25 جولائی کے انتخابات -وسیع تر تاریخی تناظر میں


الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ممبران برائے مرکزی و صوبائی قانون ساز اسمبلی کے انتخاب کے لیے 25 جولائی کا دن مقرر کیا جا چکا ہے ۔ طے شدہ پروگرام کے تحت تمام مراحل بخیرو خوبی انجام پار ہے ہیں۔ تاہم بعض اقلیتی گروہ و مٹھی بھر دانشوروں کی جانب سے وقت مقررہ پر انتخابات کے انعقاد پر شک و شبہ کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں خم ٹھونک کر کارزار سیاست میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ اپنا انفرادی جماعتی پروگرام برائے اصلاح و احوال و قومی ترجیحات واضح کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی خامیاں اور برائیاں اچھالنے پر سارا زور صرف کیا جارہا ہے۔چہ جائیکہ سب انفرادی یا اجتماعی طور پر قومی مسائل کے حل اور اس کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل کا سوچتے،سیاسی پارٹیوں کے قائم کردہ میڈیا سیل پوائنٹ سکورنگ کے لیے مخالف راہنماؤں کی ذاتی زندگی پر غیر اخلاقی حملوں کے لیے منظم انداز میں لشکر کشی پر آمادہ نظر آتے ہیں

مستقبل بینی: دُور اندیشی اور آئندہ وقتوں میں پیش آنے والے واقعات کی پیش بندی سیاسی دانشمندی کے اولین اور ناگزیر تقاضوں میں شامل ہو چکی ہے۔ اس کے بغیر اقوام کا دور حاضر میں زندہ رہنے اور باعزت ،پُروقار انداز میں جینے کا تصور بھی محال ہے۔اس کار با تدبیرکے لیے ترقی یافتہ اقوام نے مختلف شعبوں کے ہُنر یکتا افراد پر مشتمل ریسرچ سیل اور تِھنک ٹینک قائم کررکھےہیں جو مختلف ادوار پر محیط حالات کا معروضی جائزہ لے کر ایک سے زیادہ حل نہ صرف تلاش کرتے ہیں بلکہ اُن پر عملدار آمد کے لیے مختلف آپشنز بھی تیار کرتے ہیں۔ ہم اس مفروضے کو مدِ نظر رکتھے ہو ئےپاکستان میں منتخب جمہوری حکومتوں کی بذریعہ مارشل لاء رخصتی کا اس پہلو سے جائزہ لیتے ہیں کہ ملک عزیز میں مارشل لاء کا نفاذ محض حادثاتی تھا یا اس کے پس پردہ ایک طویل منصوبہ بندی و ریاضت کا ر فرما تھی ۔ ہر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر  نے  آتے ہی اعلان کیا کہ وہ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات ؛جمہوری قوتوں کو بچانے اور عوامی مفاد کو تحفظ دینے ایک محدود مدت کے لیے آیا ہے۔ در حقیقت جنرل محمد ایوب خان یا جنرل محمد ضیاء الحق کی فوجی مداخلت کی ظاہری وجوہات کے برعکس عالمی طاقتوں کی برسوں سےحالات کی تجزیہ کاری اور اپنے عزائم کے حصول کے لیے باقاعدہ پلاننگ (منصوبہ بندی) کار فرما تھی۔ جنرل پرویز مشرف کی 12 اکتوبر 1999 کو فوجی مداخلت کی وجہ سیاچن کے محاذ پر فوجی چڑھائی اور وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے اِن کی بطور سپہ سالار فوج بر طرفی ہی نظر آتی ہے لیکن صاحبان ِ حال جانتے ہیں کہ اس بات کا فیصلہ کہ خطے میں پیش آنے والے معاملات سے نمٹنے کے لیے مجوذہ تبدیلیوں پر عملدرآمد اور مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے جمہوری حکومت کو رخصت کر کے وَن میں ڈکٹیٹر شِپ کا وقت آن پہنچا ہے ،بہت عرصہ پہلے کہیں اور طے پا چکا تھا۔

