تم “عدل” کرو ہو کہ کرامات کرو ہو


لاڈلے نیازی کے قریبی ساتھی اور پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں دائر کیا۔ جس کے الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ اس کیس میں اکبر ایس بابر نے تمام ثبوت مہیا کردئیے۔ لیکن کمال سہولت و صفائی سے کیس کو الیکشن کمیشن اور میڈیا میں دبا دیا گیا۔ یہ پیسے کس نے بھیجے، کیوں بھیجے، ایجنڈا کیا تھا ، پیسے کہاں خرچ ہوئے، کس نے کئے سب چھپا دیا گیا۔

کرپشن اگر اس ملک میں ان مقتدر قوتوں اور ان کے چیلوں چماٹوں کا مسئلہ ہوتا تو اس کیس پر بھی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرلی جاتی، اسے پر بھی میراتھون ٹرانسمیشن ہوتی، اس کیس کے ٹکرز اسکرینوں پر سنسنی بکھیرتے۔

ایک کیس میں عدلیہ نے ملک میں رائج قانون اور ایف بی آر کے ضابطوں اور وضع کردہ تعریف کو رد کرکے بلیک لاء ڈکشنری کا سہارا لیا اور سارے قانونی نظائر کو پامال کرکے ایک دو دہائی اکثریت سے منتخب وزیر اعظم کو نااھل کرکے رخصت کردیا جبکہ اس عدالت کی اپنی قائم کردہ عدیم النظیر ہیروں پر مشتمل وٹس ایپوی جے آئی ٹی بے پناہ وسائل اور اختیارات ہے باوجود کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی۔ معاملہ پانامہ کا تھا فیصلہ اقامہ پر سنا دیا گیا۔ یہ دنیا کا واحد فیصلہ ہے جس میں سزا پہلے ہوئی اور ٹرائل بعد میں کیا گیا اور ٹرائل کی بھی نگرانی خود متنازعہ عدالتی بینچ نے خود کی۔ مزے کی بات یہ کہ انہی ججز کے سامنے جب پانامہ کیس اور اس میں وضع شدہ اصول اور misdeclaration کی تعریف کو بطور نظیر پیش کیا گیا تو وہ بہت مضطرب اور رنجیدہ و کبیدہ خاطر ہوئے.اور اس کو بطور نظیر تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ اتنا چڑچڑا پن کا شکار ہوئے کہ وکیل صاحب کو بے نقط سنا ڈالیں۔ دوسرے موقع پر misdeclarartion کی نئی تعریف شیخ رشید “فرزند راولپنڈی ” کے لئیے نظریہ ضرورت کے تحت گھڑی گئی تو اس مقدمے کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسی کا اختلافی نوٹ عدلیہ اور اس کے فیصلوں کی تاریخ میں ایک روشن باب کی طرح موجود رہے گا.

ٹرائل کے بعد بھی جو فیصلہ آیا اس میں بھی احتساب کے قانون کے مطابق جج صاحب نے 9 (4) سے ملزمان کو بری کردیا کہ ان پر کوئی بددیانتی ثابت نہیں ہوئی۔ معاملہ رہ گیا ایون فیلڈ فلیٹس کا تو اس میں عدالت نے کہا کہ ہم منی ٹریل سے مطمئن نہیں ٹھیک ہے تو استغاثہ ثابت کرتا اور ثبوت پیش کرتا۔ لیکن وہ اس میں کوئی ایک ثبوت نہ لا سکا۔ قانون میں مشہور ہے accused is pampered child of law۔ یعنی ملزم قانون کا لاڈلا ہوتا ہے۔ الزام علیہ اور استغاثہ کا کام ہے کہ اپنے لگائے گئے الزامات کا ثبوت دے ورنہ ملزم کی یہ ڈیوٹی نہیں کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ بے گناہ بھی ہے۔ یہاں استدلال یہ اختیار کیا گیا کہ چونکہ استغاثہ اپنا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا لیکن ملزم کی صفائی سے ہم مطمئن نہیں اس لئیے اسے سزا سناتے ہیں.

