کس کو ووٹ دوں؟


آخر کار وہ گھڑیاں آ گئیں جن کا میں پچھلے پانچ سال سے انتظار کر رہا تھا۔ انتظار کیوں نہ کروں؟ پانچ سالوں کے بعد ہی تو موقع ملتا ہے جب مجھے اپنے وجود کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ جب مجھے ایک احساس تفاخر گھیر لیتا ہے کہ میں بھی ایک ملک کا معزز شہری ہوں۔ میری خوشی دیدنی ہو جاتی ہے جب میں یہ سوچتا ہوں کہ میرے ووٹ کی طاقت سے ہی منتخب کردہ نمایندے میرے پیارے ملک کی بھاگ ڈور سنبھالیں گے۔

یہی نمایندے میرے حال و ماضی پہ نظر رکھتے ہوئے ملک کے مستقبل کے فیصلے کریں تاکہ میرا ملک بھی اقوام عالم میں ایک با عزت مقام حاصل کر سکے۔ مگر! وائے ستم کہ الیکشن کے بعد یہ حسین احساس آہستہ آہستہ زائل ہونا شروع ہوجا تا ہے اور اگلے الیکشن تک میں اپنا وجود کہیں کھو ہی چکا ہوتا ہوں کیوں کہ جس امید پہ ووٹ دیتا ہوں وہی امید میرے ہی منتخب کردہ نمایندوں کے ہاتھوں ان کے غیر جمہوری طرز عمل، دُہرے معیار، منشور سے رو گردانی اور غیر جمہوری رویوں سے بہت جلد ہی چکنا چور ہو جاتی ہے۔ ان برسوں کا تو ذکر بھی مجھے میری کم مائیگی اور کم حیثتی کا احساس نقطہ عروج پر پہنچانے کا باعث بن جاتا ہے جب ملک خداداد پہ آمروں کا غلبہ تھا۔ جب بھی غیر جمہوری قوتوں کے پس پردہ کھیلے گئے کھیلوں کے تذکروں کو سنتا ہوں یا پڑھتا ہوں تو گھٹن کا جان لیوا احساس مجھے جینے نہیں دیتا۔

الیکشن کا بگل بج جاتا ہے تو میں اپنے وجود کی کرچیاں پھر سے چنتا ہوں، پھر سے جی اٹھتا ہوں اور اپنے آپ کو ’ہما‘ سمجھنے لگتا ہوں جو کسی کے سر پہ بیٹھ جائے گا تو بادشاہ بن جائے گا۔ ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی میری سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ میں کس کو ووٹ دوں؟ یقیناً یہی الجھن ہر الیکشن میں ہوتی ہے کیوں کہ میں اندھی تقلید کا سرے سے قائل نہیں کہ جس کو پچھلی بار ووٹ کی پرچی سے نوازا تھا، اس کو بغیر پرکھے جانے اس بات بھی منتخب کر دوں۔

اب کی بار تو الجھن کے عوامل کچھ زیادی ہی ہیں جیسے کچھ امیدواروں کا نا اہل ہونا، غیر جمہوری قوتوں کے ایک بار پھر ملک کو اپنے ناکام تجربوں کی بھینٹ چڑھانے کی کوششوں کے تذکرے، سیاسی پارٹیوں کی اپنے منشور کی ترویج کی بجائے دوسروں پر الزامات کی بھرمار، سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن کے متعلق پاکستان کے اہم اداروں کی طرف سے جانب داری کی شکایات، نوجوانوں کا دیدنی جوش و خروش اور اپنے پسند کے امیدواروں کو فرشتہ ثابت کرنے کی تابڑ توڑ کوششیں، سوشل میڈیا کا پیدا کردہ شعور اور اس کے ذہنوں پہ اثرات، انٹرنیٹ پہ موجود ماضی کے قصوں پہ نہایت آسانی سے رسائی وغیرہ۔

اگرآ پ زیر لب مسکراتے ہوئے یا شاید غصے کی حالت میں کہہ رہے ہوں کہ جاؤ بھئی اپنا ووٹ ڈالو اور گھر جا کے سو جاو، ہمارا وقت کیوں برباد کر رہے ہو تو آپ حق بجانب ہیں۔ مگر ایک منٹ کے لیے میری بات توجہ سے سن لیجیے، شاید آپ کا غصہ کچھ کم ہو جائے۔ کیا آپ اس کیفیت سے نہیں گزرے؟ زیادہ دیر کے لیے نہ سہی کچھ دیر کے لیے تو سوچا ہو گا کہ کس کو ووٹ دوں؟ کس کے سر پہ تاج رکھوں کہ آپ میرے بادشاہ یا ملکہ ہو؟ (بادشاہ اور ملکہ اس لیے کے بعد میں انھوں نے رویہ توبادشاہوں اور ملکاوں والا ہی رکھنا ہے ناں)۔ یقیناًآپ بھی اسی کیفیت سے گزررہے ہوں گے۔

سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم، منشور، سابق تجربات، مشاہدات، دوستوں اور حریفوں کے تند و تیز جملوں سے بھرپور حمایت اور مخالفت، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے اثرات سے فیصلہ کرنا، واقعی میں مشکل نہیں ہو گیا۔ آپ کا مشورہ درکار ہے میری رہنمائی کریں ووٹ کس کو دوں؟

