کی آشیر باد سے کیا جنہیں ہر دو رہنماؤں نے کئی برس اپنے سیاسی اجداد کا درجہ دیے رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو تو ایوب خان کو ”ڈیڈی ” کہتے تھے جبکہ میاں نواز شریف کے والد محترم نے بذات خود انہیں جنرل ضیا الحق کی شفقت پدری کے سپرد کیا اور کہا بھی کہ آج سے میرا یہ بیٹا آپ کا ہے۔

جہاں تک تعلق ہے عمران خان کا انہیں ان کے چاہنے والے گھسیٹ کر سیاست میں لائے۔ 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے اور پھر 1994 میں کینسر اسپتال کے افتتاح تک سے لے کر 1996 میں تحریک انصاف کے قیام سے قبل کے اخبارات کا بغور مطالعہ کریں تو عمران خان سیاست میں حصہ لینے سے مسلسل انکار کرتے رہے اور صرف سماجی شعبے میں کام کرنے کا عندیہ دیتے رہے۔
اگر سیاست کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیاسی، جماعتی یا شخصی تجزیے کی عمارت کی بنیاد جن اینٹوں پر رکھی جاتی ہے، نتائج کے حصول میں انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ رکھ کر نہیں دیکھا جاسکتا اور نہ ہی کسی ایک اینٹ کا رخ اس عمارت کی اصل بناوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔

پارٹ ٹائم سوشل میڈیا پر تجزیہ نگاری فرماتے جزوقتی تجزیہ کار تو ایک طرف، ہمارے عہد کے اچھے بھلے سینیئر اور ملکی میڈیا سے برسوں وابستہ رہنے والے سینئر تجزیہ کار بھی تحریک انصاف اور عمران خان کے معاملے میں ردعمل کی کیفیت کا شکار نظر آتے ہیں جس کی وجہ صرف اور صرف یہ نظر آتی ہے کہ وہ اپنے تجزیے کی کسی ایک اینٹ کو ہی اپنے قارئین کے سامنے پوری عمارت بتلانے لگتے ہیں۔

ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے تین رہںماؤں کی سیاسی جدو جہد کا ذکر جب بھی آتا ہے وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ارے جناب اس ملک میں تمام سیاسی رہنما اسٹیبلشمںٹ کے گملے میں پیدا ہوئے۔ اور یوں وہ ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان، نواز شریف اور جنرل ضیا الحق کا ذکر کرتے ہوئے ایک ہی جست میں عمران خان کو جنرل پرویز مشرف کے ساتھ نتھی کر ڈالتے ہیں۔

حضور! کیا آپ جانتے نہیں کہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور محترم نواز شریف، برسا برس فوجی جرنیلوں کی کابینہ میں رہے اور پھر اس سیاسی لذت کو طویل تر اور پاکیزہ کرنے کے لئے انہوں نے اپنی اپنی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ جب کہ عمران خان، جنرل مشرف کے جمہوریت پر شب خون مارنے سے ساڑھے تین برس پہلے نہ صرف ایک سیاسی جماعت بنا چکے تھے بلکہ بری طرح انتخابات ہارنے کا کامیاب تجربہ بھی کرچکے تھے۔

کچھ سیاسی تجزیہ کار س ضمن میں یقینا یہ کہہ اٹھیں گے کہ عمران خان کی سیاسی جماعت بنانے میں ریٹائرڈ جرنیل حمید گل مرحوم یا کچھ اور ریٹائر جرنیلوں کا ہاتھ تھا۔ اگر کچھ دیر کو ہم مان بھی لیں کہ ایسا ہی تھا تو پھر کچھ سوالات مزید پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ریٹائر جرنیل اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پاکستانی اسٹیبلشمںٹ کا حصہ تھے؟ اگر تھے تو پھر کیونکر عمران خان، پاکستانی اسٹیبلشمںٹ کی مدد سے 1997 میں اپنے پہلے ہی انتخابات کے بعد حکومت میں نہ آسکے۔ جیسے کہ مسٹر بھٹو اور مسٹر شریف کے کیس میں ہوا کہ مسٹر بھٹو کی جماعت کو 1970 میں شیخ مجیب کے مقابلے میں مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمںٹ کی حمایت جبکہ مسٹر شریف کو 1988 میں بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ حمایت حاصل تھی، جس کے نتیجے میں مسٹر بھٹو کو مغربی پاکستان جبکہ نواز شریف کو پنجاب میں اقتدار دلوایا گیا۔

سیاسی طالب علموں کی حیرت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب سیاسی کارکنوں کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ایوب خان کی تصویریں اور نواز شریف اور جنرل ضیا الحق کی تصویریں سوشل میڈیا کی زینت بننے لگیں تو اچھے خاصے سینئر سیاسی تجزیہ کار ردعمل میں عمران خان اور جنرل پروزی مشرف کی تصویروں پر رائے زنی کرنے لگتے ہں۔ حضور سیاست کسی علیحدہ جزیرے میں تو نہیں ہوسکتی نا۔ سیاست دان فوجی جرنیلوں سے ملیں گے بھی اور ان کی تصویریں بھی اخبارات کی زینت بنیں گی۔ مسئلہ مگر اس وقت پیدا ہوگا جب سیاست دان، جمہوریت پر شب خون مارنے والوں سے کوئی سیاسی یا ذاتی فائدہ حاصل کریں گے۔ کسی کو ذوالفقار علی بھٹو کی جنرل ایوب خان اور نواز شریف کی جنرل ضیا الحق کے ساتھ تصویر پو ہرگز کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر مسٹر بھٹو اور مسٹر شریف نے ان دونوں جرنیلوں سے سیاسی اور ذاتی فائدے نہ اٹھائے ہوتے۔

زرا تھوڑی دیر کو صرف یہ فرض کر لیں کہ اگر جنرل ایوب خان نے مسٹر بھٹو اور جنرل ضیا الحق نے مسٹڑ شریف کو اپنی کابینہ میں جگہ نہ د ی ہوتی تو کیا مسٹر بھٹو اور مسٹر شریف وہ سیاسی کامیابیاں حاصل کرسکتے تھے جن کی بنیاد پر آج ان کی ساری سیاست کھڑی ہے۔ اور کچھ ہوتا یا نہ ہوتا اگر مسٹر بھٹو کو، جنرل ایوب اور مسٹر شریف کو جنرل ضیا کی جانب سے ابتدائی سیاسی کمک نہ ملتی تو کم از کم ان کا سیاسی سفر لمبا ضرور ہوجاتا اور دونوں کو وہ سیاسی منزل کہیں دیر سے ملتی جس پر آج ہر دو کے سیاسی وارثین اتراتے نظر آتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3