بے رنگ پیوند



ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو محفل میں دیر سے آئیں لیکن بہت قلیل وقت میں نہ صرف اپنی جگہ بنانے میں کام یاب ہوں، بلکہ پوری محفل پر چھا جائیں۔ سلمیٰ جیلانی بھی انھیں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے بہت دیر سے لکھنا شروع کیا لیکن بہت جلد ادبی دنیا میں ایک مقام اور شناخت بنانے میں کام یاب ہو گئیں۔ بنیادی طور پر وہ تعلیم و تعلم کے پیشے سے وابستہ ہیں لیکن شاعری کرنا اور کہانیاں لکھنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ انھوں نے سفرنامے بھی لکھے ہیں اور ترجمہ نگاری بھی کی ہے۔ انگریزی سے اردو میں کیے، ان کے ترجموں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ابھی حال ہی میں ان کی کہانیوں کا مجموعہ ”بے رنگ پیوند“ سامنے آیا ہے؛ ادبی حلقوں میں جس کی باز گشت سنی جا رہی ہے۔ اس کتاب کو انہماک انٹرنیشنل پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے۔ اس میں چھوٹی بڑی کل اکیس کہانیاں اور کچھ یادداشتیں جن میں دو ان کے والدین یعنی امی اور ابو کی کہانیاں بھی شامل ہیں۔

سلمیٰ جیلانی کی کہانیوں کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی روانی اور ندی کی طرح بہاو ہے۔ تجسس اور تحیر ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہائے لیے جاتی ہے۔ ان کی کہانیوں میں ایک قسم کا بے ساختہ پن ہے۔ انھوں نے مختلف ممالک اور شہروں کے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور ان کو اپنی کہانیوں میں برتنے کی کوشش کی ہے؛ جس میں وہ خاصی حد تک کام یاب بھی رہیں۔ ان کی کہانیوں میں شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی زندگی کا عکس بھی نظر آتا ہے، جس میں سادگی اور معصومیت موج زن دکھائی دیتی ہے۔

سلمیٰ جیلانی کی کہانیوں میں بھاری بھرکم اور بہت زیادہ رنگین الفاظ کا استعمال نہیں ہوتا۔ وہ بہت پیچ دار اور گھما پھرا کر بات کرنے کی بھی عادی نہیں ہیں۔ جس کی جھلک ان کی کہانیوں میں بھی نظر آتی ہے۔ جس کو پڑھنے کے بعد قاری سوچنے مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ حقیقت تھی یا کوئی خواب اور یہ کہ اس کو دور کرنے کے لیے ہم اپنے تئیں کیا کر سکتے ہیں۔

ان کی ہر کہانی میں انسانیت کا دکھ ، درد اور کسک چھلکتا نظر آتا ہے، جو ان کی انسانیت دوستی اور امن پسند ہونے کی دلیل ہے۔ چوں کہ انھوں نے دنیا دیکھی ہے تو مختلف جگہوں کی وادیوں، شاہ راہوں، سڑکوں، تاریخی زمانوں اور حادثات و واقعات کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ کہانی کا حصہ بناتی ہیں۔ ہم ان کی کہانیوں میں مفت دنیا جہاں کی سیر بھی کر لیتے ہیں۔

یوں تو ان کی تقریبا سبھی کہانیاں ہی پڑھی جانے کے لائق ہیں، لیکن مجھے ”منجمد سسکیاں“، ”لی شوئی کی گلیوں میں“، ”سوئیپر“، ”چاند کو چھونے کی خواہش“، ”دردِ لا دوا کا دوا ہو جانا“، ”عشق پیچاں“، ”ریفیوج ہاوس میں ایک رات “ اور ”یادوں کی ڈائری“ نے خاصا متاثر کیا۔ کہانی ”منجمد سسکیاں“ میں افسانہ نویس نے حالیہ دنوں میں دنیا اور خصوصا ً مشرق وسطٰی میں پیدا ہونے والی بے چینی اور اتھل پتھل کو اپنے کہانی کا موضوع بنایا ہے؛ جس میں ہجرت اور اس کے بعد کی کیفیت کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کہانی میں فوٹو گرافر کی آنکھ سے فوٹو نہ کھینچ کر بھی لفظوں سے ایسی کاری گری کی ہے کہ پورا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے اور آنکھیں نم ہوئے بغیر نہیں رہتیں۔

اسی طرح ایک کہانی ”لی شوئی کی گلیوں میں“ ہے۔ اس میں چین کے سرمایہ دارانہ نظام اور وہاں کے معاشرے کی خوب صورت عکاسی کی ہے۔ لیو زوئی کوڑا چننے والی ایک عام سی عورت کی کہانی کو ان کے قلم نے خاص بنا دیا ہے۔ یہ ایک خوب صورت کہانی ہے۔ جس میں غریب خاتون بے نام اور حرامی بچوں کو اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنے آنگن کا پھول بناتی اور انھیں پال پوس کر بڑا کرتی ہے۔ اخیر عمر میں جب اس کے قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں اور اسے پیسے کی سخت ضرورت ہوتی ہے اسے کوڑے کے ڈھیر میں سے ایک بچہ ملتا ہے، جسے وہ گھر لاتی ہے، اس کی بیٹی اس کو گھر میں رکھنے کے لیے راضی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ممتا کی ماری بوڑھی اس کو زبردستی پالتی پوستی ہے۔ ایک دن ایک امیر جوڑا اسے خریدنے آتا ہے لیکن اسے وہ نہیں دیتی اور کہتی ہے۔ جب ہم کوڑے کو قابل استعمال بنا سکتے ہیں تو انسان کو کیوں نہیں۔ یہی اس کہانی کی جان ہے، جو انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