کیا میں اپنے ووٹ سے ان کو مستفید کروں جنھوں نے حالیہ جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل کر لیے ہیں۔ جو پرانے تجربہ کار ہیں جن کو حکومتیں کرنے اور گرانے کا وسیع تجربہ ہے۔ جوڑ توڑ میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ مختلف طرح کے بھی بحرانوں سے نبرد آزما ہونا جانتے ہیں۔ انفراسٹرکچر میں بہتری کا سہرا (کم از کم ایک صوبے کی حد تک) تو بہرحال جن کے سر جاتا ہے۔ ملک کی معیشیت کے اہم اشارے جی ڈی پی اور شرح نمو کوبہتر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک وزیر اعظم کی عدالت سے نا اہلی کے باوجود جمہوری عمل کی بساط کو بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے لیڈر نے عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود وطن واپس آ کر جیل میں جانے سے پہلی بار ایک حقیقی لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اب وہ غیر جمہوری قوتوں کی بیساکھی کے بغیر جینا چاہتے ہیں۔ مگر جب میرا ذہن کرپشن اقربا پروری، اور وہی پرانا تھانے کچہری والے طرز حکومت، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہاتھوں کی طرف جاتا ہے تو دل سے ایک زوردار ”نہیں“ کی آواز آتی ہے کہ میرے منتخب نمایندے ایسے نہیں ہونے چاہیں۔

پھر دھیان پاکستان کی جمہوری روایات کی امین پارٹی کی طرف جاتا ہے۔ جس پارٹی کی تاریخ جمہوریت کے لیے قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جی ہاں، وہی پارٹی جو کچھ سال پہلے تک فیڈریشن کی علامت کے طور پر جانی جاتی تھی، جس کی جڑیں عوام میں اس قدر مضبوط تھی کہ آمریت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کو ختم نہ کر سکی۔ مگر کیا کروں اس پارٹی کی کرپشن نا اہلی اور اقربا پروری کے تذکرے زبان زد عام ہیں۔ ان کو بھی عوام کی ترقی اور وقار سے کوئی دل چسپی نہیں رہی بلکہ صرف اپنے اقتدار کا لالچ ہی اس کا طرہ امتیاز ہو گیا ہے۔ جو محض ایک صوبے میں ایک زبان بولنے والوں کی پارٹی بن کے رہ گئی ہے۔

سب سے اہم اور ستم کی بات یہ ہے کہ اس پارٹی کے بھی مختلف مواقعوں پر غیر جمہوری قوتوں سے ڈیل کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ دوسری طرف اپنے صوبے میں حکومت کی انتہائی خراب کارکردگی کی مثال قائم کر دی۔ اگرچہ پارٹی کی نوجوان قیادت دوبارہ سے عوام کی توجہ حاصل کرنے کی ایک مثبت کوشش کر رہی ہے مگر ہنوز دلی دور است۔ میں نے اپنا ووٹ ان کی جھولی میں میں نہیں ڈالنا۔

پھر میرا خیال اس سیاسی پارٹی کی طرف جاتا ہے، جو اپنے آپ کو تبدیلی کا چیمپین کہلاتی ہے، کرپشن اور اشرافیہ کے خلاف ایک بھرپور آواز اور جنون بن کے ابھری ہے۔ اس کے قائد پچھلے دو دہائیوں سے زائد عرصے سے سیاسی افق پہ موجود ہیں اور اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلارہے ہیں۔ عوام کا کرپشن کے خلاف شعور بیدار کرنے اور سیاسی اشرفیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ان تھک کوششوں سے بہت سے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکے ہیں۔ مگر کیا کروں آگہی کا عذاب یہاں بھی چین سے نہیں بیٹھے دیتا۔ نظر جب تبدیلی کی دعوے دار پارٹی کے قائد کے آس پاس موجود چہروں کی طرف جاتی ہے تو خیال آتا ہے ”نہیں“، یہ تو وہی لوگ ہیں جن کو ہم دہائیوں سے سہہ رہے ہیں۔

جمہوریت میں ایک شخص نہیں بلکہ ٹیم تبدیلی لاتی ہے اور یہ وہ ٹیم نہیں جس سے تبدیلی کی توقع رکھی جائے۔ اپنے موقف سے پھر جانا اور سب سے اہم بات غیر جمہوری قوتوں کی حما یت وہ عوامل ہیں جو میرے لیے کسی صورت قابل ستایش نہیں۔ جب قابل ستایش نہیں تو پھر ووٹ کیوں دوں؟

وہ سیاسی پارٹیاں جو علاقائی یا کسی خاص زبان بولنے والوں کے حق نمایندگی کی دعوے دار ہیں میری توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کر وا سکتیں۔ الیکشن کی ضرورت کے تحت مذہب کے نام پہ اکٹھے ہونے والے ہجوم کو بھی آزمانے میں میری دل چسپی کا کوئی سامان نہیں۔ رہ گئے آزاد امیدار تو ان کو میں اپنے ووٹ کی بولی لگانے کی اجازت کبھی بھی نہیں دے سکتا۔ الجھن ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ کیا کروں کس کو ووٹ دوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).