دوسرا فیصلہ رات کے گیارہ بجے حنیف عباسی کے خلاف سنایا گیا۔ دراصل یہ فیصلہ تو حنیف عباسی کے خلاف آیا لیکن یقین جانیں اس میں سے سزا عدالت کو ہوئی۔ ہوسکتا ہے حنیف عباسی اس مقدمے بعد ازاں بری ہو جائیں یا چند سال سورج کا منہ نہ دیکھ سکیں لیکن یقین سے کہتا ہوں کہ عدالت ساری زندگی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔ وہ.کیا وجہ تھی کہ جس مقدمے کو سات سال سے لٹکایا جا رہا تھا، جس میں حنیف عباسی کے وکیل بارہا درخواست دے چکے تھے کہ اس پر فیصلہ دیں لیکن اے این ایف اس پر تاریخیں لے رہی تھی۔ کیا وجہ تھی کہ اس مقدمے میں نامزد باقی سات لوگوں کو شک کا فائدہ دے دیا گیا لیکن حنیف عباسی کے لئے اس شک کو شق میں بدل دیا گیا۔ اس کیس میں انسداد منشیات کے فاضل جج ارتداد انصاف میں ملوث پائے گئے۔ انہوں نے قانون شہادت کو جدت کی نئی بلندیوں سے ہم آہنگ کیا اور قیاس اور رائے کی اہمیت اجاگر فرمائی۔

بھلا عمر قید کی اہمیت ان کی رائے ، قیاس اور ماخذ علم سے بڑھ کر کیونکر ہوسکتی ہے۔ سب سے اہم معاملہ منشیات کی میسر لسٹ میں ایفی ڈرین کا شامل نہ ہونا تھا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ چونکہ نہ تو کوئی کیمیکل اینڈ ڈرگ ایکسپرٹ اس کیس میں بطور گواہ شامل ہوا ہے اور نہ ہی میں خود اس علم میں مہارت کا دعویدار ہوں تو میں نے گوگل کی خدمات حاصل کیں۔ گوگل گرو کے فیض سے باصفا جج صاحب یوں فیض یاب ہوئے کہ ان کے سینے کی گرہیں کھل گئیں اور ان کے دل پر ایک لنک القاء ہوا جس میں درج تھا کہ ایفی ڈرین ایک نشہ آور ڈرگ کے بنانے میں استعمال ہوسکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ اس طرح سے جو چیز نشہ آور ممنوعہ ڈرگ میں بطور substance استعمال ہوسکتی ہے اسے بطور نشہ آور ممنوعہ ڈرگ ہی سمجھا جائیگا۔ اس شاندار فیصلے کے بعد تمام فروٹ والے اور گنے کے کاشتکاروں کو شدید پریشانی لاحق ہے اور وہ اس مخمصے کا شکار ہیں کہ کہیں اگلی باری ان کی ہی نہ ہو کیونکہ دیسی شراب تو مملکت خدداد پاکستان میں جس کثرت سے میسر ہے ان کے بنیادی اجزاء substances یہی دو آئٹم ہیں۔

دنیائے قانون کو پاکستان کا شکر گذار ہونا چاہیئے کہ پاکستان کی عدلیہ انہیں وقتا فوقتا اپنے انقلابی فیصلوں سے ظرافت کا سامان میسر کرتی رہتی ہے۔ جو اس ظریفانے کو جگ ہنسائی قرار دے اس کو بھی پھانسی دے دو۔ پہلے ہمارے یہاں صرف عسکری ظرافت تھی اب عدالتی ظرافت نے چار چاند لگا دئیے ہیں۔ مرحوم کرنل ر ضمیر جعفری کی روح پر نجانے کیا بیت رہی ہوگی۔

ہمارے قابل و فاضل ججز نئی jurisprudence کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ پہلے ہمیں جو قانون کے معلوم ماخذ معلوم تھے ان میں اضافہ کیا گیا ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).