پہلے ہم 5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق کے بذریعہ فوجی انقلاب حکومت پر قابض ہونے کا اس نقطہ نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں اِس ایکسر سائز کے پس پردہ بظاہر رونما ہونےواقعات یعنی اپوزیشن جماعتوں کی الیکشن میں دھاندلی کے سبب شروع کی جانے والی تحریک کی بجائےوہ طویل تجزیاتی رپورٹ تھی جس پر امریکی اداروں میں بیٹھے تِھنک ٹینک بشمول سی آئی اے اور پینٹا گون نے عملدرآمد کا قبل ازوقت پروگرام طے کر رکھا تھا۔ اس وقت امریکہ اور رُوس دو عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر تھی جس کے اینٹی کلائمکس کے طور پر روس کی عالمی قوت اور دنیا کی دیگر ممالک میں اس کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا تھا۔اس مقصد کے لیے جنگ کا میدان روس کے نواح میں سرزمین افغانستان کو منتخب کیا گیا۔پروگرام کے عین مطابق سویت یونین کو بذریعہ ٹریپ فوجی مداخلت کے لیے میدانِ جنگ میں اترنے کی ترغیب دی گئی۔ کاش کے جی بی اور اس وقت کی روسی قیادت اس دامِ فریب میں نہ آتی اور اس کے متوقع نتائج پر غور کر لیتی تو آج دنیا میں طاقت کا توازن یوں نہ بگڑتا۔توقع کے عین مطابق اس حکمت عملی کے اثرات مرتب ہوئے۔ رُوس کی معاشی حالت اور فوجی مورال اس حد تک تباہ ہوگئے کہ اقوام عالم میں اس کے سیاسی اثر و رسوخ پر بُری طرح زوال آیا۔یونین آف سویت رشیاء کا شیرازہ بکھر گیا۔

شطرنج کی بساط پر کھلاڑی اکثر دوسرے فریق کی چالوں کا دفاع کرنے کی بجائے اس کے اپنے گھر میں گُھس کر شکست دینے کا پلان بناتے ہیں۔ مخالف کی نقل و حمل کو اس کے ایریا میں محدود کر کے مات دینے کی حکمت عملی بھی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ دُنیا میں وقوع پذیر ہونے والی جنگوں اور دوسرے کے علاقے پر یلغار کے پیچھے عام طور پر بلکہ ہمیشہ ہی معاشی اہداف پائے جاتے ہیں۔مختلف اقوام نے تاریخ کے جس دور میں بھی کسی دوسرے پر چڑھائی کی اس کے مقاصد میں مالی مفادات کا حصول ہی مقدم تھا۔یہ الگ بات کہ عوامی حمایت کے حصول یا متوقع مذمتوں سے بچنے کے لیے مختلف جواز اور بہانے تراشے گئے۔ کبھی اسے مذہبی لبادہ پہنا یا گیا اور کبھی انسانی حقوق کی آبیاری کی آڑ میں کمزور اقوام کی نسل کشی کی گئی ۔ امریکہ اور روس کے درمیان مفادات کے ٹکراؤ کے تانے بانے افغانستان اور وسطی ایشیا میں برطانوی دور کی گریٹ گیم سے جا ملتے ہیں۔ افغانستان کو جغرافیائی طور پر جنوب اور سنٹرل ایشیاء میں مرکزی حیثیت حاصل ہے جس بِناء پر اسے سنٹرل ایشیاء کا چوک بھی کہا جاتا ہے۔ خطے کے تمام ممالک کی جانب تجارتی سڑکیں اسی چوک سے نکلتی ہیں۔ ہندوستان پر اپنا تسلط قائم ہوتے ہی برطانیہ نے روس سے مل کر اس خطہ کو نظری و دماغی طور پر آپس میں تقسیم کر لیا تھا۔ دہلی میں بیٹھ کر پنجاب پر قبضہ کی بجائے افغانستان کی طرف مہمات بھجوانے کی کوشش کی گئی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے راہداری سہولتوں اورحتی المقدورامداد کے لیے بات چیت کامیاب نہ ہوسکی ۔ اس کے باوجود انگریزوں نے سکھ حکومت کے ساتھ الجھ کر اپنی فوجی طاقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اگرچہ افغان زمین پر قبضہ کی خواہش بھاری جانی نقصان کے باعث ترک کرنا پڑی تا ہم اپنی روایتی تجارتی مراعات کے لیے افغان حکومت سے اس کے خارجہ تعلقات پر کنٹرول کا معاہدہ کر لیا گیا۔ 1919ء میں برطانیہ نے افغانستان کے بیرونی دنیا سے تعلقات کو زیر نگیں لانے کا معاہدہ ختم کر دیا۔ افغانستان اب اپنے خارجہ تعلقات کا خود ذمہ دار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان اپنا یوم آزادی اس واقعہ کے تحت 19 اگست کو مناتا ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5