ہاں میں شیڈول کاسٹ ہوں


تھر سے رشتہ، روح کے اس رشتے کی طرح رہا ہے جو سدا من میں اس طرح بسا رہتا ہے کہ نہ وہ اظہار کا پابند ہو اور نہ ہی اس سے کوئی نہ توقع بندھی ہو۔۔۔

یہ کوئی زمانہ طالب علمی کا تھا، شاید نوے کے ابتدائی دن تھے کہ مٹھی جاتے ہوئے رنگ کا ڈبہ اور برش ساتھ  لے لیا تھا اور بیچ شھر جو میونسپلٹی کی ٹنکی تھی اس پہ قوم پرستانہ سیاسی چاکنگ کی۔۔۔ دو ہزار  دس کے بعد انہی دیواروں پہ کچھ اور زندہ باد کے نعرے لگے دیکھے تھے۔۔ ویسے پورے پاکستان میں لگ بھگ ایک ہی طرح نعرے اور کچھہ نمایاں پارٹیاں ہوتی ہیں۔۔۔ مگر پتہ نہیں کیوں ہر نئے شہر میں جاتے مجھے دیواروں پہ لکھے نعرے پڑھنے کی عادت میرے ساتھہ بوڑھی ضرور ہوئی ہے، گئی نہیں۔۔

اور اس دفعہ مٹھی کے رنگ میں وہ نعرے بالکل نئے تھے۔۔ نعرے کیا تھے “بی آئی ایف زندہ باد”

اور گڈی کی بھٹ سے لیکر شہر کی اسی ٹنکی پہ بھی یہ نعرے نظر آئے۔۔

سوچا کسی سے پوچھوں تو اسی وقت وہیں چوک پہ ہی یونیورسٹی کے لڑکے نظر آ گئے اور وہیں ڈھابے پہ صرف چائے کی پیالی پہ انہوں نے بتایا کہ یہ بی آئی ایف دراصل بھیل انٹلیکچوئل فورم ہے۔ لڑکے شاید چیتن بھیل اور لجپت یا ان کے ساتھی تھے جو میرے شاگرد رہ چکے تھے۔ پر یہ آئیڈیا کہ وہ تعلیم سے فراغت کے بعد اس طرح اپنی کمیونٹی کو آرگنائیزیشن کریں گے یہ میرے تصور میں نہ تھا۔۔

اب حیران ہونے اور ان سے متاثر ہونے کی باری میری تھی۔ اس تنظیم کے ذریعے ان کو اپنی کمیونٹی کے لئیے کیا کرنا ہے اس معاملے میں وہ بہت کلئیر تھے۔

چیتن کے ساتھہ لجپت گھمن سنگھ بھیل فورم کا فائونڈر ممبر تھا۔ اس وقت بھی بھرپور انرجی اور اس یقین کے ساتھہ کمیونٹی کے مستقبل کی بات کر تا رہا۔

کوئی زمانہ ایسا تھا کہ انقلابی اور قومپرست تنظیموں میں تھر سے اس شیڈیول کاسٹ کے کسانوں اور کچھ پڑھے لکھے لوگوں کی نمائندگی ضرور رہتی تھی۔

باقی پارلیمنٹ کی سیاست میں ان کا نہ نام، نہ پارٹی بس ووٹ اہم ہوتا۔ مگر اب اس سیاست کا دور عملی طور پہ بالکل ختم ہو چکا تھا۔

اپنے دھرم سے بھی اونچ نیچ کا شکار اور پھر محنت کا استحصال ۔۔۔ اگر کہا جائے کہ یہ پورے سندہ کے غریبوں میں غریب ترین کمیونٹی ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ سیاسی شعور کی نسبت سے کمیونسٹ پارٹی، عوامی پارٹی اور جئے سندہ سے تعلق رکھنے کے باوجود اکثریت صرف بے زمین کسانوں پہ مشتمل جو بیک وقت سماجی چھوت چھات سے لیکر طبقاتی استحصال کا شکار تھی۔

ہندو جاتی کے اعتبار سے بھی کمتر سماجی رتبہ رکھنے کے کارن یہ یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ لڑکوں نے اپنے دردوں کا خود درمان بننے کی کوشش کی۔ کمیونٹی کی سطح پہ خود کو بھیل انٹلیکچوئل فورم کے بینر تلے آرگنائیزیشن کرنا شروع کیا۔

اور یہ ان کی لگن اور محنت اور پختہ یقین کی علامت رھی کہ پوری لوئر سندہ تھر، سانگھڑ ، میرپورخاص ٹنڈو الھیار ، بدین، حیدرآباد میں بھیل کمیونٹی کو آرگنائیزیشن کیا۔ ان کے سالانہ جلسے میں دس سے بیس ہزار لوگوں کی شرکت ہوتی۔

کبھی تعلیم کا سال مناتے۔

میڈیکل اور انجنیئرنگ ینورسٹیوں میں طلبہ کی کمیٹیاں کام کرتی۔۔کبھی احتجاج پہ ہوتے کبھی مطالبے کر رہے ہوتے

بظاہر کسی بھی سیاسی و سماجی طاقت کو چیلنج کئیے بغیر بھیل انٹلیکچوئل فورم نے اپنا دائرہ کار بڑھایا۔۔ 2013ء کی ملکی الیکشن میں سیاسی پارٹیوں نے ان کی کچھہ لیڈرشپ کو توڑا بھی مگر یہ تنظیمی توڑ پھوڑ کا شکار ہونے سے بچنے کے لئیے براہ راست سیاست میں حصہ لینے سے گریز کرتے۔

