جبران ناصر اپنے اصولوں پر سمجھوتا کر پائیں گے؟


یہ گفتگو دو دوستوں کے مابین جبران ناصر کی بابت ہوئی۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اسے ایک مکالمے کی شکل میں ہی قلم بند کیا گیا ہے۔

فرد ایک: کیا تم بھی جبران ناصر سے اس کے عقیدے کی بابت پوچھنے لگی تھی جیسے کہ ساری دنیا پوچھ رہی ہے؟

فرد دو: ارے نہیں میرے پاس تو اور بہت سے سوال تھے لیکن اس میں سے ایک یہ تھا کہ میں نے ابھی تک اپنی ہوش میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ کسی امیدوار سے اٹھا کر یہ سوال کیا گیا ہو کہ آپ اپنا عقیدہ بتائیں تو مجھے آپ یہ بتائیں کہ یہ آپ سے کیوں کیا جا رہا ہے؟ آپ نے ایسا کیا کیا ہے کہ لوگ آپ کا گریبان پکڑ کی چاروں طرف سے یہ پوچھنا شروع ہو گئے ہیں۔  لیکن اس نے ایک جگہ اس بارے میں یہ کہا ہے کہ مجھ پر چونکہ کرپشن کی کیسز نہیں ہیں لہذا مجھے مذہب کے نام پر پھنسایا جا رہا ہے۔

فرد ایک: ہاں یہ تو ہے ۔۔۔

فرد دو : لیکن اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ مان لیا آپ پر کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے آپ بہت غیر روایتی امیدوار کے طور پر ابھرے ہیں لیکن آپ اکیلے تو نہیں ہیں ۔ ویسے تو جماعتیں بھی ہیں۔ عوامی ورکرز پارٹی پر بھی کرپشن کے کیسز نہیں ہیں۔ وہ بھی بہت غیر روایتی ہیں لبرل پراگریسیو فورس ہے تو پھر آپ نے ایسا کیا کر دیا کہ آپ پہ یہ الزام بار بار آ رہا ہے۔

فرد ایک: اس میں ایک بہت بنیادی بات ہے جو شاید تم مس کر رہی ہو عوامی ورکرز پارٹی کے لوگ اسلام آباد سے کھڑے ہوئے ہیں۔ وہاں پہ ایک تو ملٹی پارٹی کا پرابلم نہیں ہے۔ دیکھ مذہب کا مسئلہ جو ہے نا وہ کبھی بھی اپر کلاس اور لوئر کلاس میں نہیں ملے گا تجھے ہمیشہ وہ مڈل کلاس کا پرابلم ہوتا ہے۔۔۔ اس پر وہاں کھیلا جا سکتا ہے۔ اور کراچھی میں شدت پسندی اور فرقہ ورانہ فساد بہت بڑھ رہا ہے۔ آپ اگر اس کا موازنہ پچھلے الیکشنز سے کریں تو آپ دیکھیں گی کہ جو پیپلز پارٹی تھی اس کو باقاعدہ روکا گیا حملے کیے گئے تھے۔ سو لبرل لوگوں کو خصوصاً نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

فرد دو: تمہاری بات درست ہے مگر کراچی ہی کے آزاد امیدواروں کی بات کریں تو ایک اور اہم نام ایک غیر روایتی امیدوار راشد رضوی بھی ہے۔

فرد ایک: اس کی میں تمہیں بنیادی بات بتاوں کیا ہے جبران پہ یہ انگلیاں اس لیے زیادہ اٹھ رہی ہیں کہ جبران نے جب پشاور میں کرسچن کالونی پہ حملہ ہوا اس نے انسانی زنجیر، بنائی جب اے پی ایس پر حملہ ہوا اس نے طالبان کے خلاف آواز اٹھائی وہ واحد بندہ ہے جو کہ اس طرح کی کیا بلکہ ہر طرح کے وائلینس کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔

فرد دو : ٹھیک ہے، تو اگر وہ اس تو اگر وہ اس بنیادی نکتے پہ کھیل رہا ہے تو اس سے اس مقامی ووٹر کو کیا فائدہ ہو گا جس کے گھر میں پانی نہیں ہے بجلی نہیں ہے جس کا گھر کے باہر گندا نالا بہہ رہا ہے اس کا کیا فائدہ ؟

فرد ایک: وہ قومی اسمبلی کی سیٹ کے لے کھڑا ہوا ہے جس کا کام ہے پالیسی میکنگ۔

فرد دو : چلو مان لیا ۔۔۔ چلو مان لیا کہ اس وقت ملک کے فرقہ وارانہ تشدد، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں بڑے مسئلے ہیں۔ مگر ایک اکیلا آزاد امیدوار بھلے جیت جاتا ہے، وہ اکیلے اس سسٹم سے کیسے لڑے گا؟

فرد ایک: آپ کو وہ انقلاب دینے کے وہ وعدے نہیں کر رہا۔ مگر ان معاملات پر اسمبلی میں ایک آواز تو ہو گی۔ جیسے فرحت اللہ بابر، تاج حیدر، نصرت سحر اور شیری رحمان کی آوازیں سینیٹ میں گونجتی ہیں۔

فرد دو: تو بات تو وہی ہے نا۔ اس کے ساتھ تو کوئی بھی نہیں کھڑا ہو گا۔

فرد ایک: تمھارا مسئلہ یہ ہے کہ تم بہت دور کی سوچ رہی ہو۔ فرض کر لو میرا گھر میں آگ لگی ہو تو میں یہ سوچوں گی کہ میرے ساتھ کون کھڑا ہو گا؟

فرد دو: نہیں۔۔۔ سسٹم کی بات کرو نا یار۔ اسمبلی میں جا کر آپ اکیلے اگر آواز اٹھائیں گے تو آپ کیا حصہ ڈال رہے ہوں گے۔

فرد ایک: تو تم کیا چاہ رہی ہو کہ پہلے وہ پارٹی بنائے اس طرح کے لوگوں کو جمع کرے

فرد دو: میں یہ نہیں چاہتی ۔۔۔۔ وہ خود یہ چاہ رہا ہے کہ پہلے میں الیکشن جیت جاوں اس کے بعد میں پارٹی بناوں گا ۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی یار ۔۔۔ دیکھو مقامی ووٹر یہی چاہتا ہے نا کہ ہاں دیکھو فلاں پارٹی میرا مسئلہ حل کرے گی۔ ایک ووٹر کے طور پر آپ کے دماغ میں کیا ہوگا جب آپ کسی کو ووٹ دینے نکلتے ہیں۔

فرد ایک: یہ وہی ذہنیت ہے کہ ایک وہی جماعت جو لبرل مائنڈ سیٹ کے ساتھ آئی ہو اسی کے پاس پیسہ ہے۔

فرد دو: اگر وہ ہم میں سے ایک ہے تو پھر اسے بتانا چاہئے کہ اس کیمپئین کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے کیوںکہ عام لوگوں کے چندوں سے تو یہ کیمپئین کا بجٹ نہیں نکل سکتا۔

فرد ایک: وہ آج جس حلقے سے لڑ رہا ہے لوگ پیسے دیتے ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے لوگ پیسے دیتے ہیں۔

فرد دو: عام لوگوں کے چندوں سے ایسی کیمپئین نہیں ہوسکتی۔

فرد ایک :  دیکھو اگر تمھارا پیمانہ یہی ہے پھر تو کوئی بھی اس کے لئے نہیں جائے گا، پھر تو عمران خان ہی بہترین آپشن ہے۔

فرد دو: ہاں تو عمران خان بھی پہلے جبران ناصر تھا۔

فرد ایک: آہ ۔۔۔۔ نہیں۔ مگر جبران کے منہ سے کوئی تُک کی بات تو آتی ہے۔

فرد دو: ہاں اس کی باتیں بڑی تُک کی ہیں کیونکہ جب میں بھی سن رہی ہوتی ہوں تو مجھے بھی کانوں کو بھلی لگ رہی ہوتی ہیں۔

فرد ایک: ستانوے میں میں اپنے گھر والوں سے سنا کرتی تھی پورے علاقے میں عمران خان کو ایک بندہ ووٹ دینے کو تیار نہیں تھا۔ آج اگر جبران کے پاس پچیس ہزار نوجوان ہیں تو اگر جبران بھی عمران خان کی طرح نکلتا ہے پھر بھی جمہویت کو چانس دینے میں کیا جاتا ہے۔۔۔ اچھا ہے ہمارے پاس کوئی نئے لوگ آئیں۔ تم دیکھو اس کے سارے کیسز کی تاریخ۔ خدیجہ والا کیس تھا، شاہ رخ جتوئی والا کیس، نقیب اللہ والے کیس، پھر اے پی ایس پہ یہ بولا تھا اور پھر لال مسجد والا معاملہ تھا۔

فرد دو: یہاں پر میرا سوال یہ ہے کہ جن ایشوز پر اس نے اکیلے لڑا وہ اس نے ایک سماجی کارکن ہونے کے ناطے کیا مگر ایک سماجی کارکن اور سیاست دان میں ایک فرق ہے۔ اب وہ ایک مختلف پوزیشن مین ایک مختلف حیثیت میں کھڑا ہے

فرد ایک : ہاں تو ایک سماجی کارکن سے زیادہ کون جانے گا کہ ایشوز کیا ہیں۔

فرد دو: میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہاں وہ پیشے سے وکیل ہے اس نے ان تمام اشوز کو قانونی طور پر جانچا اور پھر سماجی کارکن ہونے کے ناطے ان پر آواز بھی اٹھائی وہ پبلک فورمز پر بھی گیا اس نے وہ سب کچھ کیا جو اس حیثیت میں اس سے ہو سکا۔ سیاست تو سمجھوتے کا نام ہے پالیسی کی تشکیل کے لیے اسمبلی مین موجود ایک اکیلا واحد آزاد امیدوار کیا کردار ادا کر سکے گا۔ تو میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ ایسے کیسے ممکن ہے  کہ جس سختی کے ساتھ وہ ایک سیاسی رہنما کے طور پر اب ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ جیت کر یا ہار کر دونوں صورتوں میں قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنا بھی لیتا ہے تو یہ سخت مزاجی اس کو کتنی دور تک لے جا سکتی ہے؟ نیز وہ غصے کا بھی تیز ہے تو ایسے میں یہ مزاج کہاں تک لے جائے گا اسے اسمبلی میں۔

فرد ایک: دیکھو عمران خان کو ستر فیصد ووٹ اس کی پرسنیلیٹی پر پڑتا ہے تمہین کیا لگتا ہے کہ لوگ اس کے نظریے کے ساتھ ہیں۔ اب اسی طرح جبران ناصر بھی ہے، جسے زیادہ تر ووٹ اس کی پرسنیلیٹی پر ہی ملے گا۔ میں جانتی ہوں کہ ہمارا آدھے سے زیادہ طبقہ تو غیر تعلیم  یافتہ ہے جسے پتہ ہی نہیں کے اسے ووٹ کیوں دینے جانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).