انتخابات 2018: وزیر اعظم عمران خان، صدر زرداری


انتخابات 2018 کے حوالے سے قیاس آرائی کی جائے تو سیٹوں کے لحاظ سے تحریک انصاف پہلی، مسلم لیگ ( ن) دوسری اور پیپلزپارٹی تیسری بڑی پارٹی بن سکتی ہے۔ البتہ پاکستان میں انہونی چونکہ ایک عام سی بات ہے۔ لہذا مسلم لیگ (ن) کو ہمدردی اور مظلومیت کے لبادے کی آڑ میں برتری بھی دلائی جاسکتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان، صدر زرداری
اس بلاک میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، آزاد امیدوار، ایم ایم اے اور ایم کیو ایم اتحاد کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور زرداری صدر ہو سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے کے اتحاد سے حکومت مستحکم ہو سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی فیڈریشن کے متعلق وسیع سوچ اور آئیں سازی میں بہتر اپروچ تحریک انصاف کے کام آسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کو پارٹی کے اندر اور باہر مفاد پرست خود غرض ٹولے کے بے جا دباؤ سے بڑی حد تک ریلیف مل سکتی ہے۔ اور نازک حالات میں موالانا جیسے زیرک اور زرداری جیسے گھاگ سیاستدان کے مشورے کارآمد ہوسکتے ہیں۔ رہی بات بلاول بھٹو زرداری کے وزیراعظم بننے کی، اول تو پیپلزپارٹی کی موجودہ پوزیشن سے یہ ممکن نہیں، دو‏ئم یہ کہ وہ پارٹی میں اصلاحات کرنے، اسے گراس روٹ لیول پر متحرک کرنے اور عوامی پارٹی بنانے میں دلجمعی سے کوشاں ہیں۔ یعنی ان کی نظر حکومت سے زیادہ پارٹی اصلاح اور عوامی فلاح بہبود پر ہے۔ اور یہی جدوجہد مستقبل میں انھیں وزیراعظم کے لئے ایک مظبوط ترین امیدوار بنا سکتی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف
اس بلاک میں مسلم لیگ (ن) اور قوم پرست پارٹیاں شامل ہیں۔ ایم ایم اے اور آزاد امیدوار حکومت بننے کے امکان کی صورت میں یقینا شامل ہو سکتے ہیں۔ جیپ کو بھی عین موقع پر شہباز شریف تخت لاہور کی جانب موڑ سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے امکانات بہت کم ہیں، لیکن سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں۔ مریم نواز وزارت عظمی کے لئے مسلم لیگ (ن) کی موزوں ترین امیدوار تھی۔ لیکن نا اہل ہونے کے بعد شہباز شریف کے لئے میدان صاف ہوگیا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے مستحکم پوزیشن کی وجہ سے یہ خواہش حسرت بن کے رہ سکتی ہے۔

سازشی تھیوری
شاہ محمود قریشی یا ان جیسے دوسرے رہنماؤں کے وزیراعظم بننے کے نامعقول فیصلے کی پیش رفت کے لئے بعض حلقوں میں اقدامات ہو سکتے ہیں۔ فارورڈ بلاک بن سکتے ہیں۔ لیکن زرداری پارٹی کو سخت حالات میں چھوڑ کر جانے والے شاہ محمود قریشی پر یقینا بھروسہ نہیں کریں گے۔ اس اپ سیٹ (جس کا امکان بہت کم ہے) پر مسلم لیگ (ن) اندرون خانہ محفلوں میں خوشی کے شادیانے اور عوامی سطح پر یقینا ناپسندیدگی کا راگ الاپے گی۔

انہونی
اگر آپ کسی ناخوشگوار نتائج کے متمنی ہیں تو جیپ یقینا ”پرانی سائیکل“ کی جگہ لے سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).