شیڈیول کاسٹ بھیلوں، کولہیوں اور میگھواڑ اتحاد اور کمیونٹی ارگنایزیشن کے بننے کے رجحان کو دیکھتے ان شیڈیول کاسٹ کی جدا جدا تنظیموں کو دلت تحریک کے لئیے آرگنائیز کرنے کی غرض سے دلت تحریک کےابتدائی دنوں میں خود کسی حد تک اس کی بنیادی بحث کا متحرک حصہ رہی کہ میرے نزدیک یہ طبقاتی لڑائی کا ابتدائی مرحلہ تھا۔

کمیونسٹ پارٹی کی حمایت کے باوجود کئی مارکسی دوست اس بحث میں شیڈیول کاسٹ کسان کے جاتی کے سوال کو گروہی سمجھتے رہے۔ کچھہ دوستوں کا خیال تھا کہ جاتی کے سوال پر یہ ہندو اقلیت کو مزید تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ دلت تحریک تو اس سیاسی فہم میں میں آرگنائیز نہ ہوسکی پر میرا تعلق بھیل انٹلیکچوئل فورم سے اور قریب ہوا کہ اس میں اب نہ صرف آرگنائیزیشن کی حد تک مچورٹی آ گئی تھی مگر سیاسی حوالے سے وہ تمام شیڈیول کاسٹ کو طبقاتی بنیادوں پہ منظم کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

اسکالرشپ، تعلیمی اداروں میں داخلہ اور اقلیتی کوٹہ میں مناسب حصے سے لے کر آدم شماری میں شیڈیول کاسٹ کو موبلائیز اور منظم کرنے کا بہہت بڑا کام کیا۔

حیرت کی بات یہ تھی کہ اس پسے ہوئے طبقے کی جدوجہد سے مقامی میڈیا بے خبر رہتا۔۔ اگر میں کہوں کہ سندہ میں بھیل انٹلیکچوئل فورم مختلف ایشوز پہ کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ متحرک رہنے والا فورم ہے تو غلط نہ ہوگا۔

سندہ کی راجدھانی کراچی سے لے کر حیدرآباد اور پھر اسلام کوٹ مٹھی عمرکوٹ تک یہ فورم ہر جگہ بڑے بڑے پروگرام کرتا رہا۔

چیتن، مھیش اور لجپت ہی لڑکے ہمیشہ مجھے حیران کر دیتے کہ ہر سال جس طرح جھموری طریقے سے مرکزی باڈی کا چناؤ ہوتا۔ باقاعدہ الیکشن کمیشن بنتا۔۔۔

لجپت 2016 میں مرکزی صدر بنا ۔۔اور اب جب اس نے ملک کے چناؤ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو فورم سے استعفی دیا کہ ابھی تک فورم نے باقاعدہ سیاسی تنظیم کا ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ فورم کے تمام ممبر اپنے ووٹ دینے کے فیصلے میں آزاد ہوتے مگر یہ احساس سب کو تھا کہ تھر میں بھیل کمیونٹی جو شیڈیول کاسٹ میں سب سے بڑی کمیونٹی سمجھی جاتی ہے اس کی مناسب نمائندگی کوئی جماعت نہیں کرتی۔

مگر اب بھیل کمیونٹی نے لجپت بھیل کو اپنا نمائندہ چن لیا تھا یوں آزاد امیدوار کی حیثیت سے تھر کے اسلام کوٹ کے حلقہ نمبر 56 سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔

لجپت بھیل کے پاس مد مقابل باقی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں جتنا پیسا تھا نہ کوئی باہر کا اثر رسوخ ۔۔۔

شیڈیول کاسٹ کے وہ کتنے ووٹ لے سکتا ہے یہ فیصلہ تو 25 جولائی ہی کرے گا مگر۔ میں اگر کہوں کہ اس پختگی کے ساتھہ اس کا اپنی جاتی کے ساتھہ کھڑا رہنا مجھے حیران کر گیا ہے۔

کل جب ملک گیر پارٹی کا سربراہ بلاول بھٹو ننگر پار کر میں خطاب کر رہا تھا تو میڈیا اس کے مجمع کا حجم دکھا رہا تھا یہ واقعی بلاول بھٹو کی طاقت کا بڑا مظاہرہ تھا

مگر دوسرے دن جب لجپت بھیل کے جلسے کے فوٹو لگے تو ۔۔۔مجھے لگا کہ اب جلد تھر کی قسمت پیروں اور وڈیروں کے ہاتھوں سے نکل کر ان خاک افتادہ نسل کے ہاتھوں میں جانے والی ہے۔۔۔ میڈیا نے بے شرمی کی حد تک اس بڑے جلسے کو مکمل طور پہ نظرانداز کیا۔ در در بھٹکتے، برانڈیڈ لیبر کی شکل میں وڈیروں کے تاحیات قیدی سمجھے جانے والے یہ بھیل جن کو موھنُجو دڑو کا اصلی وارث کہا جاتا رہا اب اکھٹے ہو رہے تھے۔ تاریخ ان کے حق میں کروٹ لے یا نہ لے مگر صدیوں سے در در بھٹکتی یہ نسل اب اب اپنی تقدیر خود لکھے گی۔۔ لجپت بھیل اس جلسے میں تم نے یہ فیصلہ سنا دیا۔۔

ہاں سچ کہوں لڑکے تمہارے اس پختہ یقین اور جلسے میں شامل لوگوں نے مجھے اک بار پھر حیران کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).