ایک کہانی ”سوئیپر“ ہے۔ میں اس کہانی کو اس پوری کتاب کی سب سے بہترین کہانی کہوں گا۔ جس میں مصنفہ نے ایک سوئیپر کو صرف امر نہیں کر دیا ہے بلکہ مہذب معاشرے کی ایک دکھتی رگ پر انگلی رکھا ہے اور بیماری کی تشخیص کرنے میں ایک کام یاب نباض کی طرح کامیاب رہی ہیں۔ کہانی دلوں کو جنجھوڑ دینے والی ہے۔ تایا ابو کی پارو کو ٹٹولتی نگاہیں، ماموں کا طنزیہ جملہ، رومی کی شادی جاوید سے کرادو، بھنگی پاڑے میں رہنا پڑے گا تو پتا چلے گا۔ سسر کا ہاتھ ملانے کے بعد اس بات کا علم ہونا کہ جاوید ایک بھنگی کا بیٹا ہے، جا کر نہانا۔ ساس کا رویہ، دادی کی حرکت، ان سب کو بڑی خوب صورتی سے کہانی کا حصہ بنایا ہے اور معاشرے کو آئنہ دکھاتے ہوئے سبق دیا ہے، کہ انسان چھوٹا بڑا نہیں، بلکہ ہماری سوچ اور رویے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔

اسی طرح ”چاند کو چھونے کی خواہش“ بھی ایک بہترین کہانی ہے۔ یہ کہانی بھی بہت کچھ کہتی ہے۔ یہ کہانی ان مجبور اور بے بس طلبا کی داستان بیان کرتی ہے جو بہت اونچا اڑنے کا خواب لے کر بیرون ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ لیکن انھیں ان راہوں میں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیسی کیسی مصیبتیں وہ جھیلتے ہیں۔ کیسے کیسے تیر و نشتر ان پر برستے ہیں؛ انھیں کن عصبیتوں، فرقہ پرستیوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اس کہانی میں اسی کی جلوا نمائی کی گئی ہے۔ ہمارے یہاں عمومَا بیرونی دنیا میں مقیم لوگ، اس حقیقت پر کبھی بھی روشنی نہیں ڈالتے۔ ہمیشہ یورپ کا ایک انسان دوست اور مہذب چہرہ ہی پیش کیا جاتا ہے۔ یہی چیز بے چارے سیدھے سادے دیسی لوگوں کو اپنی جمع پونجی داو پر لگانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس کہانی میں سلمیٰ جیلانی نے تصویر کے دوسرے رُخ کو بہت خوب صورتی سے دکھایا ہے۔

اس کتاب کی ایک اور خوب صورت کہانی ”دردِ لا دوا کا دوا ہو جانا“ ہے۔ یہ ایک بہترین کہانی ہے جو گھر بھر کے ماحول خصوصا ساس، سسر اور نند کی لڑائی کو بڑی خوب صورتی سے بیان کرتی اور سبق سکھاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہو (پرائے گھر کی عورت) اپنے ساس سسر یا سسرالیوں کے لیے کتنا ہی کچھ کرے کچھ نا کچھ عیب نکال ہی دیا جاتا ہے۔ اس کہانی میں بھی لڑکی کا شوہر بیمار ہو جاتا ہے۔ گھر والے پرانے خیالات کی وجہ سے وید اور حکیم پر اعتبار کرتے ہوئے علاج نہیں کراتے۔ بیوی کی ضد سے علاج کراتے ہیں شوہر ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن پاوں میں آپریشن کے بعد لنگ پیدا ہو جاتا ہے تو سسرایک دن کہہ ہی دیتے ہیں، بہو کی ضد سے آپریشن کرایا گیا اور اس کی وجہ سے میرا بیٹا لنگڑا ہو گیا۔ حالاں کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر آپریشن نہ کرایا تو لڑکے کی جان بھی جا سکتی ہے۔

”عشق پیچاں“ بھی ایک پیاری کہانی ہے جو ماحولیات سے متعلق ہے۔ انتہائی خوب صورت افسانہ۔ شروع سے آخر تک اتنی پختہ گرفت کہ قاری ہل نہ پائے۔ اپنے موضوع پر فاضلانہ علمی دست رس۔ عمیق مطالعہ؛ کھرے گہری جڑیں رکھتے ہوئے حقیقی جذبات سے لب ریز قابل رشک بیانیہ۔ یہ کہانی انسان کو یاد دلاتی ہے کہ جینے کی تمنا صرف انسان ہی کو نہیں ہوتی بلکہ جانوروں اور پرندوں کو بھی ہوتی ہے، لیکن انسان اتنا بے رحم ہے کہ اپنے وجود اور خوشی کے لیے دوسروں کا خون کرتا رہتا ہے۔

گفت گو تو تقریبا ہر کہانی پر کی جا سکتی ہے اور ہر کہانی ایک سے بڑھ کر ایک ہے، لیکن سب پر تبصرہ کرنا اور سب پر تفصیلی گفت گو کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ سلمٰی جیلانی ایک فنکارہ ہیں اور اپنی کہانیوں میں فن کو خوب صورتی سے کاڑھنا جانتی ہیں۔ تبھی تو وہ اتنی کم مدت میں ادبی دنیا میں ایک معتبر نام بنانے میں کام یاب ہوئی ہیں۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah