صبحِ بے نور


میرے جیسے پیدائشی امید پرست کے لئے کسی بھی تحریر کا یہ عنوان رکھنا انتہائی تکلیف کا باعث ہے۔ اصولاً اس تحریر کا عنوان صبحِ درخشاں ہونا چاہیے تھا کہ کل میرے ملک کے بیس کروڑ شہری آئندہ پانچ سال کے لئے اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ لیکن کیا کیجئے حقائق اتنے تلخ ہیں کہ فطرت کے اصول کے مطابق کل کا سویرا طلوع تو ہوگا لیکن اجالا؟ وہ اجالا جسے ہمارے شاعر نے داغ داغ کہا تھا، اب تو پورے کا پورا داغوں سے اٹ چکا ہے۔ شب گزیدہ سحر کا رونا روتے ہوئے ہمیں ’چلے چلو‘ کا مشورہ دیا گیا کہ نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی ابھی نہیں آئی تھی۔ امید پرستوں نے اس مشورے کو حکم جانا اور چلتے ہی رہے لیکن سفر دائرے سے باہر نہ نکل سکا اور چلتے چلتے ہمیشہ وہی آپہنچے جہاں سے آغاز کیا تھا۔

اس الیکشن کا جو بھی نتیجہ ہو، ایک بات سامنے دیوار پر لکھی گئی ہے کہ اس سے ہمارا کچھ بھی بھلا نہ ہو سکے گا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو آپ جو بھی نام دیں، یہ نہ سیاسی ہیں اور نہ جماعتیں۔ مافیاز کہہ لیں یا ریوڑ۔ ان کی کوئی سمت متعین ہی نہیں اور اگر کوئی ہے تو بس یہ کہ کسی طرح اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل ہو۔ الیکشن سے پہلے جس طرح نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا، عدالتیں جس طرح فعال ہوئیں، نواز شریف کے ساتھی توڑنے کےکیے جو طریقے استعمال کیے گئے، جس عجلت میں فیصلےکیے گئے، اِس سے تو صاف طور پر ظاہر ہے کہ ہر صورت نواز شریف کا راستہ روکنا مقصود تھا۔

اس سے نقصانات تو بہت ہوئے لیکن سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ الیکشن کا ماحول تشکیل نہ پاسکا۔ قومی مسائل پر کوئی صحت مند اور کار آمد بحث نہ پنپ سکی۔ شکوک و شبہات اور الزامات کے علاوہ اس الیکشن کی کوکھ سے کچھ برآمد نہ ہو پایا۔ صورتحال کو سمجھنے کے لئے حنیف عباسی پر کی گئی تازہ ترین کرم فرمائی ہی کافی ہے جس کا فائدہ پنڈی بوائے کے نام سے مشہور شیخ رشید کو ہوا ہے جس کو محترم نصرت جاوید صاحب ’بقراطِ عصر‘ کہتے ہیں۔

اس الیکشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سالہا سال تبدیلی کے خواب آنکھوں میں بسائے لوگ حقیقت پسند ہوگئے۔ وہ لوگ جو پاکستان کو اپنے خوابوں کے عین مطابق ڈھالنے میں انیس بیس کا فرق برداشت کرنے کے روادار نہ تھے، خود زمینی حقائق میں ڈھل گئے۔ میں ایسے درجنوں نوجوانوں کو جانتا ہوں جو حالات کے بہاؤ کے خلاف مسلسل تیرتے ہوئے پہلے ذرا آہستہ ہوئے، ادھر ادھر دیکھا، حالات کا جائزہ لیا، پھر رکے اپنی قیمت لگائی اور یکایک حالات کے دھارے کے ساتھ تیرنا شروع کیا۔ جلد ہی اس ریلے کے ساتھ بہتے اپنی پہچان کھو دیں گے۔ عمران خان اس بدنصیب کاشتکار کی مانند ہیں جو انتہائی سنگین حالات میں فصل کاشت کرتا ہے۔ موسم کی شدت اور حالات کا جبر برداشت کرتے ہوئے اپنی فصل کی حفاظت کرتا ہے اور جب تیار ہونے لگتی ہے تو یکایک اسے اپنے ہاتھوں سے برباد کر دیتا ہے۔

وہ خلا جو پاکستان کی روایتی سیاست کے باعث پیدا ہوگیا تھا اور جس کو اصولوں اور خدمت کی سیاست سے پر کرنے کی امید دلوں میں پالی گئی تھی، کل پر نہ ہوسکے گا چاہے۔ کل کوئی بھی جیتے اس ملک کے عوام ایک دفعہ پھر ہار جائیں گے۔ آج کچھ لوگ رات آنکھوں میں گزاریں گے، کچھ جلدی اور کچھ دیر سے اٹھیں گے۔ چاہے جاگتے رہیں، جلدی یا دیر سے اٹھیں، فرق کچھ نہیں پڑنے والا کہ ایک صبحِ بے نور ہی ہماری منتظر ہیں اس لئے سوتے رہنا ہی سب سے اچھا آپشن ہے۔ کل نیند پوری کرنا ہی بہتر رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).